نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جی خواجہ صاحب!پیپلزپارٹی کا ماضی دیکھنا چاہیے تھا||حیدر جاوید سید

فی الوقت تو صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت سے لڑنے کیلئے نکلے تھے اب آپس میں دست و گریباں ہیں۔ (ن) لیگ کے بعض رہنما اور سوشل میڈیا مجاہدین ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ پیپلزپارٹی کی ریاست سے ڈیل ہوچکی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فی الوقت تو صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت سے لڑنے کیلئے نکلے تھے اب آپس میں دست و گریباں ہیں۔ (ن) لیگ کے بعض رہنما اور سوشل میڈیا مجاہدین ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ پیپلزپارٹی کی ریاست سے ڈیل ہوچکی ہے۔ بلاول کا دورہ سرائیکی وسیب اسی ڈیل کا حصہ ہے۔
خواجہ آصف تو یہاں تک کہتے ہیں ہماری قیادت کو پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھنے سے قبل اس کا ماضی دیکھنا چاہیے تھا۔
سچ یہی ہے کہ بالکل ماضی دیکھنا چاہیے تھا۔ پچھلی ساڑھے تین دہائیوں کی سیاست میں (ن) لیگ نے بازار میں دستیاب ہر گالی پیپلزپارٹی کو دی ایک مرحلہ پر تو میاں نوازشریف نے یہ بھی کہا تھا
’’میرا تو خون کھولتا ہے بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کا نام سن کر، میرے اختیار میں ہو تو انہیں سمندر میں پھینک دوں‘‘۔
کبھی بینظیر بھٹو سکیورٹی رسک قرار پائیں، ایک بار راجیو گاندھی پاکستان کے دورہ پر آئے، تب لیگی قیادت کہتی تھی بھائی بہن کو ملنے کے لئے آیا ہے، نیلے آسمان کے نیچے وقت بدلا، جنرل پرویز مشرف نے لیگی اقتدار کا تختہ الٹا، (ن) لیگ اے آرڈی نامی اتحاد میں یہودوہنود کی ایجنٹ پیپلزپارٹی اور سکیورٹی رسک بینظیر بھٹو کے ساتھ اس اتحاد میں شامل ہوگئی۔
سال دو ہزار کے آغاز سے دسمبر دو ہزار تک جب شریف فیملی 10سالہ معاہدہ جلاوطنی کر کے ملک چھوڑ گئی تھی، کی سیاست کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے بہت کچھ جان لیں گے۔
کچھ آگے بڑھتے ہیں، لاہور کے ایک معروف صحافی نے میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کی جلاوطنی پر ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں جناب نوازشریف کا وہ تاریخی انٹرویو بھی شامل ہے جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں تلخ انداز میں ایک ریاستی محکمے کا نام لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں پیپلزپارٹی کی قیادت پر مقدمات بنانے کے لئے مجبور کیا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ دونوں خاندانوں بھٹو اور شریفین کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو جدہ کے سرور محل میں نوازشریف اور ان کے خاندان سے ملاقات کے لئے گئیں اس ملاقات کا احوال برسوں قبل ان سطور میں لکھ چکا۔ ماضی کے دشمن بہن بھائی بن گئے۔ اگلے مرحلوں میں میثاق جمہوریت ہوا۔
میثاق جمہوریت میں لکھا تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے بعد پی سی او ججز کو بحال نہیں کیاجائے گا۔ اپنی اپنی ضرورت کیلئے دونوں جماعتوں نے اس حوالے سے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پی سی او ججز کی بحالی کے لئے تحریک کی ایک مرحلہ پر اعتزاز احسن نے قیادت کی۔ پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں اس وقت میثاق جمہوریت نہیں ہوا تھا۔ دوسرے مرحلہ پر قیادت میاں نوازشریف نے خود کی۔ ایک عظیم الشان جلوس گوجرانوالہ سے واپس لاہور چلا گیا، کیوں؟
ہیلری کلنٹن نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی سے بات کی۔ کیانی نے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کیا پھر رات گئے پی سی او ججز کا وہ گروپ بحال ہوگیا جو (ن) لیگ کا حامی سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا گروپ جسے پیپلزپارٹی کا حامی کہا جاتا تھا اس کی "خوب خاطر مدارت” ہوئی ایسی کہ ایک جج کی بیٹی کی منگنی ٹوٹ گئی اور والدین کو صاحبزادی کا نفسیاتی علاج کروانا پڑا۔
خواجہ آصف درست کہتے ہیں ہمیں پیپلزپارٹی کا ماضی دیکھنا چاہیے تھا۔ 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اپنے درجنوں کارکنوں کے ہمراہ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ماردی گئیں۔ انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھری۔ کے پی کے میں اس نے اے این پی سے مل کر حکومت بنائی۔ بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت تھی۔ سندھ میں ایم کیو ایم سے مل کر پنجاب میں (ن) لیگ سے حکومت سازی کے لئے پیپلزپارٹی، بیوروکریسی اور ایک بڑے محکمے نے بھرپور تعاون کیا۔ آزاد امیدوار (ن) لیگ کی جھولی میں بیوروکریسی نے ڈالے۔ ق لیگ کا فارورڈ بلاک ایک بڑے محکمے نے تحفہ میں دیا۔ پی پی پی بھی ساتھ کھڑی تھی۔
پہلے دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ بنے پھر معاملات کلیئر ہونے پر شہباز شریف۔ پنجاب میں گورنر راج کیوں لگا، کاش کسی دن ہمارے مرد مجاہد کامریڈ میاں نوازشریف مقدمات والے معاملے کے اعتراف کی طرح قوم کو یہ بھی بتادیں گے گورنر راج کے لئے کس کے کہنے پر بھائیوں کی جوڑی نے صدر زرداری سے درخواست کی تھی۔ یہ سیاست ہے حضور یہاں سب چلتا ہے۔
وفاق میں پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ اور دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملاکر حکومت بنائی یہ وہی مشہور زمانہ مخلوط حکومت ہے جس سے اس وقت کے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے حلف لیاتھا، اس حکومت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار تھے حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” ملک دیوالیہ ہونے والا ہے ” اس دعویٰ کا نتیجہ کیا نکلا؟ معاشی ماہرین بے پوچھ لیجئے۔
اسی دور میں اتحادی وزراء دو مقدمات لے کر سپریم کورٹ پہنچے، حاجیوں اور توانائی والے۔ 18ویں ترمیم کی منظوری میں (ن) لیگ نے پی پی پی کا ساتھ دیا۔ یہ ضروری اس لئے تھا کہ ساتھ دینے کی صورت میں ہی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا منصب تیسری بار مل سکتا تھا البتہ اس مرحلہ پر نیب اور چند دیگر معاملات پر قانون سازی کے حوالے سے (ن) لیگ کے رویے کو سمجھنا ہو تو امریکی سفیر اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کہنے پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنائے گئے چودھری نثار علی خان کی دھواں دھار تقاریر نکلواکر پڑھ لیجئے۔
ویسے (ن) لیگ کی پارلیمانی کمیٹی مخدوم جاوید ہاشمی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دے چکی تھی۔ اجلاس کے دوران ہی ایک فون سننے کے لئے میاں نوازشریف اٹھ کر باہر گئے واپس آئے تو انہوں نے اعلان کیا اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان ہوں گے۔
میمو گیٹ کیس میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میاں نوازشریف ہی گئے تھے۔ چودھری نثار اور شہباز شریف کی کیانی سے راتوں کو لمبی ملاقاتوں کے قصے ان دنوں زبان زد عام تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ خود نوازشریف چودھری نثار اور اپنے بھائی کے سامنے کھڑے رہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرنے نہ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ اس کی اجازت دیتے ہیں تو مستقبل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔پیپلزپارٹی نے ان کے اس کارخیر کا بدلہ 2014ء میں چکایا جب جناب عمران خان، طاہرالقادری اور جناب راحیل شریف ایک پیج پر تھے۔ سرکاری و غیرسرکاری رابطہ کاروں نے پی پی پی اور اے این پی کے ترلے کئے، منتیں کیں، ہر طرح سے دبائو ڈالا کہ دھرنے والوں کی حمایت کی جائے۔
دونوں جماعتوں نے منہ توڑ جواب دیا اور پارلیمان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا، ایک تعزیتی ملاقات کا شیڈول طے کرکے ملاقات منسوخ کی گئی پھر ماسکو کے دورہ پر موجود راحیل شریف کو فون کرکے بتایا گیا کہ ملاقات منسوخ کردی ہے۔
قصے اور بہت ہیں تلخ و شیریں، پی ڈی ایم کے معرض وجود میں آنے کے بعد کون کون کس سے ملا اور کیا چاہا؟ سب ریکارڈ پر ہے۔ خواجہ آصف درست کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ماضی دیکھنا چاہیے تھا۔ وہ پاکیٔ داماں، دامن اور گریباں والا شعر یاد آرہا ہے لیکن چھوڑیں یہاں کس کا ماضی کیا ہے۔
خود آجکل خواجہ صاحب پارٹی کے دوستوں سے کیا کہتے پھر رہے ہیں یہ الگ کہانی ہے ۔
اس حوالے سے بھی کچھ عرض کیا جاسکتا ہے لیکن فائدہ ؟ حرفِ آخر یہی ہے کہ پی ڈی ایم سیاسی اتحاد تھا، اتحاد بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں، ویسے سچ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد نہیں بنانا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author