سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے روزنامہ بدلتا زمانہ سمیت دیگر اخبارات کے ایڈیٹرز اور کالم نگاروں کو مدعو کررکھا تھا جس میں خاصی پُرمغز گفتگو بھی ہوئی اور بلاول نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی بتایا۔ بلاول بھٹو زرداری کی جنوبی پنجاب میں طویل عرصے تک موجودگی اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ آئندہ الیکشن میں یہ خطہ انتہائی اہم کردار ادا کرے گا اسی لئے تو بلاول بھٹو کو سیاست ورثے میں ملی۔بلاول ایک انتہائی زیرک سیاستدان کی طرح یہاں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں اور روزنامہ بدلتا زمانہ کے ایڈیٹر اور مکس نیوز چینل کے سی او ملک اکمل وینس کے سوال کی طرح Electibles ڈھونڈنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ملک اکمل وینس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ایک دور تھا کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی الیکٹیبلز پیدا کیا کرتی تھی اور آج الیکٹیبلز کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔ خیر بلاول سے ملاقات میں ایک بات تو واضح ہوگئی کہ وہ بھی اپنے نانا اور والدہ کی طرح دل سے گفتگو کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران کئی مواقع ایسے آئے کہ جب بی بی شہید یاد آگئیں کیونکہ جس میچور اور محتاط انداز میں نوجوان بلاول نے تندوتیز بائونسرز کو بائونڈری کے باہر پھینکا اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ یہ نوجوان سیاست میںکافی آگے جائے گا لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ بلاول کو اپنے نانا اور بی بی شہید تک پہنچنے کے لئے بڑی محنت کرنی ہے بلاشبہ یہ نوجوان کررہا بھی رہا ہے تاہم ایک اہم بات جو بلاول نے کی وہ بڑی اہم ہے ان سے ان کے نانا، والدہ اور والد کی غلطیوں کا جواب نہ مانگا جائے جو بالکل درست ہے۔
بلاول نوجوان نسل کا لیڈر ہے، ان سے ان کے اپنے اعمال کا جواب تلاش کرنا چاہیے نہ کہ گڑھے مردے اکھاڑے جائیں۔ بلاول ببانگ دہل موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ یہ حقیقت بھی تسلیم کررہے ہیں کہ وہ حکومت پر جتنا پریشر ڈال سکتے ہیں ڈال رہے ہیں لیکن اگر کوئی یہاں ان کا مخاطب پی ڈی ایم تھا، وہی ان کا ساتھ نہ دے تو وہ کیا کریں۔ بلاول کی گفتگو میں ایک سچا اور کھرا نوجوان نظر آیا۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا بھی برملا اعتراف کررہے ہیں لیکن حکومتی انتخابی اصلاحات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کی بنائی گئی مجوزہ ووٹنگ مشین کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے کہ ہمارے ملک میں تو ہر پولنگ سٹیشن پر بجلی نہیں ہوتی تو وہاں الیکٹرانک مشین کیسے کام کرے گی۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی الیکٹرانک مشین کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
بلاول کا یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے تو ایسے میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کیونکہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت معاملات کو زیادہ دیر تک نہیں چلاسکتی۔ ادھر یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بلاول آئندہ الیکشن جیتنے کے لئے ابھی سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن ایک لمحے کے لئے انہیں ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر انہوں نے ابھی سے الیکشن اصلاحات کے لئے حکومت پر دبائو نہیں ڈالا تو معاملہ پھر روایتی الزام تراشی کی طرف ہی جائے گا۔ ہر ا لیکشن میں دھاندلی کا تمام سیاسی جماعتیں شور مچاتی ہیں لیکن کوئی بھی اس دھاندلی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں جس کی ایک بڑی وجہ تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں دھاندلی سوٹ کرتی ہے اسی لئے تو آج تک کسی نے بھی الیکشن کو صاف و شفاف بنانے کی ضرورت پر کبھی زور ہی نہیں دیا اور اب اگر تحریک انصاف نے آئندہ انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ کی بات کی ہے تو کوئی بھی سیاسی جماعت اس کو ماننے کے لئے ہی تیار نہیں۔ میں یہاں ہرگز حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ کی سپورٹ نہیں کررہی لیکن اگر اپوزیشن کو اس حوالے سے کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو اسے یقیناً دور کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی یہ قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی انائوں کے خول سے باہر نکلیں اور بہترین ملکی مفاد میں مل کر کام کریں۔
بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں سے گفتگو میں جنوبی پنجاب بل گورنمنٹ کی جانب سے پیش کئے جانے پر حمایت کا یقین اس شرط پر دلوایا کہ حکومت اپنی مرضی تھوپنے کی بجائے فرحت اللہ بابر کمیشن پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ بلاشبہ فرحت اللہ بابر کمیشن نے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے ایک جامع پلان مرتب کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اگر جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کو یقینی بنانے بارے سنجیدہ ہے تو کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے خاص طور پر اس وقت جب پاکستان پیپلزپارٹی اس حوالے سے حکومت سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کروارہی ہے جس پر پاکستان پیپلزپارٹی تعریف کے قابل ہے کہ وہ نمبر گیم میں پڑنے کی بجائے جنوبی پنجاب کے عوام کی بہتری کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھنے پر رضامندی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ حکومت بھی اس حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبہ اس خطے کی دیرینہ آواز ہے۔ اس لئے اگر تحریک انصاف آئندہ جنوبی پنجاب سے جیتنے کی خواہاں ہے تو اسے انتخابات سے قبل صوبہ جنوبی پنجاب کو عملی جامہ پہنانا ہوگا وگرنہ معاملہ یکسر مختلف بھی ہوسکتا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کو اگلے انتخابات میں کامیابی کی کنجی سمجھے۔ جنوبی پنجاب کا تحریک انصاف پر بڑا احسان ہے کہ اس نے تحریک انصاف کو اس خطے کی سب سے بڑی پارٹی بنایا تاہم دوسری طرف بلاول بھی بار بار یہ دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں کہ جتنا کام پاکستان پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کے لئے کیا، شاید ہی کسی اور حکومت نے کیا ہو۔ اگر ایک حساب سے دیکھا جائے تو بلاول کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے کیونکہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے کافی پیپر ورک کیا ہے۔ یہ کریڈٹ اسے ہی ملنا چاہیے۔
تاہم دوسری جانب جنوبی پنجاب کے عوام آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی صوبہ بنانے میں ذرا سی بھی مزید سنجیدگی دکھاتی تو آج معاملہ یکسر ہی مختلف ہوتا کہ آصف زرداری جنہیں مفاہمت کا بادشاہ قرار دیا ہے، صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے حوالے سے اپنا اثرورسوخ اور مفاہمتی پالیسی کیونکر استعمال نہ کرپائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں اس وکٹ پر کھیلنے کے لئے تیار ہیں اب جیت کس کی ہوتی ہے اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اب اس خطے کے عوام کو مزید طفل تسلیوں سے نہیں بہلا جاسکتا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا لالی پاپ بھی اس خطے کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب بلاول جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اس تحریک کو خود لیڈ کریں اور خود کوفرحت اللہ بابر کمیشن پر عملدرآمد کے لئے دبائو ڈالیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان پیپلزپارٹی کا گراف یقیناً اوپر آئے گا اور پھر دنیا دیکھے گی کہ الیکٹیبلز خود چل کر دوبارہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کو جوائن کریں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی صوبہ تحریک پر عمل درآمد کے لئے حکومت کو مجبور کردے۔ اس سے بہتر موقع بلاول کے پاس ہو ہی نہیں سکتا کہ جب وہ بڑے اعتماد کے ساتھ جنوبی پنجاب میں ریکارڈ کام کروانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں تو اس خطے کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور مستقبل کی پلاننگ ابھی سے کریں کہ اگر وہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سندھ کے ساتھ انہیں جنوبی پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا موقع مل جائے گا اور پھر وہ لوگ جو پاکستان پیپلزپارٹی کو سندھ اور بعض لاڑکانہ تک محدود ہونے کا طعنہ دیتے ہیں،خودبخود چپ ہوجائیں گے۔ بلاول بھٹو کا ٹارگٹ پنجاب اور وفاق ہیں تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، بلاول جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے میدان میں اتریں تو کوئی شک نہیں کہ اس خطے کے عوام آئندہ الیکشن میں انہیں کامیاب نہ کروائیں۔ اب فیصلہ بلاول اور پاکستان پیپلزپارٹی نے کرنا ہے کہ وہ صرف سندھ کی جماعت بن کر رہنے کی خواہاں ہے یا پھر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کو عملی شکل دلواکر مرکز میں بھی حکومت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بلاول سیاسی طور پر خاصے میچور نظر آرہے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے کیونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ جنوبی پنجاب کے عوام کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر