سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ افغان عوام کی مرضی اور فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اپنی مرضی کے فیصلے ان پر مسلط نہیں کرنے چاہئیں۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ مل کر افغانستان اور افغان عوام کو Rehabilitate کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ مریم نواز نے پاکستان کے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداحلت نہ کرنے کی جو بات کی ہے وہ غالباً آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے تناظر میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز نے اس قسم کا بیان دے کر دراصل کسی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ یہی وہ اصل بیانیہ ہے جو پاکستان کے دشمن ملک ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ میں یہاں مریم بی بی پر کوئی الزام نہیں لگارہی نہیں انہیں کم از کم اپنی گفتگو میں الفاظ کا تو خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیانات کو ملک دشمن طاقتیں بالخصوص بھاتر میں بطور ثبوت بار بار پیش کیا جاتا رہاہے اور اب مریم بی بی نے نجانے کس ذہن اور سوچ کے ساتھ یہ بیان داغا ہے۔ مریم بی بی کی خارجہ امور پر جتنی دسترس ہے اس کے بارے میں تو تحریک انصاف کے رہنما آئے روز بیان داغتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسے موقع پر جب آپ ایک سیاسی جماعت کی نائب صدر ہیں تو کم از کم اپنی گفتگو میں الفاظ کا چنائو تو ٹھیک سے کرنا چاہیے۔ مریم نواز کو اس قسم کا بیان دینے سے قبل افغان طالبان حکومت کا یہ بیان ضرور پڑھ لینا چاہیے تھا کہ جس میں برملا کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
اسی طرح اگر آئی ایس آئی کے چیف کے دورہ کابل کی بات کی جائے تو وہ بھی بے مقصد نہیں تھا۔ یوں بھی سی آئی اے، اقوام متحدہ کے دیگر نمائندے تو جنرل فیض حمید سے پہلے وہاں موجود تھے تو اس بارے بھی مریم کچھ کہنا پسند کریں گی۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن و امان اور حکومت بنانے میں مدد کررہا ہے اور ایسا پاکستان افغان طالبان کی درخواست پر کررہا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل طالبان نے بھارتی دراندازی اور افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ کم کرنے بارے برملا کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوگی تو اس سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں ایسے میں اس قسم کے غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر درحقیقت پاکستان کی خدمت کرنے کی بجائے اس کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاک فوج دنیا کی نمبرون، آئی ایس آئی جس پروفیشنل انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اس پر شاباش تو بنتی ہے کہ اب تو دنیا کی بڑی طاقتیں بھی پاکستان کی اہمیت اور کردار کو تسلیم کرنے گی ہیں جس کا ثبوت چند دنوں میں 4، 5 وزرائے خارجہ کا دورہ پاکستان ہے کہ وہ بھارت جو پاکستان کو تنہا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا درحقیقت خود سفارتی تنہائی کا شکار ہوگیا ہے اس اہم موقع پرایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے جس سے ملکی مفاد کو ہلکی سی بھی زک پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا پاکستان کی افغانستان میں امن کے قیام کے لئے مثبت کردار کی نہ صرف تعریف کررہی ہے بلکہ تشکر آمیز بھی ہے کہ کس طرح پاکستان نے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم لینے سے پہلے ہی روک دیا۔ اس کا تمام تر سہرہ جہاں حکومت کو جاتا ہے وہیں ہماری ایجنسیوں اور فوج کو بھی اس پر شاباشی ملنی چاہیے کہ اس قدر پیچیدہ معاملات کو انتہائی سہل طریقے سے حل کیا جارہا ہے کہ کل تک پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والا امریکہ بھی ہم سے مدد طلب کررہا ہے۔ یہ پاکستان کی بڑی جیت ہے۔ بلاشبہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے پاکستان نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سرحدوں پر کھڑے ہمارے فوجی جوانوں کو ہم کس طرح اس موقع پر نظرانداز کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا اس لئے بلاوجہ کی تنقید کرنے سے اس موقع پر گریز کرنا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوانوں اور فوج کا مورال ڈائون نہ ہو۔ یوں بھی افغانستان میں طالبان نے جس طرح سے آناً فاناً بنا کوئی جنگ لڑے، گولی چلائے اقتدار حاصل کرلیا تو اس کی بڑی وجہ وہاں کی کمزور فوج تھی جسے کرزئی نے صرف اپنی حفاظت کے لئے ہی مامور کررکھا تھا۔ افغان فوج میں اس پروفیشنلزم کی کمی تھی جس کی ایک بڑی فوج کو ضرورت تھی اس لئے ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی بیان دینے سے قبل بس صرف یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ آج اگر ہم چین کی نیند سوتے ہیں تو یہ ہمارا اپنی فوج پر اعتماد ہی تو ہے کہ سرحدوں پر کھڑے ہمارے فوجی اپنی جان پر کھیل جائیں گے مگر مادر وطن پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اس لئے کسی کو خوش کرنے کی بجائے اپنے وطن سے وابستگی اور عقیدت کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔
یہاں میں حکومت اور اداروں سے بھی یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ کب تک اس طرح اداروں کی بے توقیری کی اجازت دی جاتی رہے گی۔ ماضی میں اداروں کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے کوئی نوٹس لینے کی بھی زحمت گوارہ کی ہو۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اداروں کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنائیں۔ تنقید کرنا بلاشبہ بہت آسان ہوتا ہے لیکن وطن کے لئے جان قربان کرنا بہت مشکل۔ اب جبکہ طالبان نے زرعی اور صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے پاکستان اور چین سے مدد مانگ لی ہے تو اس کو ویلکم کرنا چاہیے۔
افغانستان کے اصل سٹیک ہولڈرز اس کے عوام ہیں اور وہ جو راستہ اختیار کریں اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ افغان حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان، چین، روس، قطر، ترکی، ایران، مصر، ازبکستان، متحدہ عرب امارات کو شرکت کی دعوت اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ ان ممالک نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے کیونکہ طالبان کی جانب سے برملا کہا جارہا ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کا خیال رکھیں گے اور خواتین کو شریعت کے مطابق آزادی دیں گے تو اس کے بعد تو بہت سے لوگوں کی جیسے دکانداری ہی بند ہوگئی ہے۔ اس لئے ضروری ہوگا کہ اس اہم اور نازک موقع پر اپنے ملک کا امیج خراب کرنے کی بجائے مستقبل کی پیش بندی کی جائے اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز سے کس طرح نمٹنا ہے اس کی ابھی سے بھرپور انداز میں تیاری کی جائے کیونکہ بات افغان مہاجرین کی ہو یا پھر صنعتی اور زرعی شعبے میں تعاون، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب امریکہ کو
پاکستان، چین، روس اور ترکی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت پر شدید تحفظات ہیں۔ لازم ہے کہ ملک کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے ہر شخص اپنا انفرادی کردار ادا کرے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اپوزیشن اس اہم موقع پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر اس میں افغانستان بارے مستقبل کی سٹرٹیجی پر حکومت سے جواب طلب کرے یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں پیش آنے والے چیلنجز سے کس طرح نمٹنا ہے، بارے بھی حکومت سے جواب طلب کرنے کا اپوزیشن کو پورا پورا حق ہے مگر ہمارے ہاں تو سیاست صرف اور صرف ایک دوسرے کو رگیدنے کا ہی نام ہے اسی لئے تو سیاست برائے اختلاف، تنقید کرنے پر ہی تمام تر توانائیاں صرف کی جارہی ہیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ اس اہم موقع پر تنقید کی بجائے مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت کو محسوس کریں کیونکہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے لئے تو سیاست دانوں کے پاس بڑا وقت باقی ہے لیکن خطے کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھ کر انتہائی عرق ریزی کے ساتھ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کے ساتھ نہ صرف چلا جاسکے بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروایا جائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس کا جائز حق اسے دیا جائے اور اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو پھر دنیا کو پاکستان سے کوئی شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ عالمی برادری کا دہرا معیار تو پاکستان کو صرف 2نکات پورے نہ ہونے پرتاحال FATF میں رکھنے سے کھل گیا ہے جبکہ فرانس جو دہشت گردوں کو فنڈز مہیا کرتا رہا اور جس نے پاکستان کی FATF میں مخالفت کی، بارے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اپنے دہرے معیار کی چادر اتار پھینکے اور پاکستان کو اس کا جائز حق دے، یہی وقت کی پکار ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر