مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارنامہ ، کامیابی اور کارکردگی وہ نہیں ہوتی جو بتانی پڑے بلکہ یہ تو خود بولتی ہے اور خودبخود نظر آتی ہے اور کسی بھی حکومت کی کارکردگی اس کے دعوؤں اور اشتہاروں سے نہیں بلکہ عوام کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ مگر عوام کے چہروں سے جو عیاں ہوتا ہے وہ حکومت کو نظر نہیں آتا اور جس کارکردگی کے حکومت دعوے کرتی ہے وہ عوام کو نظر نہیں آتی کیونکہ اس طرح کی کارکردگی کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ سرکاری دوربین کی ضرورت ہوتی جو ہر کسی کے پاس نہیں عوام کے پاس تو بالکل بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود حکومت اس بات پر مصر ہے کہ ہماری بہترین معاشی و اقتصادی پالیسوں کے نتیجے میں گزشتہ تین سال کے دوران ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ اسی ترقی اور خوشحالی سے آگاہ کرنے کے لیے گزشتہ دنوں حکومت نے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کی جس میں بھر پور تقاریر کی گئیں پارٹی ترانوں، نغموں اور خوبصورت دھنوں کے زریعے ایک جشن کا ماحول بنا کر عوام کو اپنی تین سال کی اس کارکردگی کے بارے میں بتایا گیا جو ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔ شکر ہے حکومت نے صرف ایک تقریب منعقد کی ورنہ حکومت کی جس طرح کی کارکردگی ہے تقریبات کا دائرہ ملک بھر میں بھی تو بڑھایا جاسکتا تھا اور پھر تین سال کی کارکردگی بتانے کے لیے تین ماہ کی تقریبات بھی منعقد کی جاسکتی تھیں۔ حکومت میں ہونے کے یہی تو مزے ہیں کہ جو کارکردگی ہوتی بھی نہیں وہ بھی نظر آجاتی ہے اور پھر جب آپ حکومت میں ہوتے ہیں تو سب اچھا ہوتا ہے اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر صرف بیانات اچھے ہوتے ہیں اپوزیشن کے دنوں میں جس طرح کے اچھے اچھے بیانات پی ٹی آئی والے دیتے تھے آج کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے دیتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ کسی جمہوری حکومت میں اپوزیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر خیر سے ہمارے ہاں نہ تو جمہوریت ہے نہ جمہوری حکومتیں اور نہ ہی اپوزیشن کا جمہوری کردار۔ ماضی کی طرح ان تین سالوں میں بھی حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور اپوزیشن حکومت کو گرانے میں مصروف رہی۔
جہاں تک حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کے منشور اور انتخابی وعدوں کو سامنے رکھ کر حکومت کی تین سالہ کارکردگی کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر ، جنوبی پنجاب صوبہ ، پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کا خاتمہ ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، مقامی حکومتوں کے انتخابات ، معیشت کی بحالی ، آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں سے نجات ، کرپشن کا خاتمہ اور بے رحمانہ احتساب کم از کم یہ سب اس حیثیت سے نظر نہیں آتی جس کی امید پر لوگوں نے تحریک انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے اسے کامیاب کرایا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نے اپنی تین سالہ کارکردگی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ہمیں مجبوراً آئی ایم کے پاس جانا پڑا آج زر مبادلہ کے زخائر 27 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ غریب لوگوں کی بحالی کے لیے احساس پروگرام اور کامیاب جوان پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں لنگر خانے کام کر رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ 10 سالوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے تعمیرات کے شعبے میں سیمنٹ کی فروخت میں 42 فیصد اضافہ ہوا اسی طرح موٹر سائیکل ، ٹریکٹر کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ اور گاڑیوں کی فروخت 85 فیصد تک بڑھ گئی ہے جبکہ پاکستان میں نئے ڈیموں کی تمیر کا کام جاری ہے جو اگلے دس سالوں میں مکمل ہوجائیں گے۔
یقیناً جب وزیر اعظم یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوگا کیونکہ ان کے بقول یہ اعداد و شمار اسحٰق ڈار والے نہیں بلکہ اصلی ہیں تو پھر واقعی ملک معاشی طور پر مضبوط اور عام لوگوں کی حالت زار میں بہتری اور خوشحالی آچکی ہوگی ہم نے تو 2018 میں بھی ان پر اعتماد کر کے ووٹ دیا تھا آج بھی آنکھیں بند کر کے ان کی باتوں پر یقین کر لیں گے مگر ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود چٹکی بھر آٹے کے لیے لائن لگنے والوں کو یہ بات کون سمجھائے گا ، گنے کی بہترین پیداوار کے باوجود 110 روپے کلو چینی خریدنے والوں کو یہ بات کیسے سمجھ آئے گی ، 310 روپے کلو گھی خریدنے والوں کو کون بتائے گا ملک کی معیشت مضبوط ہوچکی ہے ، مہنگی بجلی کے جھٹکوں سے تڑپنے والوں کو کیسے پتا چلے گا کہ برے دن گزر چکے ہیں ، مہنگی گیس کے ہاتھوں اپنے ارمانوں کو راکھ کر بیٹھنے والوں کو کیسے یقین آئے گا کہ ملک میں خوشحالی آچکی ہے ، مہنگی ادویات کی وجہ سے سسک سسک کر دن پورے کرنے والے مریضوں کو کیسے پتا چلے گا کہ اچھے دن آچکے ہیں، بیک جنبش قلم نوکریوں سے نکالے جانے والے ہزاروں لوگ کیسے تسلیم کر لیں گے حکومت کروڑوں لوگوں کو نوکریاں دے رہی ہے ،یقیناً یہ عام اور غریب لوگ جنہیں نہ تو حکومت کے معاشی ماہرین کے پیش کردہ اعداد و شمار کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی حکومت کی بتائی گئی ترقی ، خوشحالی اور کارکردگی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم پھر بھی ہم حکومت وقت سے گزارش کریں گے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آنے والے دنوں حکومت کچھ اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرے کہ حکومت کو بتانے اور دکھانے کے لیے کسی تقریب کی ضرورت نہ پڑے بلکہ خودبخود نظر آئے اور ان عام ، غریب بے بس اور کسمپرسی کا شکار لوگوں کو بھی پتا چل جائے کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی