نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جی بالکل ‘ خوشحالی گھر گھر پہنچی ہے حضور!||حیدر جاوید سید

سرکاری طور پر پانچ بار ادویات کی قیمتیں بڑھیں ادویہ ساز اداروں نے تقریباً اتنی ہی بار من مانی کی کسی نے ان کے خلاف نوٹس نہیں لیا۔ ڈی پی کھاد کا بوری 27 سو روپے کی تھی اب 4 ہزار سے زائد کی ہے ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کی حکومت کی تین سالہ کارکردگی بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ "لوگ خوشحال ہو رہے ہیں ‘ میرے اعدادو شمار اسحاق ڈار والے نہیں اصلی ہیں’ٹیم ناتجربہ کار تھی ‘ تبدیلی کا راستہ بھی کٹھن ‘ کامیابی کا شارٹ سرکٹ نہیں ہوتا ‘ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت سنبھالی تو ملک ڈیفالٹ کرنے والا تھا” ۔
انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا مثلاً ” ٹیکس وصولی کے ریکارڈ پرخوشی کا اظہار کیا "۔ حسب سابق گزشتہ حکومتوں پر بھی برسے ، اپوزیشن نے تین سالہ کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لیا حکومت کے دعوے اور اپوزیشن کے جوابی راگ ملہار کو ایک طرف اٹھا رکھئے۔
خوشحالی کس گاوں میں آئی ہے اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ؟تاکہ آدمی وہاں جا بسے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں یہاں حالت یہ ہے کہ ضروریات زندگی کی ہر چیز دگنی تگنی قیمت پر دستیاب ہے ۔
سرکاری طور پر پانچ بار ادویات کی قیمتیں بڑھیں ادویہ ساز اداروں نے تقریباً اتنی ہی بار من مانی کی کسی نے ان کے خلاف نوٹس نہیں لیا۔ ڈی پی کھاد کا بوری 27 سو روپے کی تھی اب 4 ہزار سے زائد کی ہے ۔
زرعی ادویات کی قیمتوں میں لگ بھگ 150 فیصد اضافہ ہوا ‘ کاشتکار روتے پھر رہے ہیں ۔ فصل سے منافع کیا ملنا ہے قیمت ہی پوری نہیں ملتی ۔
وزیر اعظم نے بتایا زرمبادلہ کے ذخائر 27 ارب ڈالر ہیں ‘ اقتدار میں آئے تھے تو 16.4 ارب ڈالر کے ذخائر تھے ۔ یہاں ہم تین سال خزانہ خالی ہے کہ دکھ بھری کہانیاں سنتے کڑھتے رہے ۔ خزانہ خالی تھا تو 16.4 ارب ڈالر کاحساب کیسا ؟ ۔
2008ء میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنائی اس حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے انہوں نے اولین پریس کانفرس میں دعویٰ کیا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟2008ء سے اب اگست 2021ء کے درمیان ہم خزانہ خالی تھا کا نوحہ سنتے آرہے ہیں ۔
ان کالموں میں ایک سے زائد بار عرض کیا تھا کہ 2018ء کی نگران حکومت نے اڑھائی ارب ڈالر کی ادائیگی کس کو اور کیسے کردی جبکہ اس کے پاس قانونی اختیار نہیں تھا۔ خیر اب اس بحث کو چھوڑ دیں کہ خزانہ خالی تھا ہم آگے بڑھتے ہیں۔
بجلی کی بنیادی قیمت یعنی فی یونٹ قیمت میں تین سال کے دوران سات بار اضافہ ہوا لیکن گردشی قرضہ جان لیوا ہے ۔
حکومت مانتی ہے کہ پچھلے برس دو کروڑ بیس لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ان میں سے 1کروڑ80 لاھ کو ازسر نو روزگار مل گیا۔ چالیس لاکھ بے روزگار ہیں۔ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں تین سالوں میں بیروزگاری بڑھی ہے ہم اگر اپوزیشن کے دعوے کو رد بھی کر دیں کہ ایک کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے تب بھی حکومت کے حساب سے چالیس لاکھ تو بیروزگار ہوئے ہیں۔
دعویٰ یہ ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تھا اب 1.8 ارب ڈالر ہے ۔
آئی ایم ایف والے مئی 2021ء میں اس سے مختلف بتا رہے تھے یوں کہیں کہ پچھلے برس جب چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام پر ابتدائی مذاکرات مکمل ہوئے جن میں بجلی کے فی یونٹ قیمت میں سات روپے مرحلہ وار اضافہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا تو کرنٹ خسارہ موجودہ دعویٰ کے برعکس تھا۔
مئی سے اگست کے درمیان ایسا کیا ہوا وہ جادو کی چھڑی کہاں ہے جو کرنٹ خسارے کو بیس ارب سے 1.8 ارب ڈالر پر لے آئی۔
جان کی امان ہو تو عرض کروں تین سال میں خوشحالی نہیں حضور”خوش کلامی” میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ایسا ہوا ہے کہ مخالفین کی گھریلو تقریبات اور جنازے تک اس خوش کلامی سے محفوظ نہیں رہے۔
اسی دوران بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو احساس پروگرام کا نام دیاگیا لنگر خانے کھلے پناہ گاہیں بن گئیں۔ یقین کیجئے اگر سفید پوش طبقات کے لوگوں کی انا انہیں نہ مارے تو یہ پناہ گاہوں میں منتقل ہوجائیں۔
حالات بخدا ایسے ہی بن گئے ہیں۔ بدترین مہنگائی نے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے ۔
حکومت ایک کے سوا تمام ضمنی انتخابات میں ہاری تھی تو تب خوشحال لوگوں نے اسے ووٹ کیوں نہ دیئے ۔ جس میں جیتی(سیالکوٹ والے ضمنی انتخاب میں)اس جیت کا حال سبھی کو معلوم ہے لیکن یہ آج کا موضوع ہر گز نہیں۔
فقیر راحموں کل وزیر اعظم کی تقریر سن کر خوشحالی سے ملاقات کیلئے جھومتے جھامتے سیروتفریح کو نکل گئے تھے رات گئے واپسی پر ان کی حالت دیکھنے والی تھی ۔
فواد چوہدری کہتے ہیں ہماری حکومت کی تین سالہ کارکردگی قابل فخر ہے جی بالکل حضور! یہ تیسری حکومت ہے یہ جس میں آپ اہم منصب پر ہیں قابل فخر کارکردگی تو ہے ۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ پروپیگنڈے میں تحریک انصاف نے گوئبلز کو مات دے دی ہی ہے ہٹلر کا وہ وزیر زندہ ہوتا تو انصافیوں کا پانی بھرتا۔
کیا عرض کروں وزیر اعظم کہتے ہیں وہ اپنے اخراجات خود کرتے ہیں وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کچھ اور کہتے ہیں گزرے تین برس میری زندگی کے مشکل ترین برس تھے قلم مزدوری جاری ہے لیکن سفید پوشی کا بھرم کیسے قائم ہے یہ لکھنے کا یارا ہرگز نہیں۔
وزیر اعظم کوکیا معلوم لوگوں نے ضرورتیں محدود کر لی ہیں ہمارے دوست لالا اقبال بلوچ کل ا حتجاج کر رہے تھے ان کا کہنا تھا تین پنکھے اور چار انرجی سیور پر بجلی کا بل 10 ہزار روپے آیا ہے ۔
بلوں والی کہانی ”کہانی گھر گھر کی ہے” نون لیگ نے اپنے دور اقتدار کے آخری برس اور 2021ء تین برسوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تقابلی چارٹ جاری کیا ہے ۔ اسے مسترد کرنا یا کہنا کہ سب چھوٹ ہے بہت مشکل ہے ۔
قیمتوں میں بے دریغ اضافہ ہوا۔ کسان بدحال ہے ‘ تنخواہ دار ملازمین رو رہے ہیں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے ۔ دیہاڑی داروں کی حالت پتلی ہے ‘ اب تو لوگ مرنے سے ڈرتے ہیں کہ تدفین کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے ۔
کہا جارہا ہے کہ تیس سال حکومت کرنے والے منہ چھپا رہے ہیں
ارے صاحب!ان تیس سالوں میں دس سال تو جنرل پرویز مشرف لے اڑے تھے وہی پرویز مشرف جس کے آپ گیت گاتے تھے کہ یہ اللہ کا انعام ہے پاکستان کے لئے ۔
چودہری پرویز الٰہی اسے دس بار وردی میں صدر منتخب کروانا چاہتے تھے ‘ موجودہ حکومت کے 80فیصد لوگ مشرف ‘ پی پی پی اور نون لیگ کے ہیں پھر بھی طعنے سابقین کو دیتے ہیں اور چوریوں کی داستانیں سناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author