آصف جاوید قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تونسہ شہر نہیں خطہ ہے۔ یہاں زیادہ تر بلوچ قبائل آباد ہیں۔ اس دھرتی کے بہت سےپہلو ہیں لیکن زیرنظرمضمو ن میں ہم تونسہ کے ان باسیوں کاذکر کریں گے جو بلوچستان کےمتعلق ہیں ۔
تونسہ کے شمال میں خیرپختونخواہ ، جنوب میں رود سنگھڑ کے ساتھ سبز میدانوں کی طرف جاتا ہوا قدرے ریگستانی راستہ، مغرب میں اسی سنگھڑ کے آگے تاجدار کوہ سلیمان اور مشرق میں عظیم بہتا ہوا ڈھنڈ مہو ، سندھ، مہران ، سندھو ،انڈس یا اباسین ہے جس کی عظمت پہ کوئی شک نہیں، لاپرواہی پہ کوئی حرف نہیں ۔
روایت ہے کہ اس کے کناروں پہ آباد صدیوں پہ محیط انسانی تہذیب ہر ہزار سال کے بعد جواں ہو کر مر جاتی ہے۔ اور پھر اسی خمیر سےنئی آبادی جنم لیتی ہے جیسے سرباس کی اگلی نسل اس کی راکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ تونسہ کے اب کے لوگ سر باس کی مثل ہیں اور ہزارویں سال کا آخر ہیں!
ویسے بھی اس مٹی سے سندھوکا تعلق غالب کےمحبوب کا سا رہا ہے جہاں وصال یار نہیں صرف انتظار یار ہی ہے اور وہ بھی صدیوں کا .
اسی انتظار کو موقوف کر کے یہ لوگ ہجرت پرمجبور ہوئے،ان میں سےکچھ مشرق کی طرف سندھو کے پار اتر ے اور بہت زیادہ رفعتوں سے ہمکنار ہوتے ہوئے کوہ سلیمان کے اس پار اترے جسےآج لوگ بلوچستان کہتے ہیں ، وہاں کے بلوچوں اورپشتونوں کی روایتی وضح داری کام آئی۔
شکم کی آگ کے لیےہی سہی اس ہجرت نے کوہستانی بلوچوں اور دامانی بلوچوں میں ایک خوبصورت ثقافت کو جنم دیا۔ ان بلوچوں کے اشتراک سے انہی کا ہی صدیوں پرانا ٹوٹا رشتہ بحال ہوا ساتھ ہی بلوچستان کے روایتی پشتون کلچر نےبھی چودہ سوسال پہلے والےسفر ہجرت کی یاد تازہ کی۔
یہ دامانی بلوچ یا تونسوی بلوچستان کے ضلع موسی خیل ، لورالائی ، ژوب اور کوئٹہ سے ہوتے ہوئے تربت اور مکران کے ساحلوں تک چلےگئے ، ان کےآنکھوں میں علم کے دیےتھے، یونان ایسی ملتی جلتی مٹی سے ان کاخمیراٹھا تھا سو ناخواندہ اورقدرےتجارت پیشہ پشتونوں اور ریوڑ ہانکتے بلوچوں میں انہوں نے علم اور تعلم کی بنیاد رکھی ، وسعت پزیر بلوچستان میں پناہ لی اور آگہی کا نور بانٹا ساتھ ہی ریاست کے ساتھ مقامی لوگوں کوہم آہنگ کیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں تعلیم، صحت اور قانون کے شعبوں میں یہ ستاروں کی طرح جگمگائے۔
بزرگ وضح دار بلوچ اور پشتون لیڈر جن کاقلم اور کتاب سے رشتہ رہا ہے ان دامانی بلوچوں کودل میں جگہ دیتے رہے ہیں۔
قحط الرجال کی اس رت میں غوث بخش بزنجو، نواب اکبر بگٹی اور عطااللہ مینگل جیسے برداشت، رواداری اور ڈائیلاگ کے حامل استعارے نہ رہے تو اب یوں لگتا ہے کہ بلوچستان سے برکت اٹھ گئی ہے
سسلسلہ وار چراغ بجھے تو خوابوں کی سرزمین کو اندھیرے نے آ لیا۔ قلم اور کتاب سے رشتہ ٹوٹا تو تعصب نے جنم لیا
نو نہالان فیس بک و سوشل میڈیا نے فرض کر لیا ہے یہ لوگ ہمارااستحصال کر رہےہیں۔
استحصال کسے کہتےہیں؟
سروسز کا معاوضہ لینا استحصال ہے؟
آدھےےسے زیادہ پاکستان کے رقبے پر پھیلے ہوئےبلوچستان میں کسی بھی دامانی بلوچ کے پاس پانچ ایکڑ زمیں بھی نہیں ہے
ایون بالا میں کسی بھی طریقے سےپہنچنے والوں کےمعروضی سطح کےبیان اورانصاف ہی کی مسندپہ بیٹھنےوالےانصاف کےعلمبردار کاغذکےایک ریزیڈنشل ٹکڑےکےلیےٍ ان بلوچوں کو ذلیل کررہےہیں جن کی تین نسلوں نے یہاں علم کے دیے روشن کیے ہیں ۔ محکمہ مال کے رجسٹر
قربانی جیسے لفظ سے نا آشنا اور قانون کی فائلیں صعوبتوں اورمحرومیوں جیسے الفاظ سے نابلد ہیں۔
اور پھر اسی ہنگامے میں ان کا نام کوئی کیوں لے گا جو مذیب کے نام پر یہاں آئے تھے اور اپنے ساتھ کلاشنکوف اور پوست کے ڈوڈے بھی لائے ۔ اب وہ بلوچستان کے مالک ہیں۔
اب تین نسلوں کے بعد ان دامانی بلوچوں کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔یہ ہجرت سے جنم لینےوالے المیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔کوہ ان کے دلوں میں دامان کے عشق کو کم نہیں کر سکا۔ اس لیے جیسے ہی ان کو فرصت ملتی ہے یہ تونسہ سے گلے ملنے آ جاتےہیں ہیں، وارفتگی بتاتی ہے کہ یہ لمحے ان کے لیے حاصل زندگی ہیں ۔
بلوچستان میں دسمبر کے شروع میں نکالی گئی تمام کمیٹیاں ان کے نام کی ہوتی ہیں درزی سے نئی ویسکوٹ سلوائی جاتی ہے۔ اپنے لیے غیر ملکی سگریٹ کا سٹاک یا خشک نسوار اور یاروں کے لیے خشک فروٹ لیے جاتے ہیں(تونسہ میں دوست نہیں یار ہوتے ہیں) اگر فیملی ساتھ ہو تو جانے کے لیے ایک عدد ویگو ڈالا کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ تونسہ آنے والےاس بلوچ کی آنکھوں میں ستارے جگ مگ کر رہے ہوتے ہیں ۔ خشک سرد پہاڑوں سے آئے اس مرد کوہستانی کی جلد خشک ہو چکی ہوتی ہے شکل سے وہ گندمی پٹھان لگتا ہے انداز نشست برخاست کچھ پشتونوں ، کچھ سرائیکیوں اور کچھ کوہستانیوں سا۔ اس نے تین مہینوں کی چھٹی کا پورا فریم ورک بنایا ہوتا ہےتونسہ کا یہ باسی وسیب کی رونق ہے اس کے دم سے اس علاقے کے غریب لوگوں کا ختم ہوتا کاربار پھر چل پڑتا ہے۔ تونسہ کاسرائیکی ہوٹل ، کوٹ کا شہلانی موڑاورسوکڑ کے بھائی موڑ کی رونق بڑھ جاتی ہے، منگڑوٹھہ، ریتڑہ، وہوا، نتکانی کے ہوٹلوں کے ہماچے آباد ہو جاتے ہیں اور وساخوں کے حقے سلگ پڑتے ہٰیں۔ دیواروں کی ٹیک لگا کر دسمبر جنوری کی دھوپ لگوائی جاتی ہے، چائے کا ادھا، شام کی ثوبت، رات کی محفلیں جوبن پہ آ جاتی ہیں۔وسیب کی رونقیں، کھیلوں کے نقارے،شادیوں کی جھمریں اس کے دم قدم سے آباد ہیں۔
جیسے ہی فروری کے وسط میں دن چمکدار ہوناشروع ہوجاتے ہیں ویسےویسےہی اس کےچہرےکی رونق ختم ہونے لگتی ہے ۔
،مارچ میں پھرپہاڑوں کی طرف جاناہے ۔ایک لمبا سفر، ۔۔۔سفر ۔۔۔اور پھر سفر ۔
پتہ نہیں یہ کتنی صدیوں سے چل رہا ہے؟
اور کتنی صدیاں چلے گا؟
تونسہ کے باسیوں کی منزل نہیں ہے ان کا سفر اہم ہے یا پھر ساتھ !
بھلا ساتھ بھی سلامت رہا کبھی؟ ان پکھی واسیوں کی ایسی قسمت کہاں ؟
ضروری نہیں کہ یہ دامانی بلوچ اگلے سال واپس آئے تو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہو۔ ایسا بھی تو ہوتا ہے۔ جی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی ویگن، کسی ڈالے،یاکسی بس کی چھت پر رکھے ہوئے لکڑی کے بکسےکے اندر ہمیشہ کے لیے سویا پڑا ہو !!!
خاموش ماتم کس نے دیکھا؟
ہجرت کرنے والی ان کونجوں کی کرلاٹ کون سنتا ہے جو ڈار سے بچھڑ گئیں؟
یہ خون خاک نشیناں ہو کر بھی رزق خاک نہیں بلکہ رزْق سنگ ٹھہرتا ہے۔
کچھ بھی تو نہیں ہوتا ۔سوائے اس کے کہ آدھی بیوہ پوری بیوہ ہو جاتی ہے۔ معصوم آنکحوں سے سوال کرتے بچے اور اس تابوت کو وصول کرنے والے اس کے غم زدہ بھائی، بہنیں اور وہ یار ہوتے ہیں جن کا دامن خشک اور آنکھیں ہمیشہ نم رہتی ہیں۔
تونسہ کے باسیوں کی منزل نہیں ہے ان کا سفر اہم ہے یا پھر ساتھ۔
ایک لمبا سفر۔۔۔۔ سفر۔۔۔۔ اور پھر سفر!!!
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ