نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یکساں نصاب تعلیم اور سماجی تفریق||ظہور دھریجہ

قلعہ ملتان پر انگریزوں کی یادگار اے توپ رکھی گئی ہے جس کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ فتح ملتان کے موقع پر انگریز فوج کے کام آئی۔پاکستان کے حکمرانوں کو غلاماناں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ لاہور اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر اعظم نے لاہور کے واقعہ کو باعث شرم قرار دیا اور کہا کہ موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ انگریزی طرز تعلیم سے ذہنی غلامی پیدا ہوئی ہے۔ اس سے نجات ضروری ہے۔ وزیر اعظم کی بات اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر جب تک انگریزی کا متبادل نہیں آتا اُس وقت تک اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھنا ہو گا کہ اردو میڈیم کی وجہ سے غریبوں کے بچے رہ گئے اور انگلش میڈیم کے باعث امراء کی اولادیں حکمرانی کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کھل کر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی ہے حالانکہ وہ خود انگلش میڈیم میں پڑھے۔ ذہنی غلامی یا ذہنی پسماندگی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی اصل کو چھوڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے کھل کر بات کی ہے تو حقیقی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اصل زبانیں وہ ہیں جو یہاں پیدا ہوئیں جن کا اپنا خطہ و سر زمین ہے۔ انگریزی کی طرح ہندی کا بھی موجودہ پاکستان سے تعلق نہیں ہے۔ ہندی زبان گنگا جمنا کی پیداوار ہے اور اردو صرف نام تبدیل ہوا ہے جبکہ اس کی بنیاد ہندی ہے۔ پاکستانی ثقافت کے فروغ کیلئے پاکستانی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا ہو گا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ یکساں نصاب تعلیم سماجی تفریق کے خاتمے کیلئے نا گزیر ہے اگر یکساں نصاب تعلیم صحیح معنوں میں نافذ ہو جاتا ہے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ مدارس کی فرقہ وارانہ تعلیم میں کمی آئے مگر جہاں تک سماجی تفریق کا تعلق ہے تو اُس کیلئے طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایک بچے نے گائوں کے اُس سکول میں تعلیم حاصل کرنی ہے جہاں بیٹھنے کو ٹاٹ میسر نہیں اور دوسرے بچے کو سکول کیلئے آنے جانے کیلئے بڑی گاڑیاں استعمال ہونی ہیں اور بچے نے ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی ہے تو اس طرح سماجی تفریق کس طرح ختم ہو گی؟ تعلیم کے معاملے میں جو قدم اٹھائے جا رہے ہیں اُس سے تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سندھ کے بچے اپنی سندھی ماں بولی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے بچوں کو آپ اُن کی ماں بولیوں سے محروم رکھتے ہیں تو یکسانیت کیسے پیدا ہو گی؟ جہاں تک یکساں نصاب کا تعلق ہے تو بڑے ایجوکیشن ہائوسز اُس سے انکار کر رہے ہیں اور ویسے بھی یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا پہلے بھی بہت سے اعلانات ہوئے مگر عملی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔ یکساں نصاب سے زیادہ ضرورت طبقاتی تعلیم کے خاتمے اور ماں بولی میں تعلیم کا اجراء ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں سے زبان کو بہترین تخلیق کا درجہ حاصل ہے ، انسان کو جس بناء پر اشرف المخلوق کہا گیا اس میں ایک زبان بھی ہے۔ زبان ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست اور ایک ایسا لافانی نظریہ ہے جو انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ زبان تعصب نہیں محبت کا نام ہے ، لیکن اس فلسفے کو نہیں سمجھا گیا ۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی زبان کے مسئلے کو متنازعہ بنایا گیا ، حالانکہ ہندوستان اور پاکستان میں ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی ، ہندوستان میں اس مسئلے کا حل فطری اصولوں کے مطابق یہ نکالا پاکستان میں اسی طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی ماں بولی کو آئوٹ کرنے کا مقصد بچے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں، ایساکر کے آپ اس کا انسانی شرف چھین کر اس میں حیوانیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب ، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں ، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔حرف آخرکے طور پر بارِ دیگر گزارش کروں گا کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو مصنوعی پالیسیاں ترک کر کے فطری اور حقیقی پالیسیوں کو اختیار کرنا ہو گا اور پاکستان کو تہذیب و ثقافت کا گلدستہ اس صورت میں بنانا ہوگا کہ اس گلدستے میں پاکستان کی تمام زبانیں اور تمام ثقافتیں پھولوں کی شکل میں اپنی رنگوں اور اپنی خوشبوؤں کے ساتھ موجود ہوں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author