اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چناب کے کنارے||ظہور دھریجہ

دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، چولستان یونیورسٹی بہاولپور اور خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کو ہر صورت مقامی خطے کی تہذیب و ثقافت پر تحقیق کا آغاز کرنا چاہئے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر سجاد نعیم کی کتاب ’’چناب کنارے‘‘ کے نام سے آئی ہے یہ کتاب ایک سفر نامہ ہے جو انہوں نے دریائے چناب کے آغاز کے علاقہ سیالکوٹ سے لیکر اُس کے اختتام سیت پور کا سفر نامہ ہے۔ ڈاکٹر سجاد نے گجرات، وزیر آباد، گجرانوالہ، سرگودھا، شاہ پور، چنیوٹ، جھنگ، شور کوٹ، مظفر گڑھ، شیر شاہ اور شجاع آباد سے سیت پور تک کا پیدل سفر کیا۔ معروف سرائیکی شاعر پروفیسر رفعت عباس نے بجا طور پر لکھا ڈاکٹر سجاد نعیم نے دریائے چناب سے محبت اور اس کی لہروں پر رواں اور کنارے بسنے والے لوگوں سے سنگت کی ہے۔ اس نے پرندوں اور آبی مخلوق کے ساتھ سفر کیا ہے۔ اس کے بیلے میں موجود نباتات اور ان کے رنگدار پھولوں سے ملاقات کی ہے۔
اس دریا کے پریم میں لکھی گئی یہ کتاب ایک لاجواب تحفہ ہے۔ ڈاکٹر سجاد نعیم کا تعلق پنجاب کے علاقے کسووال سے ہے ۔ ماں بولی پنجابی ہے۔ جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملازمت کے سلسلے میں وسیب میں سکونت اختیار کی ہے مگر وسیب میں رہنے کی وجہ سے سرائیکی اتنی خوبصورت بولتے ہیں کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق کسووال سے ہے۔ یہ کتاب دریائے چناب پر ریسرچ ورک بھی ہے اور پاکستان کی مقامیت سے محبت کا اظہار بھی۔ اس کتاب سے مجھے یاد آیا کہ یہی وہ کام ہے جو کہ ہماری یونیورسٹیوں کو کرنا چاہئے مگر افسوس کہ ہماری یونیورسٹیوں میں مقامیت اور پاکستانی تہذیب و ثقافت اور پاکستانی زبانیں جرم بنا دی گئی ہیں۔
انڈیا سے ہم نے کیا آزادی حاصل کی، پہلے دن سے ہی ہندی کو اردو کے نام سے سرکاری زبان بنا دیا گیا۔ انگریزی کی مجبوری اپنی جگہ مگر یہ کیا مجبوری ہے کہ سرزمین پاکستان کی تہذیب، ثقافت اور اُس کے آثار کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب نے چناب کنارے پر اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ ہمارے قرب میں آخری سانسیں لیتے ہوئے دریائوں پر وقت اور فراموشی کی جمی ہوئی کائی کو تحقیق اور جستجو کی مدد سے کھرچ کر ہم ماضی کی روایت کے اصل رنگ کو دیکھ سکتے ہیں،
میرے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ ڈاکٹر سجاد نعیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا حصہ ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اس نوع کی منفرد تحقیق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یونیورسٹی کے وقار میں اضافہ کریں گے۔میں نے وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی سے ملاقات کے موقع پر کہا تھا کہ آپ پہلے وائس چانسلر ہیں جو خطے کی تہذیب، ثقافت اور زبان و ادب کی ترقی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کو ریسرچ کے دروازے کھولنے چاہئیں۔ صرف ایک چولستان کو ہی لے لیں چولستان ہی ایک جہان کا نام ہے۔ چولستان میں ہزارہا سالوں سے لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں کوئی ہسپتال نہیں لیکن انسانوں اور جانوروں کا علاج مقامی جڑی بوٹیوں سے ہوتا آرہا ہے مگر آج تک ریسرچ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔
کسی کو پتہ نہیں کہ بکھڑا، گورکھ، پان، بوپھلی، کھار، لانی، گندی بوٹی، راٹ سٹ، لونگ، لائنا، چنڈ، ڈودھک، کرینھ، کوڑ تمہ و دیگر نباتات کیا ہے؟ چولستان میں ایک قطرن ہے جس کی خوشبو کا مقابلہ فرانس کا پرفیوم نہیں کر سکتا۔ ان نباتات سے چولستان میں مرہم بھی بنائے جاتے ہیں اور جملہ بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔ چولستان میں سانپ عام ہیں۔ آج ہسپتالوں میں ٹیکہ نہیں ملتا مگر چولستانیوں کے پاس سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ چولستان کے مویشی سیاہ ہرن، چنکارہ، بارہس نگھا، خرگوش، گیدڑ، لومڑی، اونٹ، گائے، بھیڑ بکری ان سب پر تحقیق ہونی چاہئے۔
زویالوجی ڈیپارٹمنٹ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ چولستان کے پرندے باز، تیتر،گدھ، چرگ، کشمیرا ، کونج و دیگر کے بارے میں بھی تحقیق اور ریسرچ ہونی چاہئے کہ یہ مسافر پرندے کتنی محبت سے ہزاروں کلو میٹر کا سفر کرکے امن اور پناہ کی تلاش میں چولستان آتے ہیں، مگر اُن کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ خواجہ فرید نے جس روہی کو امن کے گہوارے کا نام دیا، روہی کے ٹیلوں کو کوہ طور سے تشبیہ دی اور جس روہی کے کانٹوں کو شمشاد و صنوبر کا نام دیا، آج وہ روہی درندوں کے حوالے کرکے کیوں برباد کر دی گئی ہے؟
دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، چولستان یونیورسٹی بہاولپور اور خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کو ہر صورت مقامی خطے کی تہذیب و ثقافت پر تحقیق کا آغاز کرنا چاہئے۔ عجب بات یہ ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی دو سالوں سے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کھولنے کا اعلان کرتی آرہی ہے مگر شعبہ تک نہیں کھولا جا رہا حالانکہ اس یونیورسٹی نے بہت بڑے کام کرنے ہیں۔ یورپ نے ایجادات کی ہیں، تو اُس کی بنیاد وہاں کی یونیورسٹیوں کی تحقیقات ہیں۔ ہمارے ہاں سب کچھ اُلٹ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ چولستان ایک ایسا گمشدہ جہان ہے، جسے کھولنے کی ضرورت ہے۔ چولستان کا صحرا، راستے، سفر، مال مویشی، چرواہے، پرندے، جڑی بوٹیاں وہاں کی بود وباد، لوک کہانیاں، قومیں، نسلیں، رسم و رواج، محاورے، پہیلیاں ان سب پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
کیا یونیورسٹیوں کے چانسلر اس طرف توجہ دیں گے؟ ڈاکٹر سجاد نعیم کو اُن کی تحقیقی کاوش پر مبارکباد دیتا ہوںکہ انہوں نے دریائے چناب سے ملاقات کرا دی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ موصوف نے دیانتداری کے ساتھ دریائے چناب کی تاریخ و جغرافیہ، شہر و بستیاں، زبان، ادب و ثقافت، لوک کہانیاں، لوک گیت، کہاوتیں، محاورے، پہیلیاں، لوک تفریحات، لوک فن، رسم و رواج، ذاتیں، پیشے، دستکاریاں، لباس، آبی پرندے اور جانور سب کا ذکر محبت اور دیانتداری کے ساتھ کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں رنگین صفحات میں دریا ساتھ رہنے والے افراد کی تصویر، کشتی، ملاح، وہاں کے پکھی واس اور مور جو ٹوکریاں بناتے ہیں کی تصاویر کو دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ دریائے چناب کے آغاز سے اختتام تک میرے اپنے وسیب کا قصہ ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: