مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سائن بورڈ پینٹر سے ادب و صحافت تک||اسلم ملک

شفیع عقیل مصوری کے اہم نقادوں میں شمار ہوتے تھے ۔ اس موضوع پر ان کی تصانیف میں تصویر اور مصور، دو مصور اور پاکستان کے سات مصور کے نام سرفہرست ہیں ۔
اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائن بورڈ پینٹر سے ادب و صحافت تک۔۔۔ افسانوں کے مجموعے پر فحاشی کا مقدمہ🏳️ منٹو، شورش ، سالک کی گواہی
بہت سے لوگ دوسرے شہروں، دوسرے ملکوں میں جابستے ہیں. اپنے گاؤں، شہر اور ملک انہیں یاد آتے ہیں. مکروہات دنیا سے فراغت ملے تو چکر بھی لگا لیتے ہیں. ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان جا بسنے والوں کیلئے یہ اتنا آسان نہیں. میں ایسے کئی جانتا ہوں جو اپنے گھر گلی محلے شہر کو صرف ایک بار دوبارہ دیکھنے کیلئے تڑپتے رہے اور یہ حسرت لئے چل بسے.
میرے دوست اسلم کولسری اور بزرگ شفیع عقیل کا دکھ ان سے بھی سوا تھا. وہ جن گھروں میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جن گلیوں میں کھیلتے رہے، ان کا وجود ہی نہیں رہا. وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئیں. اسلم کولسری کی بستی کولسر کو اوکاڑا چھاؤنی نے نگل لیا اور شفیع عقیل کی بستی کو ڈیفنس لاہور نے .
شفیع عقیل کی آج آٹھو یں برسی ہے. ان کا اصل نام محمد شفیع تھا. وہ 1930 میں لاہور کے نواح میں تھینسہ گاؤں میں پیدا ہوئے تھے . ان کی پہلی تحریر ’ زمیندار‘ میں 1948 میں شائع ہوئی اور اسی تحریر کے ساتھہ وہ محمد شفیع سے شفیع عقیل بن گئے۔ انھیں باقاعدہ تعلیم کے مواقع حاصل نہیں ہو سکے اور انھوں نے منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کرنے تک محنت مزدوری کی اور سائن بورڈ پینٹر کا بھی کام سیکھا۔
1950 میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔
کراچی آنے کے بعد انھوں نے ابتدا سائن بورڈ لکھنے سے کی لیکن جلد ہی مجید لاہوری کے معروف جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔اسی دوران انھوں نے افسانہ نگاری بھی شروع کی اور 1952 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعے ’ بھوکے‘ شائع ہوا۔ اس مجموعے پر حکومت نے فحاشی کا مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے میں سعادت حسن منٹو، شورش کاشمیری اور مولانا عبدالمجید سالک گواہانِ صفائی تھے۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلا۔
نمکدان کے بعد وہ ادارہ جنگ کے بچوں کے رسالے” بھائی جان” کے مدیر مقرر ہوئے اور پھر روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوگئے۔ جہاں انہوں نے ساٹھ برس سے زائد خدمات انجام دیں۔ روزنامہ جنگ میں انہوں نے نونہال لیگ کی ابتدا کی ، جس کے ذریعے جن نامی گرامی ادیبوں نے لکھنے کی ابتدا کی ان میں حسینہ معین، انور شعور، مستنصر حسین تارڑ، عبید اللہ علیم، غازی صلاح الدین اور قمر علی عباسی بھی شامل ہیں۔
شفیع عقیل کی تصانیف میں طنز و مزاح کے مجموعے ایک آنسو ایک تبسم ،ڈھل گئی رات، تیغ ستم ، باقی سب خیریت ہے اور سرخ، سفید، سیاہ ، پنجابی شاعری کے مجموعے سوچاں دی زنجیر اور زہر پیالہ، عالمی اور پاکستانی لوک کہانیوں کے مجموعے جاپانی لوک حکایتیں ، جرمن لوک کہانیاں،ایرانی لوک کہانیاں، پاکستانی لوک کہانیاں اور پنجابی لوک داستانیں ، سفر نامے سیروسفر، پیرس تو پھر پیرس ہے اور زندگانی پھر کہاں کے نام شامل ہیں ۔ انہوں مجید لاہوری اور سلطان باہوکے شخصیت اور فن پر بھی کتابیں تحریر کیں اور مجید لاہوری کے کالم بھی حرف و حکایت کے نام سے مرتب کیے۔ انھوں نے سیف الملوک ، سسی پنوں از ہاشم شاہ اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر نامی کتابیں بھی مدون کیں اور ادب اور ادبی مکالمے،مشہور اہل قلم کی گم نام تحریریں اور نامور ادیبوں کا بچپن کے نام سے بھی کتابیں مرتب کیں ۔انہوں نے مرزا غالب کے کلام اور قائد اعظم کے فرمودات کو بھی پنجابی میں منتقل کیا۔ان کی مرتب کردہ پنجابی لوک کہانیوں کی کتاب کو یونیسکو نے کئی زبانوں میں شائع کیا.
وہ پنجابی شاعری میں چار مصرعوں کی ایک نئی صنف کے بھی موجد تھے۔ ان کی یہ شاعری طویل عرصے تک جنگ میں اردو ترجمے کے ساتھ شائع ہوتی رہی بعد میں اسے دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔
شفیع عقیل مصوری کے اہم نقادوں میں شمار ہوتے تھے ۔ اس موضوع پر ان کی تصانیف میں تصویر اور مصور، دو مصور اور پاکستان کے سات مصور کے نام سرفہرست ہیں ۔ انھوں نے اردو میں مصوری پر جتنا لکھا ہے، مصوری پر اتنا برصغیر میں کسی ایک آدمی نے کسی بھی زبان میں نہیں لکھا ہو گا۔ انھوں نے مصوروں، مجسمہ سازوں اور ادیبوں سے انٹرویو بھی کیے جو کئی جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
شفیع عقیل کو سیر و سیاحت سے بھی گہری دلچسپی تھی اور ان کے سفر نامے کئی کتابوں پر مشتمل ہیں۔
حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز عطا کیا تھا۔ انہوں نے داؤد ادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ایوارڈ بھی حاصل کیے ۔
شفیع عقیل کا انتقال 6 ستمبر 2013 کو کراچی میں ہوا.انھوں نے شادی نہیں کی تھی اور اپنی بیوہ بہن اور ان کے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

اسلم ملک کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: