نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا انڈسٹری کی موت||عزیز سنگھور

میڈیا بھی دیگر صنعتوں کی طرح ایک صعنت ہے تو میڈیا کو بھی عام قوانین کے تحت چلانا چاہیے۔ اس صعنت کے لیے کوئی خاص قانون کیوں؟ اگر دیکھا جائے اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت ایسا قانون لا ہی نہیں سکتی۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کے فیصلے کو تمام صحافتی تنظیموں، پریس کلبز، اپوزیشن جماعتوں سمیت اخباری مالکان کی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے مسترد کردیا اور اس قانون کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیاہے۔اس فیصلے سے حکومت کے مذموم مقاصد کھل کر سامنےآگئے ہیں۔سائبرکرائم ایکٹ کا معاملہ ابھی تھم نہ سکاتھا کہ اب میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ سامنے آیا۔ دراصل یہ فیصلہ ایک مخصوص ٹولے کے دماغ کی اِختراع کی عکاسی کرتا ہے۔
پی ایم ڈی اے کے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس منسوخ ہو جائیں گے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز ’پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ کے تحت کام کریں گے۔ اس قانون سے حکومت کی گرفت ہرقسم کے میڈیا بشمول اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور حتیٰ کہ ڈراموں اور فلموں پر بھی سخت ہو جائے گی۔
ہم نے یہ دیکھا ہے کہ پوری دنیا میں ہر جگہ میڈیا ریگولیٹری باڈیز ہوتی ہیں۔ لیکن قوانین بنانے میں ہمیشہ پروفیشنل صحافیوں سے مشاورت کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ جب تک صحافیوں سے مشاورت نہیں کی جاتی اس وقت تک اس قسم کی کوئی ادارہ قائم نہیں ہوناچاہیے۔ ایسے اقدامات آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
آرڈیننس کے تحت میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی تشکیل بھی دی جائے گی۔ جو پراگرامز ، خبروں اور تجزوں کے حوالے سے شکایات کا فیصلہ کرے گا۔ تاہم نئے آرڈیننس کے ذریعے کمپلینٹ کونسل کو بااختیار بناتے ہوئے سول کورٹس کے اختیارات دیے جائیں گے۔ جس کے تحت کونسل کو کسی کی طلبی کے لیے سمن جاری کرنے یا معلومات طلب کرنے کا اختیارہوگا۔ کونسل 20 روز کے اندر کسی بھی شکایات کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔
اتھارٹی کے تحت میڈیا ٹریبونل کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ دس رکنی ٹریبونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا۔ میڈیا کمپلینٹ کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سننے کے علاوہ ٹریبونل میڈیا ورکرز کی ویجزپرعمل درآمدکی نگرانی کرے گا۔ جبکہ میڈیا ہاوسزکے میڈیا ورکرز کے ساتھ پیشہ ورانہ امور کی نگرانی بھی کی جائے گی۔ اور سخت ترین سزائیں بھی دی جائیں گی۔
قانون کے مسودے کے مطابق وفاقی حکومت پی ایم ڈی اے کو کسی بھی معاملے میں ہدایات جاری کرسکے گی۔ جبکہ پی ایم ڈی اے حکومتی ہدایات پر عمل درآمد کروانے کی پابند ہوگی۔
پی ایم ڈی اے کے تحت الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کا علیحدہ علیحدہ ڈائریکٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ جو متعلقہ شعبوں کی مانیٹرنگ، لائسنس کے اجرا اور تجدید کو ریگولیٹ کرے گا۔ جبکہ اتھارٹی کے پاس ذیلی ونزتشکیل دینےکا اختیار بھی ہوگا۔

اگر یہ بل پرنافذ عمل ہوگیا۔ تو پاکستان میں میڈیا انڈسٹری عملاً ختم ہوجائےگی۔ کیونکہ ہرادارے کولائسنس ہرسال تجدید کروانا ہوگا۔ اب یہ حکومت کی مرضی پرمنحصرہوگاکہ لائسنس کی تجدید کرے یا نہ کرے۔ لائسنس کینسل ہونے کی صورت میں چینل یا اخبارمیں کام کرنے والے میڈیا ورکرز بے روزگار ہوجائیں گے۔ حکومت کی جانب سے یہ ایک ایسی تلوار ہوگی۔ جو کسی وقت بھی کسی ادارے کوختم کردےگی۔ اس صورت حال میں کونسا سرمایہ دارمیڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرے گا۔
اس بل سے صاف ظاہرہورہا ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان حکومت کو خوش رکھیں وگرنہ ان کی لائسنس منسوخ ہوں گے۔ اوران کے ادارے ایک سال کے بعد آف ایئر ہوں گے۔ چینلز یا اخبارات پر صرف اچھا اچھا کا گانا گنگنانا ہوگا۔ سب ٹھیک سب ٹھیک کا رٹا لگانا ہوگا۔ انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اتھارٹی بغیر شوکاز نوٹس کے سزائیں دی سکے گی ۔ بھاری جرمانہ عائد کیاجاسکے گا۔ صحافیوں کوقید وبند کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ ساری کرمنل سزائیں ہوں گی۔ اس فیصلے سے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری مکمل طورپر تباہ ہو جائے گی۔ تاہم حکومتی حلقوں کا مجوزہ آرڈیننس کے حوالے سے کہنا ہے کہ میڈیا کے نئے قانون سے فائدہ میڈیا ورکرز کو ہوگا۔ جو تنخواہیں نہ ملنے پر اپنے اداروں کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکیں گے۔ جبکہ صحافتی تنظیموں نے اس پہلو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت صحافی برادری کو سخت سے سخت سزائیں دی جاسکیں گی۔ ان سزاؤں میں قیدوبند کے ساتھ بھاری جرمانہ بھی شامل ہیں۔
حکومت نے اتھارٹی کے مسودے کو پوشیدہ رکھاہے۔ مسودے کی تیاری میں نہ صحافتی تنظیموں اور نہ ہی مالکان کی تنظیموں کو اعتماد میں لیا گیا۔ ایسی ایسی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ جو کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے اتھارٹی قیام سے قبل ہی متنازعہ بن گئی ہے۔
پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف پہلی بار آواز اس وقت اٹھی جب وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایک نجی چینل کے ٹاک شو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے تمام پریس کلبز پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کے حق میں ہیں۔ اس دعویٰ کے ردعمل میں سب سے پہلے کراچی پریس کلب نے اپنے ردعمل کا اظہارکیا۔ کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل سے متعلق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کے بیان کو حقائق کے برخلاف قرار دیدیا۔
اور کہا کہ وہ اس بل کی حمایت نہیں کرتے۔ دوسری جانب پاکستان کے دیگر بڑے پریس کلبوں نے بھی پی ایم ڈی اے کو میڈیا کی آزادی کے خلاف غیر آئینی اور ظالمانہ قانون قرار دیتے ہوئے بل کو ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔اور کہا کہ مجوزہ اتھارٹی میڈیا پر وفاقی حکومت کی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش اور آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ اس کے فورا بعد اپوزیشن جماعتیں بھی میدان میں آگئیں۔ ان جماعتوں نے بھی اتھارٹی کو آزادی رائے کے خلاف دہشت گردی قراردیا۔ یہ سیاہ آمرانہ اور فسطائی قانون ہے۔
میڈیا بھی دیگر صنعتوں کی طرح ایک صعنت ہے تو میڈیا کو بھی عام قوانین کے تحت چلانا چاہیے۔ اس صعنت کے لیے کوئی خاص قانون کیوں؟ اگر دیکھا جائے اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت ایسا قانون لا ہی نہیں سکتی۔ اخبارات کو ریگولیٹ کرنا ایک صوبائی مسئلہ ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کیسے مداخلت کرسکتی ہے۔ آئینی طور پر وفاقی حکومت مجاز ہی نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی قانون صرف صوبائی حکومتیں ہی لا سکتی ہیں۔ وفاقی حکومت نہیں لاسکتی ہے۔ دیکھا جائے توآڈٹ بیورو آف سرکولیشن (اے بی سی) دنیا بھر میں نجی شعبے کا حصہ ہوتا ہے، مگر یہاں اخبارات کو کنٹرول کرنے کے لیے اے بی سی وزرات اطلاعات کا ذیلی ادارہ بنا دیا گیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر میڈیا انڈسٹری کے تمام سٹیک ہولڈرز اور صحافی برادری کی حقیقی قیادت کا اجلاس بلا کر ایک متفقہ قانون بنائے۔
ویسے بھی عالمی صحافتی تنظیموں نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قراردیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس میکسیکو کے بعد سب سے زیادہ صحافی پاکستان میں قتل کیے گئے۔ صحافیوں کو زیادہ تر مشکلات کا سامنا فاٹا، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں کرنا پڑتا ہے جہاں امن و امان کے حالات کافی سنگین ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author