رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب کو پنجاب کے حکمرانوں نے جنوبی پنجاب کہہ کر اس کی تاریخی شناخت کو مسخ کرنے کی روش کئی برسوں سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ آخر سرائیکی کہنے میں کیا حرج ہے؟ ہمارے عجیب تضادات ہیں۔ گھروں میں پنجابی‘ سندھی‘ پشتو اور بلوچی بولیں‘ ہم زبانوں سے بھی کلام مادری زبان میں ہو اور ساتھ شور بھی مچاتے ہیں کہ لسانیت زور پکڑ رہی ہے۔ ماں بولی کسی کی جو بھی ہو‘ اسے اس کو محفوظ کرنے‘ بولنے اور اس پر فخرکرنے کا حق ہے۔ سرائیکی کو بھی ان زبانوں میں شامل کر لیں‘ اور تقریباً ایک درجن کے قریب اور بھی ہیں جو ملک کے طول و عرض میں بولی جاتی ہیں۔ ہمارے کچھ پاکستانی قومیت پسند احباب اور دوست ملکی یکجہتی کو بڑھانے کے لیے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قومی زبان‘ اردو میں بات کریں‘ بس یہی ترقی پائے‘ باقی زبانوں کو چھوڑیں۔ گزارش ہے کہ اردو کی طرح وہ سب بھی ہمارا ورثہ ہیں‘ صدیوں سے چلی آ رہی میراث۔ یہ کون سی دانشمندی ہے کہ ہم ان کو کھو دیں‘ ایسے ہی کہ کوئی اپنی ثقافت اور تہذیب کو دری کی ٹوکری میں پھینک دے۔ میں اپنے وسیب باسیوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ جنوبی پنجاب کی اصطلاح مصنوعی طور پر‘ سیاسی اور سرائیکی شناخت کو مدہم کرنے کی غرض سے گھڑی گئی ہے۔ اس پر بحث کرنا اس وقت مقصد نہیں‘ مقصد جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ پر بنائے گئے ایک پل کی آپ کو کہانی سنانا ہے۔ اس کہانی میں اس خطے کی ترقی‘ اس کے عوام سے ہمارے حکمرانوں کی محبت اور اس کے ”عوامی‘‘ نمائندوں کے اصلی چہرے اور پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانوں کا کردار مکمل نہیں تو ایک جھلک کے طور پر شاید آپ کو نظر آجائے۔
ایک عرب حکمران خاندان ہمارے چولستان اور بلوچستان کے صحرائوں میں نصف صدی سے تفریح کے طور پر بسیرا کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی بعض دیگر ریاستوں کے شہزادے بھی سردیوں میں پڑائو ڈالتے ہیں۔ رحیم یار خان شہر سے چولستان کی جانب کچھ فاصلے پر ابوظہبی محل دہائیوں سے موجود ہے‘ دریائے سندھ سے تقریباً پینتیس میل مشرق کی جانب۔ دریا سے مغرب کی جانب راجن پور کا ضلع شروع ہو جاتا ہے بلکہ اس کے کچھ علاقے مشرق کی طرف بھی ہیں۔ ان سب علاقوں میں اکثریت مزاری بلوچ قبائل اور سرائیکیوں کی ہے‘ جو راجہ داہر کے زمانے سے بھی پہلے سے یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔ یہ درویش بھی ان میں سے ایک ہے۔ بلوچستان کی سرحد دریا کے ساتھ اندازاً پچاس ساٹھ میل سے زیادہ نہیں ہے۔ درمیان میں بہت ہی زرخیز علاقہ ہے‘ مگر نہری پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے صدیوں سے بارانی چلا آ رہا ہے۔ ہر طرف لق و دق میدان ہیں۔ کہیں کہیں جھاڑیاں اور کچھ آبادیاں نظر آ جاتی ہیں۔ ان کے درمیان سے بہت بڑی اور پکی کچھی کینال گزرتی ہے جو بلوچستان کے کئی اضلاع کو سیراب کرتی ہے۔ راتیں تو نہیں‘ کبھی کبھی پورا دن اس ”پٹی‘‘ میں گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مقامی زبان میں لوگ اس علاقے کو پٹی کہتے ہیں۔ وہاں سے مری اور بگٹی قبائل کے مسکن اور ڈیرے پہاڑی سلسلے کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں‘ خصوصاً بگٹی قبائل سردیوں میں دریا کی طرف ہجرت اور خرید و فروخت کیلئے ہمارے قصبوں کا رخ کرتے ہیں۔
اس علاقے کو چکوال یا پوٹھوہار سے مشابہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہاں سبزہ ہے‘ سبز پہاڑیاں ہیں‘ آباد علاقے ہیں‘ بلوچستان کے ملحق پہاڑ البتہ مٹیالے اور خشک ہیں۔ بارش کے بعد مطلع صاف ہو تو ہم صبح شام اپنے گائوں سے ان پہاڑوں کے نیلگوں رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ فطرت شناس‘ ہمارے جیسے سیلانی اور پرند چرند دشمن شکاری راتوں کو ان صحرائوں میں محفلیں جماتے ہیں۔ شاہی خاندان نے سنا ہے کہ پٹی میں ایک مقام منتخب کرکے حکومت پنجاب سے ٹھیکے پر لے رکھا ہے۔ وہ عربی ٹبہ کے نام سے مشہور ہے۔ شاہ جب تشریف لاتے ہیں تو وہاں جہاز اتارے جاتے ہیں جس کے لیے سٹرپ موجود ہے۔ ہوائی اڈے کو فعال کرنے کے لیے عملہ پہلے ہی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ خیموں کا شہر بس جاتا ہے۔ رحیم یار خان کے محل اور عربی ٹبہ کو ملانے کے لیے انہوں نے مشرف کے دورمیں کچھ ارب روپے دیئے تھے کہ دریا پر پل بنایا جائے۔ کئی سال گزرنے کے بعد بھی پل تو نہیں بنا مگر وہ سارے پیسے پنجاب میں کہیں اور ”ترقی‘‘ کی نذر ہو گئے۔ بادشاہ بھلا کہاں حساب کتاب مانگتے ہیں‘ یہاں ہمارا اپنا نظام بے بس ہے تو دور کے لوگ کیا کریں گے؟ کہتے ہیں کہ اب یہ ”ترقی‘‘ پُرانی ہو چکی ہے‘ اس کے بارے میں فضول سوال کر کے وقت ضائع نہ کریں۔
پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو پہلے پیپلز پارٹی آئی‘ پھر شریفوں کا دور شروع ہو گیا۔ واقعی مجھے خوشی تھی کہ مصنوعی نظام اپنے انجام کو پہنچا اور ہمارے عوامی‘ سیاسی لوگ واپس آ گئے۔ پھر ایک روز بادشاہ کو یاد آیا کہ پل بنانے کے لیے پیسے دیئے تھے اور اس نے پل کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ رقم ختم ہو گئی ہے۔ شاید کسی نے ان کے کان میں کہہ دیا ہو کہ ماضی والے ہضم کر چکے ہیں۔ ان کی سخاوت جوش میں آئی تو پل کی تعمیر کے تمام اخراجات عطا کر دیئے۔ اور آخر کار پل بنوا ہی دیا گیا۔ یہ پل دو ہزار تیرہ سے دریا کے مغربی کنارے پہ اپنے نیچے پانی بہنے کا انتظار کر رہا ہے۔ شہباز شریف دس سال وزیر اعلیٰ رہے‘ پہلے کے دور کو چھوڑیں‘ لگاتار‘ دو چار مرتبہ اربوں روپے بھی دونوں جانب بند باندھنے اور سڑکیں بنانے کے لیے بجٹ میں رکھے‘ مگر آخرکار خرچ لاہور کی ”ترقی‘‘ پہ ہوئے۔ آپ نے کبھی اس لاوارث خیراتی پل کے بارے میں نہ سنا ہو گا‘ نہ پڑھا ہو گا۔ بلوچستان کے مشرق میں واقع راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع کے لیے یہ نہایت ہی اہم رابطہ پل ہے‘ جو مغرب میں انڈس ہائی وے اور دریائے سندھ کے مشرق میں ملتان سکھر موٹروے کو ملاتا ہے۔ یہ موٹروے اس پل سے تقریباً دس کلومیٹر دور ہے۔ شریف برادران کے جنوبی پنجاب کو ترقی دینے کے دعوے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے کہ باتیں کرتے کرتے ان کا حلق خشک ہو جاتا تھا۔ کسی نے ان سے پوچھا ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے یہ پل تو عربوں نے کھڑا کر دیا ہے‘ آپ صرف بند اور سڑکیں نہیں بنا سکتے۔ ان کے دربار میں بیٹھنے والے ہمارے معزز عوامی نمائندے کیا کرتے رہے ہیں؟ وہ بس اس ”ترقی‘‘ میں مست تھے‘ جس میں حصہ معقول تھا۔
انصاف والے آئے تو ہماری امیدیں بھی بڑھیں کہ اب تو جنوبی پنجاب کے ساتھ انصاف ہو گا۔ تین سال گزرنے کے بعد یہ پل ابھی تک اسی لاوارث حالت میں کھڑا اپنے نصیبوں کو رو رہا ہے۔ یہ معاملہ ہو یا ”ترقی‘‘ کے اور منصوبے ہوں‘ مجھے تو کسی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ اسی لیے تو درختوں کے جھنڈ میں شہر سے دور پکی جھونپڑی میں عافیت محسوس کرتا ہوں۔ آبائی باشندہ تو ہوں‘ اور دریائے سندھ کو میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ وہاں بھی جائوں تو چھپ چھپا کر چند دن گزارتا ہوں۔ کون سنتا ہے؟ کس سے کہیں؟ ادھر ادھر سے پوچھتا ضرور رہتا ہوں کہ پل کے بند اور سڑکوں کے بارے میں کیا خبر ہے۔ کہتے ہیں‘ ابھی تک ایک پتہ بھی نہیں ہلا۔
جانتا ہوں ملک میں ہمارے نمائندے اور جمہوری حکومتیں عوامی اور معاشی اہمیت کے منصوبوں کو کیوں ترجیح نہیں دیتے۔ سب کو سب معلوم ہے کہ اوپر سے نیچے تک لوٹ کھسوٹ کیوں ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں‘ کتنا ترقی پر خرچ ہوتا ہے‘ کتنا جیبوں میں جاتا ہے۔ آپ نے بھی تو بار بار بننے والی‘ ہر دم زیرِ تعمیر رہنے والی اور ہمیشہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر خاک اڑائی ہو گی۔ اندر کی بات یہ ہے کہ عوام کو ابھی تک کوئی متبادل قیادت نہیں ملی‘ اور نہ مل سکتی ہے‘ جب تک وڈیروں کا غلبہ ہے۔ مقابلہ تو انہی خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ایسی جمہوریت میں ایسا ہی ہو گا‘ اور ایسے عوام کو بھی ایسی حکومتیں مبارک ہوں۔ ہمارا جھونپڑی میں دل لگا ہوا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر