نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغرب میں پناہ گیری||رسول بخش رئیس

افغانستان سے جہازوں والے تو جا چکے‘ اب ہر راستے سے افغان مغرب کے لیے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے ہمراہ ہمارے لوگ بھی شامل ہو جائیں گے کہ رنگ‘ نسل اور زبانیں ایک جیسی ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پندرہ اگست کے روز جب کابل حکومت کے سربراہ لاکھوں ڈالر صندوقوں میں بند کر کے تاجکستان بھاگے تو ان کے ساتھ ان کی سیاسی قیادت‘ فوجی افسران اور نوکر شاہی کے سب اہم کَل پرزے بھی لوٹ مار کی دولت سمیٹ کر رخصت ہونے لگے۔ ایک عرصہ سے انہوں نے ٹھکانے مغرب میں بنا رکھے تھے‘ جس طرح ہمارے نامور سیاسی خاندانوں اور نوکر شاہی نے مغرب میں بنا رکھے ہیں۔ اسی طرح افریقہ‘ لاطینی امریکہ‘ مشرقِ وسطیٰ اور ہمارے قرب میں واقع ایشیائی ممالک کے تمام لٹیرے ہماری سرزمینوں سے سمیٹے گئے خزانے ٹھنڈے ممالک میں یا پانامہ جیسے ممالک میں رکھتے ہیں‘ ایسی جگہوں پہ جہاں کوئی سوال نہ کرے کہ یہ دولت کہاں سے اور کن ذرائع سے جمع کی تھی۔ بعض عرب ممالک نے بھی کالے دھندے کے خزانوں کے لیے اپنے دروازے بڑے کر دیئے ہیں تاکہ چوروں کو زیادہ مسافت طے نہ کرنا پڑے۔ ریگستانوں‘ صحرائوں اور کسی زمانے کی مچھلی بندرگاہوں میں لندن‘ نیو یارک اور پیرس کی عمارتوں سے مشابہ جدید شہر بسا دیئے ہیں۔ دل بہلانے‘ وقت گزارنے کے مشغلے اور محفوظ ٹھکانے سب ممالک سے آنے والوں کے لیے موجود ہیں۔ مغرب کے خوابوں کی سب تعبیروں کا ساز و سامان موجود ہے۔ ترقی ہی ترقی‘ بس سیاسی آزادیوں کو نکال دیں‘ باقی سب کچھ ہے۔ افغانستان اور پاکستان کی زیادہ تر دولت سنا ہے ایسے ہی ممالک کے خزانوں میں محفوظ ہے، ان دو ممالک کی اشرافیہ کے کئی ٹھکانوں میں سے ایک ٹھکانہ ان ممالک میں صرف تین ساعتوں کی منزل پہ ہے۔ اب فاصلے بھی میلوں میں نہیں گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے گنے اور ماپے جاتے ہیں۔
جن ممالک میں کرپشن زوروں پہ ہے اور رہی ہے‘ ان کے حکمران طبقے امیر‘ عام آدمی غریب اور معاشرہ مجموعی طور پر پس ماندہ رہتا ہے۔ قوموں کے اجڑنے‘ ریاستوں کے کمزور ہونے اور معاشرے میں انتشار کے پیچھے مقتدر طبقات کی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔ یہی افغانستان کی کہانی ہے اور ہماری بھی کوئی اس سے زیادہ مختلف نہیں‘ بس ابھی تک کچھ ہمارے اندر ہے کہ بچے ہوئے ہیں۔ سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ اپنی حد تک کبھی نہیں سوچا کہ مغربی ممالک کا سبز پتا حاصل کیا جائے۔ دال روٹی اپنی سرزمین پہ مل رہی ہے‘ زیادہ کی تمنا نہیں۔ کچھ لوگ‘ اکثر محنت مزدوری کے لیے‘ تعلیم اور تجارت کی غرض سے باہر جاتے ہیں‘ پھر اپنے ٹھکانوں پہ لوٹ آتے ہیں۔ مغربی ممالک بلکہ ساری دنیا میں آبادیاں جدید دور میں متحرک ہیں‘ واپسی اپنے گھروندوں میں ہوتی رہتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں روزگار کے مواقع اس طرح نہیں پھیلے جس طرح آبادی کا دبائو بڑھا ہے۔ صنعتی ترقی کی رفتار کئی دہائیوں سے سست ہے‘ برآمدات زیادہ تر روایتی شعبوں میں ہیں‘ اس لیے ہمارے نوجوان بے روزگار ہیں‘ اکثریت ان میں سے ان پڑھ ہے اور ہنرمند بھی نہیں‘ ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے۔ یہی حال دیگر ترقی پذیر ممالک کا ہے‘ جہاں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ مغربی ممالک میں ہجرت کرتے ہیں کہ وہاں زندگی آسودہ ہے‘ حق ملتا ہے‘ انصاف ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ تعلیم اور صحت کا اعلیٰ انتظام ہے‘ روزگار حسب قابلیت مل جاتا ہے۔ جو بھی غریب اچھے زمانوں میں وہاں ہجرت کر سکا‘ اس کی نسلیں سدھر گئیں۔ مغرب ان آسودگیوں کی وجہ سے ایک خواب ہے‘ جو ہمارے اور افغانستان جیسے ہر ملک کے ہر نوجوان نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔
امریکیوں نے افغانستان سے واپسی کی راہ لی تو اعلان کیا کہ وہ تمام افغان جنہوں نے ان کی بیس سالہ جنگ میں مدد کی‘ انہیں اور ان کے خاندانوں کو وہ اپنے ملک لے جائیں گے۔ امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے بھی اخلاقی ذمہ داری نبھانے کا عندیہ دیا۔ مغربی میڈیا نے خبرناموں میں بھی اشتہار لگانا شروع کر دیئے کہ کسی ایسے افغان کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا جس کو طالبان سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خطرہ کس کو ہو سکتا تھا اور وہ کون سے ایک لاکھ کے قریب یا اس سے بھی زیادہ افغان باشندے تھے‘ جن کی زندگیاں خطرے میں ہو سکتی تھیں۔ اکثر ذکر مترجمین کا ہو رہا تھا۔ وقت آنے پر باتیں کھلیں گی۔ ابھی تو ہم عام افغانوں کی بات کرتے ہیں جو امریکہ کے خواب کی تعبیر تلاش کرنے جنگی ٹرانسپورٹ جہازوں کے پروں پر چڑھ رہے تھے۔ کچھ لٹکے تو گر کر جان کی بازی ہار بیٹھے۔ کتنا بھیانک‘ درد ناک تھا وہ لمحہ جو ساری دنیا نے ٹیلی وژن کی سکرینوں پہ دیکھا۔ امریکہ یا کوئی اور یورپی ملک‘ ترقی یافتہ کو چھوڑیں‘ جنوبی یا مشرقی یورپ کا کوئی ملک یہ اعلان کرے کہ پہلے دس ہزار جو لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچ جائیں گے ان کو پناہ دی جائے گی‘ تو میرا اندازہ ہے‘ جو غلط بھی ہو سکتا ہے‘ کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی دیہاتوں اور شہروں سے امڈ آئیں گے۔ افغان ہوں یا پاکستانی‘ اپنا ملک اس لیے چھوڑنا چاہتے ہیں کہ یہاں ساری زندگی مسلسل جدوجہد ہے۔ خدا کرے‘ کسی بے وسیلہ آدمی کو کسی سرکاری دفتر میں کوئی جائز کام بھی نہ پڑے۔ ہمیں تو لوگ جانتے ہیں اور دو پیشیوں کے بعد یا پہلی ہی حاضری میں کام ہو جاتا ہے اور ہمارے ویسے بھی کون سے کام ہیں‘ مگر عام آدمی کی حالت دیکھنی ہو تو کسی سرکاری دفتر میں جا کر دیکھیں‘ کچہریوں میں کچھ وقت گزاریں‘ حب الوطنی کے سب جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
امریکیوں نے بھی کمال کر دیا کہ جاتے جاتے ہوائی اڈا بھی ناکارہ کر گئے۔ جہاز جو کسی وجہ سے اڑا کر نہیں لے جا سکتے تھے‘ ناکارہ کر دیئے۔ بگرام کے ہوائی اڈے کی تمام فوجی تنصیبات تباہ کرنے میں انہوں نے کئی مہینے لگا دیئے۔ تمام تر فوجی گاڑیاں‘ ہزاروں کی تعداد میں ٹھکانے لگائیں کہ طالبان استعمال نہ کر سکیں۔ فوجی نوعیت کے ساز و سامان کی حد تک تو بات جائز نظر آتی ہے کہ دشمن آپ کے مال سے طاقت ور نہ ہو جائیں‘ مگر افغانستان چار کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ امریکہ کی موجودگی اور بیس سالہ جنگ کے دوران بھی اس ملک کی معیشت گزاروں پہ تھی۔ سرکار کو چلانے کے لیے پچھتر فیصد اخراجات بیرونی امداد سے آتے تھے۔ امداد تو دورکی بات ہے‘ جو افغانستان کا تقریباً نو ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ امریکہ میں ہے‘ اس پہ بھی تالا لگ چکا ہے۔ عالمی اداروں نے لین دین بند کر دیا ہے۔ کہتے ہیں‘ دیکھیں گے طالبان تبدیل ہوئے ہیں یا ویسے ہی ہیں جیسے کسی زمانے میں تھے۔ آخری مہینوں‘ ہفتوں اور دنوں میں جو صورت حال امریکی انخلا اور اس کے بعد کے بنتے یا بگڑتے حالات کی بنا پر سامنے آئی‘ اس کے پیشِ نظر ہزاروں افغانوں نے آہوں اور آنسوئوں میں اپنے ملک کو خیرباد کہا۔ ان میں وہ زیادہ ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی‘ جن کی جدید پیشوں میں نوکریاں تھیں۔ وہ کیسے ایک غیر یقینی اقتصادی اور سیاسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھ سکتے تھے۔
افغانستان سے جہازوں والے تو جا چکے‘ اب ہر راستے سے افغان مغرب کے لیے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے ہمراہ ہمارے لوگ بھی شامل ہو جائیں گے کہ رنگ‘ نسل اور زبانیں ایک جیسی ہیں۔ کہنے کو طالبان کا ڈر ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ انسانی حقوق کی ”پامالی‘‘ کا مسئلہ رہتا ہے‘ مگر ترقی پذیر ممالک سے تارکینِ وطن کی اکثریت معاشی مجبوریوں کی وجہ سے مغرب کا سفر کرتی ہے۔ کاش وہ جنت ہم یہاں پیدا کر سکتے‘ لوگوں کو آسودگیاں ملتیں‘ انصاف کا راج ہوتا‘ قانون کے سامنے ہم سب برابر ہوتے۔ دفتروں کے دھکے نہ کھانے پڑتے‘ ہم ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہ ہوتے۔ یہ ممکن ہے‘ مگر نہ جانے ہمارے مقدر کب بدلیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author