سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ شمشاد
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں پاکستان سے جِندا بھاگ کا ٹرینڈ بڑا مقبول ہورہا ہے کہ وطن عزیز میں حالات تیزی کے ساتھ اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہاں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اور ہر کوئی یہاں سے بھاگنے کی سعی کررہا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح اپنا مستقبل محفوظ کرسکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے بیرون ملک جانے والے طلبا کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے ذہین، قابل اور وہ لوگ جسے کریم کہا جاتا ہے ان کو بیرون ملک یونیورسٹیاں سکالر شپس دے کر یہاں سے لے جاتی ہیں۔ آج اگر امریکہ میں قابل اور اچھے ڈاکٹرز کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ امریکہ میں سب سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹرز اور سرجنز اعلیٰ عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں اچھے سرجنز ا ور ڈاکٹرز کی بے حد کمی ہے۔ اگر انجینئرز کی بات کی جائے تو کینیڈا اور آسٹریلیا پاکستان کے قابل انجینئرز کو دھڑادھڑ سکالر شپس پر اپنے ملک بلالیتے ہیں۔ اسی طرح ایوریج نمبر لینے والے طلبا برطانیہ سمیت دیگر ممالک کا رخ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ چلو کسی طرح وہ باہر جاکر کچھ تو کمائیں اور اگر کوئی موقع مل گیا تو وہاں سیٹ بھی ہوجائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان تو اقتدار میں آنے سے قبل بڑے دعوے کرتے تھے کہ بیرون ملک سے لوگ یہاں آکر نوکریاں کریں گے مگر ایسے تمام تر دعوے بھی دیگر دعوئوں کے ساتھ ہوا میں بخارات بن کر اڑ گئے اور عوام کے ہاتھوں کچھ نہ آیا اسی لئے تو وہ آج بھی حالات کے جبر تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر سال وطن عزیز کے قابل اور زرخیز ذہن بیرون ملک جارہے ہیں یہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں لوگ بیرون ممالک امیگریشن کے لئے بھی اپلائی کررہے ہیں۔ یہ صورتحال حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں زرخیز ذہن بیرون ملک جاکر غیروں کی خدمت کریں گے تو اپنے ملک کو ترقی کیسے ملے گی، حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر پاکستان کے زرخیز اور قابل ذہن دھڑادھڑ دیارغیر جارہے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لئے برطانیہ کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا کہ وہاں پاکستانی طلبا بڑی تعداد میں زیرتعلیم ہیں لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ برطانیہ کی یونیورسٹیاں زیادہ تر بھارتی طلبا کو سکالر شپس دیتی ہیں۔پاکستانی طلبا سیلف فنانس پر برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں اور صرف 20گھنٹے ہفتہ کمانے کی اجازت پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ پاکستانی طلبا کو اس دوران جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تصور ہی سوہان روح ہے کہ ایک تو ہمارے سفیر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اچھوت سمجھتے ہیں اور ان کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے اور اگر کوئی ان کی مٹھی گرم کرے تو وہ خوشی خوشی کام کردیتے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل سفراء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن سچ تو یہ ے کہ معاملات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ یہ دفتر خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مضبوط لابنگ کرے اور پاکستانی نقطہ نظر اور امیج کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرے یہی نہیں بلکہ پاکستانی طلبا کے لئے سکالر سپس کے حصول کے لئے کوششیں کریں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بیرون ملک مقیم سفیر پاکستانی بیانیے، مصنوعات، ثقافت، سفارتی، سیاسیاور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لئے کلیدی کردار ادا کریں لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی سنہری روایات کا بے حد فقدان ہے اسی لئے تو آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہمارے والدین کے لئے اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوانا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے۔ اول تو والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کی غیرملکی یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیس ادا کرسکیں اور اگر وہ کوئی اپنا اثاثہ بیچ کر ان کی فیس ادا کربھی دیں تو نگوڑی Bank Statement ایک اژدھے کی طرح سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی میں ایم اے کی فیس 15ہزار پائونڈ ہے اور والدین 5ہزار پائونڈ پہلے جمع کرواکر بچے کا داخلہ کنفرم کرتے ہیں اور پھر 10یا 20فیصد بچے کے برطانیہ پہنچنے پر ادا کرنا ہوتی ہے اسی لئے تو لامحالہ انہیں بچے کی فیس اور ہوسٹل کے اخراجات اپنے بینک میں لازماً دکھانا پڑیں گے، 28دن کی بینک سٹیٹمنٹ شو کرنے کے لئے والدین لاکھوں روپے دینے پر مجبور ہیں۔ میں خود کئی ایسے والدین کو جانتی ہوں جنہیں بچے کی بینک سٹیٹمنٹ دکھانے کے لئے 47لاکھ روپے اپنے بینک میں رکھنے ہیں تو اس کام کے لئے ایجنٹ موجود ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اب یہ کام ایک بزنس بلکہ کامیاب بزنس کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ 47لاکھ کی بینک سٹیٹمنٹ بنوانے کے لئے 10فیصد مانگا جاتا ہے اور اگر کوئی جاننے والا ہو تو یہ 8فیصد بڑی مشکل سے احسان سمجھ کر کی جاتی ہے یعنی جس کے پاس پیسے ہیں وہ ان پیسوں سے لاکھوں سالانہ کمارہا ہے اور اس کی رقم کسی ٹیکس زون میں بھی نہیں آتی۔ مطلب یہ کہ ان انویسٹرز کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے جبکہ والدین سہانے دنوں کی امید پر بربادی کو قریب کرلیتے ہیں۔
برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو بدستور ریڈ لسٹ میں رکھنے کی وجوہات سامنے آئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر پاکستان میں کورونا کا پھیلائو رپورٹ ہونے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے جبکہ ٹیسٹنگ اور جیو گرافک اور سکیسونگ کی شرح خاصی کم ہے اسی لئے انفیکیشن کی اصل وجہ سامنے نہیں آرہی۔ وزیر صحت لارڈ جیمز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیلٹا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پنجاب میں ٹیسٹنگ اوسط شرح سے کم ہے۔ ایسے میں حکومت پر لازم ہے کہ برطانیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات پر خصوصی توجہ دے کیونکہ 2150پائونڈ کا قرنطینہ غریب پاکستانیوں کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔ حکومت اس اہم اور سنجیدہ ایشو پر توجہ دے اور پنجاب میں ٹیسٹنگ کی اوسط شرح کو بھی بہتر کیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نوجوان نسل کی ترقی کے لئے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کے اقتدار کے 3برس مکمل ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی بڑی تعداد پاکستان سے جِندا بھاگنے کو ترجیح دے رہی ہے کہ یہاں تو مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور میرٹ کی پامالی جیسی برائیوں سے کبھی جان ہی نہیں چھوٹنی اسی لئے تو بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان ہر صورت پاکستان سے نکلناچاہتے ہیں کہ چلو بیرون ملک جاکر ان کو اگر سیلز مینی بھی کرنا پڑی تو کم از کم انہیں Standard Wage تو ملے گی۔ آج کا نوجوان جس بے بسی، پریشانی اور مایوسی کا شکار ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا کہ وزیراعظم نے جو روزگار قرضہ سکیم اور اپنا گھر سکیم شروع کی ہے اس سے نوجوان اس طرح سے مستفید نہیں ہوپارہے جس کی وہ توقع کررہے تھے۔ اپنا گھر سکیم کے بارے میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی یہ پاکستان کی ناکام ترین سکیم تصور کی جائے گی۔ اس کی بڑی وجہ بینکوں کی نااہلی اور دوسرا حکومت کی عدم توجہگی ہے کہ اب تک جن لوگوں کو اپنا گھر سکیم کے تحت فائدہ ہوا ہے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے حالانکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں نے اپلائی کیا تھا لیکن وہ بینکوں کے چکر لگالگاکر تھک گئے ہیں لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہوا۔ کچھ ایسا ہی حال نوجوان قرضہ سکیم کا ہے ایک عثمان ڈار ہیں جو جنوبی پنجاب کی طرف اس حوالے سے توجہ ہی نہیں کررہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم اس طرف خصوصی توجہ کریں کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں جو پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک جارہے ہیں ان کی صلاحیتوں سے خود ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ذہین طلبا کو زیادہ سے زیادہ پروموٹ کیا جائے تاکہ وہ وطن عزیز کی خدمت کرسکیں۔ وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان جِندا بھاگ کے تاثر کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں۔
نوجوان کسی بھی ملک کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں اس لئے کوشش کی جانی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے وطن عزیز کی خدمت کرسکیں۔ اسی طرح وزیراعظم، وزیر خارجہ سے جواب طلب کریں کہ غیرملکی یونیورسٹیاں پاکستانی طلبا کو اسی طرح سے سکالر شپس کیوں نہیں دے رہی ہیں حالانکہ پاکستان کے طلبا بھارت کی نسبت زیادہ ذہین اور قابل ہیں تو ایسے میں حکومت، دفتر خارجہ اور بیرون ملک مقیم سفیروں کی یہ اولین ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے طلبا کو زیادہ سے زیادہ اکاموڈیٹ کروائیں۔ یہی نہیں بلکہ غیرملکی یونیورسٹیوں کا اپنی سرکاری یونیورسٹیوں سے الحاق نمل کی طرح کروائیں تاکہ وطن عزیز میں مقیم طلبا کو بھی غیرملکی یونیورسٹیوں کی طرح کی سہولیات میسر آسکیں۔ یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ