حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عزیز نے دریافت کیا کہ کراچی میں گجر نالے کی حالت بہتر بنانے اور تجاوزات ختم کرنے وغیرہ کے لئے ورلڈ بینک کی امداد آئی تھی۔ پھر ایف ڈبلیو او کو ٹھیکہ کس نے دلوایا، ٹھیکہ دلواتے وقت اس رقم کا کچھ حصہ متاثرین کی بحالی کے لئے کیوں نہیں رکھا گیا؟
جواب سوچ رہا تھا کہ انہوں نے دوسرے سوال کا راکٹ دے مارا۔ بولے ہمارے ملک میں ادارے اور محکمے اپنا اپنا کام کیوں نہیں کرتے؟
سنبھل ہی رہا تھاکہ تیسرا سوال داغ دیا۔ فرمایا، ہمارے محترم جرنیل دوران سروس حب الوطنی اور ریٹائرمنٹ کے بعد مذہب کی تبلیغ کیوں کرتے ہیں؟
ان تین سوالوں کا جواب ہے تو بہت سادہ اور چند لفظی لیکن میں نے سوچا اس عزیز کو چائے پلاکر رخصت کردوں اور لائبریری میں سے جناب شوکت صدیقی کا ناول ’’جانگلوس‘‘ نکال کر پھر سے پڑھوں۔ جانگلوس پڑھنے کا الگ ہی لطف ہے شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس وقت ہو، بوقت طلب کافی میسر ہوسکتی ہو ، آپ سوچ رہے ہوں گے میں اپنے عزیز کے تین سوالوں کا جواب دینے سے بھاگ کیوں رہا ہوں؟ درست سوچ رہے ہیں۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی کتاب ہے تو اس کی ورق گردانی شروع کردیجئے۔ کیونکہ بعض سوالوں کے جواب ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے۔
مثلاً کل دو باتیں ہوئیں، اولاً یہ کہ قائد محترم جناب میاں نوازشریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی جماعت کے علاقائی ذمہ داروں اور ارکان اسمبلی وغیرہ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
’’آپ ثابت قدم رہیں جھکیں نہ بکیں یعنی پارٹی بدلیں نہ ہی وفاداری پر حرف آنے دیں، استقامت کے ساتھ ڈٹے رہیں گے تو باطل قوتوں کو شکست ہوگی، وفاداری تبدیل کرانے کی کوشش ہو تو لغزش نہیں آنی چاہیے۔‘‘
دوسری بات قائد انقلاب جناب مولانا فضل الرحمن نے کہی۔ انہوں نے انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے عمل میں اعتماد میں نہ لئے جانے پر شاہد خاقان عباسی سے احتجاج کیا اور کہا ہم اس عمل کا حصہ نہیں بن سکتے؟
اب ان دو قائدین کے فرمودات پر تبصرے سے بہتر وہی کام ہے جو پہلے عرض کیا۔
یعنی تین جلدوں پر مشتمل جانگلوس پڑھ لیا جائے۔ ویسے موجودہ حالات میں پروفیسر اعجاز قریشی کی کتاب ’’ون یونٹ اور سندھ‘‘ بھی دوبارہ پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے ساعت بھر کے لئے کاغذ سے نگاہیں ہٹیں تو سامنے شیشے کے پیچھے مرشد جی ایم سید کی کتاب ’’میرے دوست میرے ساتھی‘‘ رکھی دکھائی دی۔
اس کتاب میں مرشد نے کچھ بزرگوں کے ساتھ اپنے ہم عصروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ مرشد کی معرفت ہی ہمیں سندھ کے ایک عظیم کردار اور حریت فکر کے علمبردار صوفی شاہ عنایتؒ سے تعارف ہوا تھا۔ صوفی شاہ عنایت کو آپ معروف معنوں میں کمیونسٹ کہہ سکتے ہیں۔ وہ مشترکہ کھیتی باڑی اور غیرطبقاتی نظام و سماج کے علمبردار تھے۔ سندھ بلکہ یوں کہیں کہ ہندوسندھ میں پہلی کسان تحریک کے بانی تھے تب کمیونسٹوں کا دور دور تک وجود تھا نہ امکانِ ظہور، یہ مغلوں کے عہد کی بات ہے۔
صوفی شاہ عنایتؒ اس فکر کے علمبردار تھے کہ زمین اس کی جو کاشت کرے۔ غیر حاضر زمینداری ان کے نزدیک جبرواستحصال کی بدترین صورت تھی ان کی فکر نے کسانوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ زمیندار، وڈیرے، حکمران اور دیندار ان کے دشمن ہوئے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صوفی شاہ عنایتؒ کا نام اور فکر زندہ ہے ان کے دشمنوں کی قبریں بھی نہیں ملتیں۔
مرشد جی ایم سید نے سندھ کے ایک اور صوفی مخدوم بلاولؒ کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا۔ مخدوم بلاولؒ بھی حریت فکر اور انسان دوستی کے علمبردار تھے۔ چند دن یا یوں کہہ لیجئے ہفتہ دو ہفتہ قبل ہمارے محترم دوست پروفیسر تنویر خان نے ایک عشائیہ کم مکالمے کا اہتمام کیا۔
چار گھنٹوں پر پھیلی یہ نشست جس میں لذت دہن کا بھرپور اہتمام تھا تو بولنے کی بھی کامل آزادی تھی۔ اس نشست میں خوب باتیں ہوئیں۔ سیدی احسان شاہ کا سوال تھا کہ صوفی کس کو کہتے ہیں۔ ہمارے حافظے پر بلاتاخیر مرشدی بلھے شاہؒ، شاہ عنایت لہوریؒ، صوفی شاہ عنایتؒ سندھی اور مخدوم بلاولؒ کے کردار و عمل نے دستک دی۔ عرض کیا صوفی جمع و طمع سے محفوظ رہتا ہے۔ زمین زادوں کے درد کو محسوس ہی نہیں کرتا بلکہ اس درد کی دوا بننے کی سعی کرتا ہے۔
اپنے عہد کے سامراجی طبقات کے جبروستم کا نشانہ بنتا ہے۔ آپ ان چاروں بزرگوں کے حالات زندگی پڑھ لیجئے، حق آشنائی کے لئے بہت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ان تین سوالوں کا کیا ہوا جو کالم کی ابتدائی سطور میں لکھے ہیں۔
وہ سوال اپنی جگہ موجود ہیں صاحبو ، ان کے جواب بھی ہیں۔ جس ماحول، نظام اور سماج میں ہم جینے پر مجبور ہیں یہاں لازم نہیں ہر سوال کا جواب دیا جائے۔ چوک پر آئینہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
گزشتہ شب ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا ہر تیسرا صحافی ذہنی دباو کا شکار ہے۔ اس رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ ہے مثلاً یہ کہ سب سے زیادہ ذہنی دباو کا سامنا رپورٹر صاحبان اور سب ایڈیٹرز کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ ذہنی دباو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہونے کے دوران ان حالات کی وجہ سے پیدا ہوتاہے جن سے صبح و شام واسطہ پڑتا ہے۔
گوکہ یہ رپورٹ کراچی میں کام کرنے والے صحافیوں کے حوالے سے ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں سمجھیں تو اب پورے ملک میں یہی حالت ہے۔
کالم کے اس حصہ میں مجھے یاد آیا کہ سوشل میڈیا کے فوائد بہت ہیں آپ پڑھنے سمجھنے اور مکالمے کے لئے اس کا شعوری طور پر استعمال کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ کاپی پیسٹر ہیں تو دوسرے صارفین کے ساتھ تاریخ کو مسخ کرنے کے ذمہ دار بھی ٹھہر سکتے ہیں۔
کاپی پیسٹنگ دو طرح کی ہوتی ہے اولاً یہ کہ آپ کو ایک تحریر اچھی لگی اس کے سیاق و سباق سے واقف تھے آپ نے شیئر کی یا کاپی کرکے وال پر لگادی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کو تحریر میں "اچھوتا” پن لگا، سیاق و سباق اور حقائق سے عدم آگاہی کے باوجود آپ نے اسے آگے بڑھادیا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لکیر کے فقیر اس تحریر کو لے اڑتے ہیں۔
مثال کے طور پر پچھلے چند برسوں سے سوشل میڈیا پر مرشد کریم حضرت سید عبداللہ شاہ بخاری المعروف بابا بلھے شاہؒ کے جنازے کے حوالے سے خرافات کو تاریخ کے طور پر پیش کر کے داد سمیٹی جارہی ہے۔
مرشد بلھے شاہؒ کے استاد مولوی غلام مرتضیٰ نے ہی ان کے کفر کا فتویٰ دیا تھا، حاکم قصور کے ایما پر۔ شاہ جی کی وفات ہوئی تو حاکموں اور مولویوں کے ڈر سے کوئی جنازہ پڑھنے کو تیار نہیں تھا۔ تین دن بعد قصور کے نواح میں مقیم اس وقت کے ایک اور صوفی بزرگ سید زاہد ہمدانیؒ چند احباب کے ہمراہ تشریف لائے اور انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔
سید زاہد ہمدانیؒ صوفی بزرگ تھے ان کی قصور شہر میں آمد اور بلھے شاہ کا جنازہ پڑھانے کی روایت جناب اکرم شیخ سمیت دیگر محققین نے اپنی کتابوں میں درج کیا۔ یہ کاپی پیسٹر مخلوق پتہ نہیں کہاں سے روایت لے آئی کہ بلھے شاہ کا جنازہ ایک کھسرے نے پڑھایا تھا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس معاملے بارے پوری تفصیل معلوم نہ ہو اسے آگے بڑھانے سے اجتناب زیادہ بہتر ہے تاریخ کو مسخ کرنے کی بجائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر