اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین سال ۔ برا حال|| عمار مسعود

اگلے سال الیکشن متوقع ہیں۔ پی ٹی آئی کو اب موقع مل چکا ہے ۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہیئے انکی تسلی ہو چکی۔ الیکشن میں جانے سے پہلے پی ٹی آئی کو کچھ کارکردگی دکھانی ہو گی۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومت کے بلند بانگ دعووں کے برعکس اس وقت ملک کا ہر شعبہ ترقی معکوس کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ جس تبدیلی کا نوے دن میں وعدہ کیا گیا تھا تین سال گذرنے کے بعد بھی اس کا رتی بھر عکس عوام کو دیکھنے کو نہیں ملا۔ تین سال مکمل ہونے پر جو دعوے کیئے گئے وہ یا تو خواب ہیں یا دروغ ہیں۔ نہ اس ملک میں ڈیم بنے ، نہ پاور پراجیکٹس لگے ، نہ ترقیاتی منصوبوں پر کوئی اخراجات ہوئے نہ کوئی مستقل معاشی پالیسی سامنے آ سکی۔ تبدیلی کی صرف یہ شکل سامنے آ سکی کہ کبھی آئی جی تبدیل کر دیئے کبھی وزیر خزانہ بدل دیئے ، کبھی بی آر ٹی کی رپورٹ روک دی گئی ، کبھی فارن فنڈنگ پر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ اس صورت حال میں عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ غربت کا عفریت ان کو چاٹ رہا ہے۔ بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ خط ناداری سے نیچے جانے والوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی گذشتہ حکومتوں کے پراجیکٹس کے نام تبدیل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں رہی۔ جب بھوک ہر طرف ناچ رہی ہےتو حکومت کی توجہ عوام کی طرف نہیں شجر کاری کی طرف ہے۔ شائد انہیں احساس ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب دو وقت کی روٹی بھی یہاں نصیب نہیں ہو گی اس لیئے عوام کے لیئے گھاس پھونس کھانے کا بروقت انتظام کیا جائے۔

عوام کی صورت حال میں اگر کچھ بہتری آئی ہوتی تو تین سال جشن منانے کی تک بھی تھی مگر اس وقت جب عوام کی حالت پہلے سے بہت ابتر ہو گئی ہے یہ تین سالہ جشن عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ انکی غربت کی توہین اور تضحیک کے مترادف ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت جن دعووں کےساتھ مسند اقتدار پر بیٹھی تھی اب تک وہ تمام دعوے خود ہی رد ہو چکے ہیں۔ نوے دن میں تبدیلی لانے والے تین سال بعد بھی ملک کی بدحالی کا الزام اگر گذشتہ حکومت کو دے رہے ہیں تو یہ حکومت کی ناکامی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ حکومت کے ارباب و بست و کشاد کو پتہ ہونا چاہیئے کہ چور ڈاکو کا نعرہ لگانے سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا۔ کر پشن، کرپشن کا منترا پڑھنے سے عوام کی بھوک نہیں مٹتی۔ گزشتہ حکومتوں پر اپنی کارکردگی کا ملبہ ڈالنے سے افلاس کم نہیں ہوتا۔ تین سال کا جشن منانے سے لوگوں کو نوکریاں نہیں ملتیں۔ ترقی کے جھوٹے دعوے کرنے سے کاروبار نہیں چلتے۔ اب کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ تین سال بہت وقت ہوتا ہے ۔ مخالفین کو گرفتار کروانے سے لوگوں کو دوائی نہیں ملتی۔ ان تین سالوں میں عوام کی تقدیر بدلنے کا دعوی پی ٹی آئی نے ہی کیا تھا۔ وہ اب بھی اس دعوے پر مصر ہیں مگر یہ دروغ عوام کو ہضم نہیں ہو رہا۔ اب وہ بہتری اور فلاح چاہتے ہیں۔ حالات میں تبدیلی چایتے ہیں۔ بہتر زندگی چاہتے ہیں۔

آپ کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ترقی الٹا سفر کر رہی ہے۔ معشیت کے علاوہ کون سے ایسے زریں کارنامے ہیں جن کا ذکر کیا جائے۔ کیا خارجہ پالسی حکومت کی کامیابی کی دلیل ہے۔ کیا امریکی صدر سے ایک کال کی بھیک مانگنا خارجہ پالسی کی کامیابی ہے۔ داخلہ پالیسی یہ ہے کہ جرائم کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ خواتین اور غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات پہلے سے بڑھ گئے ہین۔ پولیس حکومت کی باندی بن کر رہ گئی ہے۔ میڈیا زرخرید غلام ہو گیا ہے۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ سٹیل مل بند پڑی ہے ۔ پرائیوٹائزیشن ختم ہو گئی ہے۔ زراعت میں ہم گندم باہر سے منگوا رہے ہیں۔ چینی اور آٹے کی قیمتیوں میں سو گنا سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے چنگل میں ہم پھر جا چکے ہیں۔ قرضوں کی رقم تاریخ میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اولمپکس میں کوئی ایک کھلاڑی بھی تمغہ نہیں جیت سکا۔ ہاکی میں ہم کوالیفائی نہیں کر سکے۔ فیٹف کی تلوار ہم پر ہر وقت لٹک رہی ہے۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ روپے کی قدر گھٹ رہی ہے۔ ترقی کی شرح کہاں سے کہاں گر گئی ہے۔ یہ سب علامات کسی جشن کا متقاضی نہیں ماتم کا سامان ہیں۔ ملک کی ابتری کا ماتم ، بین الا قوامی سطح پر توہین کا ماتم ، معیشت کی بری حالت کا ماتم ۔ بے روزگاری میں اضافے کا ماتم۔ کاروبار بند ہونے کا ماتم۔ غربت سے ہونے والی خود کشیوں کا ماتم۔ معاشرتی اور سماجی ابتری کا ماتم ۔ اخلاقیات کی گراوٹ کا ماتم۔ جرائم کی بڑھتی شرح کا ماتم ۔ تین سال پہلے کیئے گئے بلند بانگ دعووں کا ماتم ۔

حکومت کی اعلی کارگردگی سوشل میڈیا تک محدود ہے۔ یو ٹیوبرز کے شوز تک محدود ہے۔ گالیاں دینے والے ٹرولز تک محدود ہے ۔ جس جشن ترقی کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کا عوام کی فلاح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عوام کواس طرح کے دروغ سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے پیٹ کی آگ کو ٹوئیٹر کے ٹرینڈ نہیں بجھا سکتے۔ لوگوں کوترقی کے گراف دکھا کر مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ ان تین سالوں میں جو کچھ ہوا اسکی اصل صوت حال اگر میڈیا پر سامنے نہ بھی آ سکے تو بھی عوام کو اس کارکردگی کا بہت اچھا اندازہ ہو چکا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو گلی میں چلتے کسی آدمی سے اس حکومت کی کارکردگی پر مکالمہ کرکے دیکھیں لمحوں میں آپ کو یہ تین سالہ جشن زمیں بوس ہوتا نظرائے گا۔ ترقی کے دعوے ہوا ہو جائیں گے۔ اس لیئے کہ ترقی نعرے لگانے سے نہیں ہوتی۔ عام آدمی سے بہتر حکومت کی کارکردگی کو کوئی نہیں جانتا۔

اگلے سال الیکشن متوقع ہیں۔ پی ٹی آئی کو اب موقع مل چکا ہے ۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہیئے انکی تسلی ہو چکی۔ الیکشن میں جانے سے پہلے پی ٹی آئی کو کچھ کارکردگی دکھانی ہو گی۔ کچھ بڑے منصوبے مکمل کرنے ہوں گے۔ کچھ غربت کم کرنی ہو گی۔ کچھ گورننس پر توجہ دینی ہو گی۔ ورنہ عوام کا احتساب بہت کڑا ہوتا ہے ۔ ابھی یہ صورت حال ہے کہ حکومت کے بہت سے وزراء اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے۔ تو کیا اگلے سال یہ ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے حضور پیش ہو سکتے ہیں؟ ان سے نمائندگی کا تقاضا کر سکتے ہیں؟ ان سے کچھ نئے دعوے کر سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: