نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم پہ تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے(1)||عامر حسینی

ایک زمانہ تھا کہ مفتی محمد اشفاق احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے کتب خانے کی ایک چابی میرے پاس اور ایک مولانا شوکت علی سیالوی کے پاس ہوا کرتی تھی اور ہم دن میں یا رات میں کئی کئی گھنٹے اس کتب خانے میں گزارتے تھے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • عامر حسینی
    میں راولپنڈی میں شمس آباد کالونی میں ایک مکان میں اپنے ایک دوست خالد کے ہاں بیٹھا تھا۔ وہ عراق- کویت کی جنگ کے دوران پاکستان واپس آیا تو یہیں بس گیا تھا۔ 20 سال عراق میں رہتے ہوئے اسے عربی زبان پہ عبور ہوا تو اس نے عربی فکشن کے ساتھ ساتھ عراقی قبائل کی تاریخ کی کتابوں کو بھی چاٹنا شروع کردیا تھا۔
    میری طرح وہ سنّی مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتا تھا بس فرق یہ تھا کہ اس کا گھرانہ دیوبند مدرسہ تحریک سے وابستہ تھا اور میں صوفی سنّی گھرانے سے۔
    ہم دونوں کا زمانہ طالب علمی میں اسلام کی ابتدائی تاریخ کا فہم مقبول عام سنّی بیانیہ سے جڑا ہوا تھا اور اس کے بعد ہم دونوں کالج میں ہی بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ ہوئے اور پھر ہم نے کبھی سنجیدگی سے اسلام کی ابتدائی تاریخ کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا تھا۔
    ہم دونوں سوویت یونین، چین، کیوبا کے سماجوں کی تاریخ کو سماجی طبقاتی نکتہ نظر سے دیکھتے اور ان ممالک میں سماجی ارتقا پر سائنسی طور پر غور وفکر کرتے تھے اور یہاں تک کہ یونان میں ہم اسپارٹیکس تحریک تک کو اپنے اشتراکی نظریات کی چھلنی میں چھان کر اسپارٹیکس کسان غلاموں کی تحریک کو سراہا کرتے تھے-
    لیکن اسلام کی ابتدائی تاريخ پہ غور کرنا یا اس کو سماجی طبقاتی روشنی کے دائرے میں لانے کا خیال تک ہمیں نہیں آتا تھا۔ ہمیں ابتدائی اسلامی سماج میں 24ھجری سے 61ھجری تک اور اس کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی قائم کردہ سلطنتوں میں ہونے والی تقسیم کی کبھی سماجی- سیاسی بنیادوں کی جانچ کرنے اور اس بنیاد پر اس زمانے کی سیاسی- سماجی بغاوتوں اور تحریکوں دیکھنے کا خیال تک نہیں آتا تھا۔
    ہمیں اسلام کی ابتدائی تاریخ پر بحث فرقہ پرستانہ اور قدامت پرستانہ لگتی تھی اور ہمارے سینئر بھی تاريخ کو بس معاصر شیعہ – سنّی فرقہ وارانہ مناظرانہ پس منظر میں دیکھتے اور وہ خود بھی اس حوالے سے کسی بھی سماج کو جانچنے کے جو وہ مادی حرکی اصول اگٹر دوہرایا کرتے ان کا اطلاق اسلام کی ابتدائی تاریخ پر کرنے سے گریزاں ہوتے تھے۔ جب کبھی کوئی ہنگامہ سماج میں سامنے آتا تو اسے محض فرقہ واریت، رجعت پرستی کہہ کر ٹال دیا جاتا تھا۔
    خالد عراق میں رہا تو اسے عراق میں ایک تو پرانے عراقی قبائل کی قدیم تاریخ پڑھنے کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ وہ ان قبائل کے کئی ایک لوگوں سے ملا بھی۔ وہ بغداد میں جہاں رہ رہا تھا وہیں اس کے پڑوس میں ایک عراقی عرب گھرانے سے اس کا تعلق بنا اور یہ عرب گھرانا عراق کے معروف عرب قبیلے البجلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ خالد کو اس کا نام بھی بڑا عجیب لگا – حبہ عرنی ۔ خالد نے اس کا نام سن کر اسے کہا کہ یہ تو بہت ہی منفرد اور کانوں کو اجنبی لگنے والا نام ہے۔ یہ بات سن کر وہ عربی نوجوان ہنسنے لگا اور کہا کہ یہ تمہیں ہی نہیں بلکہ میرے صوبہ انبار و رمادی کے عرب دوستوں کو بھی کافی اجنبی نام لگتا ہے لیکن ہم قبیلہ بجلہ والوں میں یہ نام عقیدت و احترام سے رکھا جاتا ہے۔
    خالد نے یہ قصّہ بتاکر مجھے کہا کہ تم نے پاکستان میں چھپنے والی اسلامی تاریخ یا صحابہ کرام رض کے تذکروں پہ مشتمل کتابوں میں یہ نام پڑھا ہے؟ میں نے اپنی یادداشت پہ زور دیا تو یہ نام میرے ذہن کے کسی گوشے میں نہیں تھا۔ خالد نے میرے تجسس کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ تم اپنے کتب خانے میں موجود صحابہ کرام کے تذکرے میں یہ نام تلاش کرنا اگر مل جائے تو پھر مجھے بتانا۔ ابھی ہم اس کلام کو یہیں پہ روک دیتے ہیں۔
    میں واپس اپنے شہر لوٹ آیا- اپنا کتب خانہ چھان مارا ۔ کئی ایک معروف مدارس کے مفتیان کرام، حدیث پڑھانے والے اساتذہ سے دریافت کیا کوئی بھی اس نام کے صحابی سے واقف نہیں تھا۔ اب شومئی قسمت کے خالد اس کے بعد رزق کی تلاش میں کینڈا چلا گیا اور وہ دور ابھی ہمارے سوشل میڈیا کے دور سے بہت دور تھا- غرض کہ مجھے 2017ء تک انتظار کرنا پڑا۔ میں اس دوران نام بھی بھول گیا تھا۔
    پھر یوں ہوا کہ میں نے اپنی کتاب "کوفہ : فوجی چھاؤنی سے سماجی-سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک” کا فائنل ڈرافٹ تیار کرنا شروع کیا اور اس حوالے سے جب میں کتابیات کی فہرست مرتب کررہا تھا تو اسی دوران عقیلی کی کتاب الضعفاء سے ایک حوالے کی ضرورت پڑی تو وہ حوالہ تلاش کرکے میں نے اس کو مرتب کرنے والے کا مقدمہ پڑھنا شروع کردیا۔ اور وہیں مجھے کتاب الکبیر میں امام بخاری کا ایک قول ملا جو کسی حبۃ بن جوین کے بارے میں تھا ،مقدمہ نگار نے حبۃ بن جوین لکھ کر آگے لکھا تھا ” حبۃ العرنی” کے نام سے معروف ۔ میرے دماغ میں ایک دم سے جھماکہ ہوا اور مجھے خالد سے ہوئی گفتگو یاد آگئی ۔مصنف نے کئی اور کتابوں کے حوالے دے کر حبۃ العرنی کا احوال لکھا تھا اور ان میں سے کئی کتابیں ہمارے شہر کے معروف صوفی عالم دین مفتی محمد اشفاق رضوی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے کتب خانے میں موجود تھیں ۔
    ایک زمانہ تھا کہ مفتی محمد اشفاق احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے کتب خانے کی ایک چابی میرے پاس اور ایک مولانا شوکت علی سیالوی کے پاس ہوا کرتی تھی اور ہم دن میں یا رات میں کئی کئی گھنٹے اس کتب خانے میں گزارتے تھے۔ اس کتب خانے سے ملحق مفتی صاحب کا کمرہ تھا جہاں پر ڈیسک پہ میں ہمیشہ دیگر کتب کے ساتھ تفسیر القرآن روح المعانی لازمی پڑی دیکھا کرتا تھا۔ بہت بعد میں ان کی وفات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مفتی مرحوم و مغفور بعد از نماز فجر درس قرآن اور جعمہ کے روز اردو خطبے میں ایک یا دو آیات کریمہ پڑھنے کےبعد جو نکات نہایت آسان زبان میں بیان کیا کرتے تھے وہ علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سے اخذ کردہ ہوا کرتے تھے۔ مفتی صاحب کے واعظ فرقہ وارانہ مباحث سے پاک اور روحانیت سے بھرے ہوا کرتے تھے۔ میں ان کے بیٹے مبشر جمیل کا کلاس فیلو تھا اور اس ناطے وہ مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کیا کرتے تھے۔ پھر وہ اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوگئے اور یوں میرا ربط ان سے کٹ گیا اور میں بھی پھر شہر سے ایسا نکلا کہ برسوں بعد لوٹا تو نہ "جنوں رہا نہ پری رہی” وہ وفات پاچکے تھے۔ مجھے والد محترم نے بتایا تھا کہ کئی سال ہر جمعہ کے روز بعد نمآز جمعہ وہ میرے بارے میں پوچھا کرتے اور کہتے آئے تو کہنا مجھے ملے۔ ایک بار مجھے یاد ہے کہ وہ عراق کئے اور وہاں سے واپس لوٹے تو مجھے ایک کتاب تحفے میں دی۔ یہ کتاب دکتور محمد عبدہ یمانی کی تصنیف تھی ۔ اور اس کا عنوان تھا” علموا اولاد کم محبۃ آل البیت النبي”۔ موسسہ علوم القرآن دمشق -بیروت کی چھپی ہوئی تھی ۔ اس کتاب پہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا:
    ” عزیزم محمد عامر کے لیے جس نے نام کے آخر میں "حسینی” لگا رکھا ہے، اللہ پاک اسے اس نام کی لاج رکھنے کی توفیق بصدقہ محمد و آل محمد عطا فرمائے”
    میں نے وہ کتاب ان سے لی اور اسے ہمیشہ اپنے سرہانے رکھتا رہا۔ اس کتاب کے دائیں طرف خط کوفی میں سرخ رنگ سے اور سہنری شیڈ کے ساتھ آیت کریمہ "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا” لکھی ہوئی تھی۔ مصنف نے اس کتاب کے انتساب کے نام پر ایک عبارت رقم کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا
    "یارسول اللہ ! اس کتاب کو میں آپ کی عترت اور آل بیت طیبن و طاہرین کے نام ہدیہ کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں آپ کی عترت و اہل بیت کے ادبکی نعمت سے نوازے کہ ہم ان کا اکرام کریں اور ان سے محبت رکھیں اور جو ان سے محبت رکھے ان سے بھی محبت کریں ، اور وہ قرابت رسول اللہ سے نوازے گئے ہیں تو اللہ ہمیں ان کی شفاعت سے فیض یاب کرے اور ہم ان کے ساتھ لواء حمد کے نیچے جمع ہوں اور ہمیں حوض کوثر کے جام نصیب ہوں ۔ بے شک اللہ تو ہی سمیع اور مجیت الدعوات ہے”
    مجھے امید قوی ہے کہ مفتی صاحب کے حق میں بھی یہ دعا قبولیت سے سرفراز ہوئی ہوگی ۔
    خیر میں گھر سے نکلا اور جب مدرسہ بنات کے نیچے جہاں وہ کتب خانہ ہوا کرتا تھا پہنچا تو اس کے بڑے دروازے پہ موٹا سا تالہ لگا ہوا تھا ۔ میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ کتابیں وہاں سے عیدگاہ سول لائن منتقل ہوگئی ہیں جہاں مفتی عبدالرزاق صاحب کی تحویل میں ہیں ۔ میں وہاں پہنچا تو مفتی عبدالرزاق سے ملاقات ہوئی اور وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے جہاں مشکل سے چند سو کتب تھیں اور جن کتابوںکی مجھے تلاش تھی وہ وہاں نہیں تھیں – بھاری قدموں سے میں وہاں سے نکلا اور اگلے روز میں جامعہ انوار العلوم ملتان علامہ ارشد سعید کاظمی کے پاس جاپہنچا ۔ ان کا کتب خانہ بھی شاندار ہے۔ اس میں ہزاروں کتابیں تو حضرت علامہ احمد سعید کاظمی ضیغم دوراں کی جمع کردہ ہیں۔ میں نے متعلقہ کتابوں کے صفحات کی نقول حاصل کیں اور واپس چلا آیا۔ اور سکون سے میں پڑھنے لگا کہ "حبۃ العرنی ” کون تھے۔ اور جیسے جیسے میں پڑھتا گیا ویسے ویسے مجھے اس شخصیت کی گمنامی کے اسباب کا اندازہ ہوتا چلا گیا۔ اور تفصیل پڑھ کر میرے ذہن میں فیض احمد فیض کے اشعار کی بازگشت ہوئی
    ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
    دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
    دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
    اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
    (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author