نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کا جبر||رؤف کلاسرا

اگر امریکی اور یورپی فوجیں اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بیس سال تک پورا افغانستان چھوڑیں کابل میں طالبان کے مارکیٹوں میں حملے نہیں روک سکے تو طالبان کیا کریں گے؟

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو کچھ کابل ایئرپورٹ پر ہوا‘ کہا جا رہا ہے کہ پونے دو سو کے قریب لوگ خود کش حملوں میں مارے گئے، اس پر دل بہت افسردہ ہے۔ ایک لمحہ سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایک نئی دنیا کی امید انسانوں کو اگلی دنیا میں لے گئی۔ اٹھارہ ہزار افغان اس امید پر بیٹھے تھے کہ امریکن انہیں نکال کر لے جائیں گے۔ وہ سب بیس سال تک امریکی اور نیٹو فورس کے ساتھ مختلف ڈیوٹیاں دیتے رہے اور امریکہ نے یہ اعلان کیا تھاکہ سب کو وہ لے جائیں گے تاکہ وہ طالبان کے انتقام کا نشانہ نہ بنیں۔ان بیس برسوں میں افغانستان میں پوری ایک نئی نسل جوان ہوگئی ہے۔
دو نوجوان بچوں کی کہانی نے سب کو متاثر کیا ہے۔ ایک انیس سالہ افغان فٹ بالر تھا جو امریکی جہاز سے گر کر جان بحق ہوا اور دوسرا بیس سالہ امریکی فوجی تھا جو ایئرپورٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا‘ وہ بم دھماکوں میں جان دے بیٹھا۔ ان جنگوں نے کتنے گھر اجاڑے ہیں۔ بیس سال طالبان نے امریکی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی اور انتظار کیا‘ مزید بیس دن انتظار کرنے میں کیا قیامت آجانی تھی کہ جو لوگ باہر جانا چاہتے ہیں وہ جا سکتے اور ایئرپورٹ پر ہزاروں لوگ اکٹھے نہ ہوتے‘ جس کا فائدہ داعش نے اٹھایا اور دو سو کے قریب بندے مار دیے جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔
افغانستان کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک اور وہاں رہنے والوں کی قسمت میں چین نہیں لکھا گیا۔ میں نے خود آپ سب کی طرح جب سے ہوش سنبھالا ہے افغانستان کو مسائل میں گھرا پایا ہے۔ افغانستان سے زیادہ بدقسمت کون سے ملک یا لوگ ہوں گے جن کو چالیس برس سے سکون نہیں۔ جو گھر ڈھونڈ رہے ہیں‘ پناہ ڈھونڈ رہے ہیں اور انہیں نہیں مل رہی۔ آج کل افغانستان کے پرانے وار لارڈ حکمت یار پر لکھی گئی کتاب Night Letters پڑھ رہا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کبھی کابل اتنا خوبصورت شہر بھی ہوتا ہوگا۔ افغانستان ایسا بھی تھا۔ پھر خالد حسینی کا ناول The Kite Runner پڑھا تو دل مچل اٹھا کہ اگر اس ملک میں جنگ نہ ہوتی تو اس خوبصورت ملک کی سیر کو جاتے۔
اس کابل کو دیکھتے جس کا نقشہ خالد حسینی نے اس غیرمعمولی ناول میں کھینچا ہے‘ لیکن ان چالیس برسوں میں جتنا آگ اور خون کا کھیل افغانستان میں کھیلا گیا‘ اور جتنی نفرتیں اور قتل و غارت وہاں ہوئی‘ اس کے بعد وہاں دیکھنے کو کیا رہ گیا ہے؟ جس خطے میں چالیس سال سے آگ بھڑک رہی ہو اور انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہوں وہاں دیکھنے کو کیا بچا ہوگا؟ جس ملک کی پڑھی لکھی کلاس‘ جو ہزاروں کی تعداد میں ملک سے نکلنا چاہتی ہو‘ چاہے کتنے ہی خطرات مول نہ لینے پڑیں، اس ملک کا کیا فیوچر ہوگا؟ جو نوجوان جان پر کھیل کر کابل سے باہر نکل رہے ہیں یہ سب افغانستان کا مستقبل تھے۔
یہ سب امریکی اور یورپی لوگوں ساتھ کام کرچکے تھے۔ یہ سب سوشل ویلفیئر کے دفاتر میں تربیت یافتہ تھے۔ انکی افغانستان کو ضرورت تھی۔ اب یہ امیگرنٹس بن کر امریکی اور یورپی معاشروں کیلئے کام کریں گے۔ امریکہ اس لیے گریٹ قوم بنا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر سے ذہین اور ہنرمند لوگ اکٹھے کیے اور انہیں مواقع فراہم کیے کہ وہ ترقی کریں۔ امریکہ ملک ہی امیگرنٹس کا ہے اور محنت سے تو وہاں امیگرنٹس کے بچے امریکہ کے صدر تک بن جاتے ہیں۔ تھرڈ ورلڈ کے لوگوں کا عجیب المیہ ہے کہ ذہین بچوں کا ہمارے ملکوں میں کوئی مستقبل نہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں ذہین لوگوں کو معاشرہ یا ادارے قبول ہی نہیں کرتے۔
جب میں اس پیمانے پر افغانستان سے نوجوانوں‘ بچوں کا انخلا دیکھ رہا ہوں تو مجھے شک نہیں ہے کہ افغانستان پر اصل حملہ اب ہوا ہے کہ اس کا نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر جارہا ہے۔ افغانستان کا برین ڈرین ہورہا ہے۔ افغانستان پر حملہ7 اکتوبر2001کو نہیں ہوا تھا بلکہ پندرہ اگست کو ہوا ہے جب سب نوجوان ایئرپورٹ کی طرف بھاگے کہ ہم نے اس ملک سے نکلنا ہے۔ جان بچانے کا خوف یا پھر اس موقع کو استعمال کرکے بیرون ملک سیٹل ہونے کا ایک موقع۔ اگرچہ طالبان نے سب کیلئے معافی کا اعلان کیا‘ لیکن پھر بھی کوئی ٹکنے کو تیار نہیں۔
طالبان کو چاہئے تھا کہ کوششیں کرتے اور اپنی اس نسل کو بیرونی معاشروں میں جاکر ان ملکوں کو اپنی ذہانت اور محنت سے مزید ترقی دلانے کے بجائے اس جنگ زدہ قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے‘ منت ترلا کرتے‘ انہیں ضمانت دیتے۔ طالبان کو اب احساس ہورہا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں افغان نوجوانوں کا یوں چلے جانا ان کیلئے لانگ ٹرم مسائل پیدا کرے گا۔ افغانستان کو انجینئرز اور ڈاکٹرز چاہئیں جو اب باہر جارہے ہیں۔ کل کلاں کو افغانستان میں انجینئرز اور ڈاکٹرز کی قلت بڑھ گئی تو پاکستان سے اس شعبے کے لوگوں کو مواقع مل سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن کی امید کم ہورہی ہے۔ لگتا ہے طالبان ساتھ وہی کچھ ہونے والا ہے جو بیس سال تک وہ امریکی و نیٹو فورسز اور کرزئی‘ غنی حکومتوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
داعش کے حملوں کے بعد امریکہ اور طالبان‘ دونوں نے داعش کو سبق سکھانے کا اعلان کیا ہے بلکہ لگتا ہے دونوں اب مل کر داعش کا مقابلہ کریں گے۔ بیس سال تک کابل کی مارکیٹوں میں طالبان بموں سے حملے کرتے رہے جن میں معصوم افغان مارے جاتے تھے۔ اب وہی کام داعش شروع کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر طالبان کے کابل میں حملوں کو امریکی اور یورپی افواج مل کر نہیں روک پائیں تو کیا طالبان داعش کے یہ دہشت گردانہ حملے روک پائیں گے؟ گوریلا جنگ لڑنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ہدف اور وقت کا تعین آپ خود کرتے ہیں‘ لیکن گوریلا جنگ کا جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔
روسی افواج کے خلاف بھی افغانوں نے گوریلا جنگ لڑی اور جیتی۔ امریکی افواج کے خلاف طالبان نے بیس سال گوریلا جنگ لڑی اور جیتی۔ اب داعش وہی راستہ لے رہی ہے کہ طالبان کے خلاف گوریلا جنگ لڑو۔ آج کی گوریلا جنگ میں ایک خودکش حملہ آور کافی ہوتا ہے کہ وہ بڑا نقصان کر ڈالے جیسے ابھی کابل ایئرپورٹ پر کیا گیا ہے۔ میرے دوست جنید ابراہیم مہار نے اچھا تبصرہ کیاکہ اب تک طالبان حملے کرتے آئے تھے۔ انہیں مارکیٹوں میں حملے کرنے کا بیس سالہ تجربہ تو ہے لیکن انہیں یہ تجربہ نہیں ہے کہ ایسے حملے روکے کیسے جاتے ہیں۔
اگر امریکی اور یورپی فوجیں اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بیس سال تک پورا افغانستان چھوڑیں کابل میں طالبان کے مارکیٹوں میں حملے نہیں روک سکے تو طالبان کیا کریں گے؟ دنیا کی کوئی بھی فوج ہو وہ ایسے حملوں کا دفاع نہیں کرسکتی۔ ہاں سیکرٹ ایجنسیاں ایسے گروپس کو حملے کرنے سے پہلے پکڑ سکتی ہیں۔ ابھی کابل ایئرپورٹ دھماکہ دیکھ لیں کہ امریکی اور یورپی ایجنسیوں نے اطلاع دے دی تھی کہ داعش ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والی ہے‘ لہٰذا لوگ ایئرپورٹ سے دور ہو جائیں۔ ان حملوں سے بارہ گھنٹے پہلے یہ اطلاع دی گئی۔ کوئی افغان اس کے باوجود گھر نہیں گیا۔ وہ سب موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے وطن سے بھاگنا چاہتے تھے‘ لیکن موت کی وادی میں اتر گئے۔
آج پھر اسی جگہ کی ویڈیو دیکھی جہاں کل دو سو کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ وہاں پھر افغان بڑی تعداد میں اکٹھے تھے تاکہ وہ ایئرپورٹ میں داخل ہوکر جہاز پر بیٹھ کر نکل جائیں۔ آخر اس بدنصیب سرزمین پر ایسا کون سا خوف چھپا ہے جو انسانوں کے اندر جبلی طور پر موت کے خوف کو بھی شکست دے چکا ہے۔ حیران ہوں یہ کیسا تاریخ کا جبر ہے کہ ان چالیس برسوں میں روس، یورپی اقوام، امریکی اور دنیا کے پچاس ملکوں کے فوجیوں کا عالمی اتحاد‘ سب اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اس ملک پر قبضہ کرکے رہنا چاہتے تھے لیکن خود افغان وہاں سے جان بچا کر بھاگنا چاہتے ہیں

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author