اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی اتحاد بلاول بھٹو زرداری کی کاوش تھا
بلاول بھٹو زرداری اس اتحاد کا صدر ایک ایسی شخصیت کو بنانا چاہتے تھے جو مذھبی رجعت پرست نہ ہوتا
اسلام کے نام پر مذھبی انتہا پسندی اور جہادی رجحانات کا معذرت خواہ نہ ہوتا
بلاسفیمی کارڈ کا استعمال کرنے والا نہ ہوتا
انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق کے خلاف واضح رجعت پسندانہ موقف کا حامل نہ ہوتا
وہ پی ڈی ایم کا صدر ایک ترقی پسند روشن خیال جمہوریت پسند شخص کو دیکھنا چاہتے تھے
پی پی پی نے اسی لیے مولانا فضل الرحمان کے پی ڈی ایم کے صدر بننے کی مخالفت کی تھی
لیکن میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم میں شامل اپنے دور اقتدار میں شامل اتحادی جماعتوں کی مدد سے مولانا فضل الرحمان کو اکثریتی بل بوتے پہ صدر بنوایا ناکہ اتفاق رائے سے
مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کا صدر بننے کے بعد پی ڈی ایم کو پہلے دن سے مسلم لیگ نواز کی لائن کا یرغمال بنانے کی کوشش کی –
زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر اسلام آباد لانگ مارچ کا فیصلہ ایک بار پھر اکثریتی رائے پہ کیا گیا اور اتفاق رائے کو نظر انداز کیا گیا-
مولانا فضل الرحمان کو اچھے سے پتا تھا کہ نواز لیگ لانگ مارچ کو عمران رجیم کو ہٹانے کی بجائے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اور مریم نواز کی رہائی کے لیے بارگیننگ چِپ کے طور پر استعمال کررہی ہے اور وہ اس میں آلہ کار بنے
مولانا فضل الرحمان، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل نواز شریف کے اشارے پہ پی ڈی ایم میں مسلسل پی پی پی کو زچ کرنے کا کردار ادا کرتے رہے
پی پی پی کی طرف سے پارلیمنٹ اور پنجاب میں میں عمران خان و بزدار کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے عمل سے خالی زبانی انقلابی بیانیوں جس میں مذھبی رجعت پرست کارڈ بھی شامل تھے کی سیاست کرتے رہے
مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں نہ تو اسمبلی میں مزاحمتی اپوزیشن کی اور نہ ہی سڑک پہ عوامی ایجی ٹیشن کو آگے بڑھایا
یہ پنجاب اور وسیب کے عوام میں عمران رجیم کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور غصے کو عملی احتجاجی تحریک کی صورت دینے بارے کنفیوژن کا شکار رہے
اس دوران ضمنی انتخابات کا مرحلہ آیا تو یہ پی پی پی تھی جس نے پی ڈی ایم پر زور دیا کہ وہ ان انتخابات میں عوامی غم و غصے اور حکمران اتحاد کے اندر موجود تقسیم سے فائدہ اٹھاکر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں حکومتی عددی برتری کو اور کمزور کرے
پی پی پی کا ھوم ورک تھا کہ سینٹ کے الیکشن میں حکمران اتحاد کے اندر موجود تقسیم سے فائدہ اٹھاکر اپوزیشن سینٹ پر اپنا غلبہ کرسکتی ہے اور اس سے نیشنل اسمبلی میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور پھر وزیراعظم کے خلاف کامیاب عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے
پی پی پی نے پنجاب میں سینٹ الیکشن میں حکمت عملی نواز لیگ کے سپرد کردی اور نواز لیگ نے حکمران اتحاد سے مل کر برابر برابر نشتیں بانٹ لیں، پی پی پی کا ارادہ تو یہ تھا کہ حکمران اتحاد میں تقسیم کو گہرا کرکے پنجاب میں اپوزیشن کی سینٹ میں نمائندگی اور زیادہ کرلی جائے لیکن کنفیوژن کا شکار اور اعتماد میں کمی نے مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کو پنجاب میں سینٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو نقصان سے بچالیا
مرکز میں پی پی پی نے سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی نشست پر حکمران اتحاد سے ووٹ دلواکر ثابت کیا کہ پی پی پی کا وژن درست تھا
پی ڈی ایم کے سربراہ اور نواز لیگ کا حامی میڈیا ضمنی انتخابات اور سینٹ کے الیکشن کے دوران عوام کو یہ دکھاتا رہا کہ وہ تو انتخابات میں جانا نہیں چاہتا تھا بس پی پی پی کے کہنے پہ گیا، جب انتخابی نتائج نے پی پی پی کی سیاسی بصیرت کی درست ہونے کو ثابت کیا اور سب سے بڑھ کر اسلام آباد کی نشست پر گیلانی کی کامیابی نے پی پی پی کے مورال میں زبردست اضافہ کیا تو نواز لیگ کو اپنے امیج کی پڑگئی….
اس نے سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں اپنا اصل چہرہ دکھایا اور اس کے بعد یہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر زبردستی قابض ہونے کی کوشش کرنے لگی
اس دوران مولانا فضل الرحمان بیماری کا بہانہ کرکے گھر بیٹھ گئے اور مسلم لیگ نواز کے خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کو سیاسی اتحاد کی بجائے ایک سیاسی جماعت بناکر پی پی پی کو کہٹرے میں کھڑا کرلیا-
اس نے سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں اپنے کے پی کے سے ممبر کو ڈیفیکشن پہ کوئی شوکاز نوٹس جاری نہ کیا اور جب بلوچستان سے چار آزاد سینٹرز پی پی پی کی حمایت میں آگئے تو اسٹبلشمنٹ سے پی پی پی کی ڈیل کا شور مچادیا
اس سب سے پہلے حاصل بزنجو کی شکست میں یہ پی پی پی کے اراکین پہ الزام دھرتے رہے لیکن یہ مسلم لیگی اراکین تھے جنھوں نے غداری کی تھی جس کا انکشاف پرویز رشید کی سینٹ تقریر سے ہوگیا تھا-
مولانا فضل الرحمان کو میر حاصل بزنجو کے الیکشن کو ہار میں بدلنے والے نواز لیگ کے غداروں کے باب میں میر جعفر و میر صادق کے کردار یاد نہ آئے
اس کے بعد نواز لیگ
قومی اسمبلی و پنجاب اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی کے وعدے سے بھاگ گئی کیونکہ نواز شریف کو حمزہ شہباز بھی پنجاب کے چیف منسٹر کے طور پہ قبول نہ تھے، مولانا نے اس دغا بازی کی تاویل بھی تلاش کی
مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کی قیادت کرتے ہوئے عملی اور قولی طور پر نواز لیگ کے بلنڈرز اور سیاسی گناہوں کو جمہوریت پسندانہ سیاست کا فتویٰ دیتے ہوئے وہی کردار ادا کرتے آئے ہیں جو بنوامیہ کے لیے قاضی شریح کرتے رہے تھے –
وہ شریف برادران کے قاضی شریح ہیں – اُن کی بلاول بھٹو زرداری پر برہمی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بلاول بھٹو کی سیاسی لائن کے درست ثابت ہونے نے نواز لیگ کے زرخرید تجزیہ نگاروں کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کے زیرک سیاست دان اور نہایت گہری سیاسی بصیرت کے حامل ہونے کے پروپیگنڈے کو بُری طرح سے غلط ثابت کردیا ہے –
مولانا فضل الرحمان اپنے آپ کو اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کے دعوے کو سندھ میں گزشتہ عام انتخابات اور ضمنی انتخابات میں جی ڈی اے اور پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے کئی بار غلط ثابت کرچکے
انہوں نے لاڑکانہ میں اپنی پارٹی کے صوبائی صدر راشد سومرو کے جی ڈی اے، پی ٹی آئی کے مشترکہ امیدوار ہونے اور پھر صوبائی اسمبلی لاڑکانہ کی سیٹ پر جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امیداوار کی حمایت پر راشد سومرو کو میر جعفر و میر صادق قرار نہیں دیا
گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں پی ٹی آئی سے جے یو آئی کے اتحاد پر بھی انھیں میر جعفر و صادق یاد نہیں آئے –
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی دانش کے ساتھ سرائیکی وسیب میں کامیاب عوام رابطہ مہم میں پی ڈی ایم کی کنفیوژڈ سیاست اور حکمران اتحاد کے اقتدار کو طول دینے کی حقیقت کو بیان کیا تو مولانا فضل الرحمان نواز لیگ کے قاضی شریح بنکر ایک مرتبہ پھر میدان میں اترے، ایک بار پھر جیو اُن کا بھونپو بنکر سامنے آیا –
کیا بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم کو غلط مشورہ دیا ہے کہ یا تو وہ پی پی پی کی بات مان کر پنجاب اور مرکز میں اِن ہاؤس تبدیلی لانے میں مدد کرے یا اپنے دعوے کے مطابق پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں سے استعفا دے کر عوام سے رابطہ کرکے مہم چلائے جیسے پی پی پی عوام رابطہ مہم چلارہی ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر