اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‘بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے’|| اختر بلوچ

شاہد حسین بتاتے ہیں یہ بات بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے لیے ہی نہیں بلکہ طالب علموں کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔ اکثر و بیشتر طلبہ مظاہرہ دیکھنے کے لیے ریگل چوک پہنچ گئے۔ ا

اختر بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایوب دور میں ایک طالب علم رہنما جو بعد میں وفاقی وزیر اور سینیٹر بھی بنے۔ ان کے لیے مشہور تھا کہ وہ کراچی کے ریگل چوک پر ہونے والے مظاہروں کی اطلاع پولیس کو کردیتے تھے جس کی وجہ سے اکثر مظاہرے ہونے سے پہلے ہی مظاہرین کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا تھا۔ بلکہ یہاں تک مشہور تھا کہ ان کے اہل خانہ اپنے رشتہ داروں کو فخریہ بتاتے تھے کہ ان کے بیٹے کی ‘خفیہ’ میں نوکری لگی ہے۔ یہ بات بہت مشہور ہوگئی، وہ جہاں بھی جاتے لوگ سرگوشیوں میں کہتے ‘خفیہ’ والا آگیا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے انہوں نے اچانک اعلان کیا کہ وہ طلبہ حقوق کی حمایت میں ریگل چوک پر مظاہرہ کریں گے۔
شاہد حسین بتاتے ہیں یہ بات بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے لیے ہی نہیں بلکہ طالب علموں کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔ اکثر و بیشتر طلبہ مظاہرہ دیکھنے کے لیے ریگل چوک پہنچ گئے۔ اچانک سہراب کٹرک روڈ جہاں اب پرانی کتابوں کی مارکیٹ لگتی ہے وہاں سے 20 سے 25 لوگ اس رہنما کی قیادت میں ریگل چوک پہنچے۔ وہ اپنی وضع قطع اور حلیے سے طالب علم نہیں لگ رہے تھے۔ بہرحال جب وہ چوک پر پہنچے تو ان کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز تھے جن پر طلبہ حقوق کی حمایت میں نعرے درج تھے لیکن حیرت انگیز طور پر مجمع نعرے نہیں لگا رہا تھا۔ پولیس مظاہرین کی جانب لپکی اور زور و شور سے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ اس دوران قیادت کرنے والا رہنما پولیس افسر کی جانب بڑھا اور بلند آواز میں کہا ‘بات ہوگئی ہے’ بس ان کا یہ نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ ان کے تمام ساتھی بلند آواز سے نعرے کا جواب دینے لگے ‘بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے!’ اب یہ وہاں موجود لوگوں کے لیے ایک عجیب و غریب نعرہ تھا کہ ‘بات ہوگئی ہے’۔
’مذکورہ رہنما دوبارہ پولیس افسر کی جانب بڑھا اور انہیں آنکھ مارتے ہوئے زور سے کہا کہ ‘بات ہوگئی ہے’۔ پولیس افسر نے ایک زوردار تھپڑ ان کے منہ پر رسید کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا ‘کیا، بات ہوگئی ہے؟’ مظاہرین کے کانوں میں صرف یہ آواز پہنچی کہ ‘کیا بات ہوئی ہے’۔ انہوں نے دوبارہ زور و شور سے نعرہ بلند کیا کہ ‘کیا بات ہوئی ہے’، جواب میں ‘بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے’۔ پولیس مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس طالب علم رہنما نے مظاہرے سے قبل علاقے کے ڈی ایس پی سے بات کرلی تھی کہ وہ اس طرح کا ایک مظاہرہ کریں گے، اور پولیس ہلکا سا لاٹھی چارج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کرکے چھوڑ دے گی، یوں اس طرح خبر بھی بن جائے گی اور ان کے بارے میں پولیس کے مخبر ہونے کا جو تاثر ہے وہ بھی زائل ہوجائے گا۔ اب بدقسمتی یہ ہوئی کہ جس دن مظاہرہ ہونا تھا اور جس ڈی ایس پی سے بات ہوئی تھی اس کا اسی دن تبادلہ ہوگیا تھا اور اس نے نئے ڈی ایس پی کو یہ بتایا ہی نہیں کہ آج ریگل پر ہونے والے مظاہرے کے بارے میں ‘بات ہوگئی ہے’‘۔

بشکریہ :ڈان ڈاٹ کام

یہ بھی پڑھیے:

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

%d bloggers like this: