نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ وہ طالبان نہیں!||رسول بخش رئیس

اپنی حکومت کا ابھی اعلان نہیں کیا کہ دوسروں کو بھی شامل کیا جائے۔ افغانستان کی تعمیرِ نو کا اب وقت ہے کہ جنگ ختم ہو چکی۔ دیکھتے ہیں کون افغانستان کی مدد‘ معاونت اور بحالی کے لیے آگے آتا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو بہت دیکھ لیا ہے کہ کیسے حکومتوں‘ تحریکوں‘ نظریاتی مخالفین اور حلیفوں کے بارے میں بیانیے تراشے جاتے ہیں۔ مفاد ہمیشہ بڑے اور چھوٹے ملکوں کو عزیز ہوتا ہے۔ اس کے حصول کیلئے زبان‘ کلام‘ دھن دولت اور ہرکارے بقدرِ ضرورت کام میں لائے جاتے ہیں۔ وقت بدل جائے‘ ترجیحات وہ نہ رہیں جو کبھی تھیں تو عالمی سیاست میں رخ بدل جاتے ہیں۔ تاریخ کا سبق تو یہی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہماری ریاست اور اس کے دماغ چلانے والوں نے اپنے خطے کی سیاست اور سلامتی کے معاملات میں یہ راز عرصہ پہلے پا لیا تھا۔ سب کچھ نہ بتانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ جلسوں میں بڑھکیں مار کر جو کر لیا‘ اس کے بارے میں قصیدے کہلوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام ہم نے خود پرست اور خود پرور سیاسی جتھوں پر چھوڑ دیا ہے۔ کئی مرتبہ اپنے نیم دانش وروں کو کہتے سنا اور ان کا لکھا ہوا پڑھا کہ امریکہ پاکستان کا پائیدار دوست کیوں نہ بنا۔ اب افغانستان کی شکست خوردہ فوج کے جرنیل‘ باہر سے درآمد کئے گئے سیاسی کل پرزے اور دہلی کے نوحہ خواں صحافی اور سیاست دان بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ ‘سب ٹھیک تھا‘ وہ کہتے ہیں ‘اور طالبان تو چند مکوں کی مار تھے‘ بس امریکہ نے بے وفائی کی‘ وقت سے پہلے چھوڑ دیا‘۔ زیادہ تر غصہ ہم پہ ہے کہ ہم نے در پردہ طالبان کی پشت پناہی جاری رکھی‘ دیرینہ دوست‘ امریکہ‘ کی فرماں برداری میں کوتاہیاں کیں‘ دوغلا پن دکھایا‘ اُدھر حلیف رہے‘ جنگ میں مدد کرتے رہے‘ اِدھر طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے۔ امریکی قیادت‘ دانشور اور صحافی بھائی سخت غصے میں ہیں کہ انکی شکست کے ذمہ دار ہم ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ جو انہیں اور دہلی والوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اس کا کریڈٹ ہمیں دینے کے بجائے ان کو دیں‘ جنہوں نے چوالیس سال تک ہزارہا جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ اپنے وطن کی آزادی کیلئے نسلیں گنوا دی ہیں۔ وہ ہیں مجاہدین۔ طالبان کا سفر تو وہاں سے شروع ہوا جہاں مجاہدین کا ختم ہوا تھا۔ وہ اگلی نسل تھی جس نے افغانستان کی آزادی کی شمع کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور دنیا کی سب سے طاقتور فوج کیخلاف طویل‘ پُرخطر مزاحمتی جنگ بہادری سے لڑی۔ ہر جگہ افغانستان میں طالبان کیلئے محفوظ ٹھکانے تھے۔ ان کا اپنا ملک‘ اپنے لوگ پناہ دیئے ہوئے تھے۔ پہاڑ ہیں‘ صحرا ہیں‘ بستیاں‘ آبادیاں اور وادیاں ہیں۔ وہ کبھی دشمن ان پر تنگ نہ کر سکا۔
سرخ فوج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سرد جنگ میں بڑی دشمن تھی۔ اس سے ویت نام کا بدلہ لینے کا موقع افغانستان میں ملا تو مجاہدین کی پہلے خفیہ‘ جو سوویت یونین کی فوج کشی سے بھی پہلے شروع ہو چکی تھی‘ اور پھر کھل کر حمایت اور مدد کی۔ ہم تب بھی افغانستان کی آزادی کے لیے اگلے محاذ کا کام دے رہے تھے کہ ہماری اپنی آزادی‘ یکجہتی اور بقا کا انحصار افغانستان سے سرخ فوج کی واپسی سے جڑا ہوا تھا۔ ماضی کے جھروکوں میں نظر دوڑائی جائے تو ہو سکتا ہے ہم نے خدشات بڑھا چڑھا کر پیش کئے ہوں اور کبھی زیادہ اس بارے میں تردد نہ کیا کہ اگر ایک دفعہ افغانستان کی ریاست تباہ ہو گئی تو اس کے اثرات ہماری سلامتی پر کیا پڑیں گے۔ ہمارے لئے بہت مشکل وقت تھا اور جو بعد میں ہمارے ساتھ ہوا‘ یا ہم نے کر ڈالا‘ وہ شاید کبھی مٹ نہ پائے۔ سرخ فوج اور اس کے دفاعی ماہرین نے بھی اپنی شکست کا ملبہ ہمارے اوپر ڈالا‘ اور ہم بھی کچھ دیر اپنی ”فتح‘‘ کے نشے میں چور رہے۔ سب چند مہینوں میں رفوچکر ہو گیا جب اقتدار کی جنگ نے پورے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بڑا اور مشترکہ دشمن میدان خالی کر گیا تو علاقائی ممالک اپنے کھیل کھیلنے اور افغان دھڑے تخت شاہی پر قبضہ کرنے میں محو ہو گئے۔ امریکہ اور ہمارے مغربی حلیف زیادہ اہم کاموں میں مصروف ہو گئے۔ ہم نے ادھر زمین پر بہت ڈھونڈا کہ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لئے وہ کیا کررہے ہیں‘ مگر جلد ہی بھانپ لیا کہ ہمارے کلیدی دوستوں کی زبان اور لہجہ تبدیل ہو چکا ہے۔ افغانستان کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے بارے میں پہلے تو کھسرپھسر شروع ہوئی‘ بعد میں ایک مربوط بیانیہ تراشا گیا کہ یہ تو انتہا پسند ہیں‘ بنیاد پرست‘ نظریاتی اور اسلامی حکومت کے قیام کے علم بردار۔ یہ روشن خیال ‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے محافظ مغرب کے کیسے اتحادی بن سکتے ہیں؟ چھوڑو بھاگو یہاں سے‘ یہ افغان جانیں اور ان کا کام جانے۔ صرف یاددہانی کے لیے عرض کروں گا کہ جب مجاہدین کا وفد امریکہ گیا تو گلبدین حکمت یار نے وائٹ ہائوس میں صدر رونالڈ ریگن کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔ ہمارے سیاسی رہنما تو لاکھوں میں نشست خرید کر افتتاحی تقریبات میں جاتے رہے ہیں۔ امن مذاکرات میں ترجمے کے فرائض زلمے خلیل زاد نے سرانجام دیئے تھے۔ امریکی صدر نے افغان مجاہدین کے بارے میں تاریخی بات کی۔ ایسی کہ اس کی بازگشت آج بھی تاریخ کے طلبا کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ کہا: ان کی اخلاقی حیثیت‘ کردار اور مقام امریکہ کے بانیوں کے مساوی ہے۔ اس سے بڑا خراج تحسین مغرب کی طرف سے کسی اور رہنما کیلئے کبھی نہ آیا۔ وقت نے کروٹ لی تو وہ سب انتہا پسند‘ دہشت گرد اور نہ جانے کن کن تہمتوں کی زد میں آ گئے۔
حکومتیں بدلیں تو ہم سے بھی امریکہ نے آنکھیں بدل لیں۔ دھمکی نہیں بلکہ ہمیں ”دہشت گرد‘‘ ملک کا سرکاری لیبل لگانے پہ تل گئے تھے۔ ہم نے نواز شریف کی پہلی حکومت کا نذرانہ پیش کیا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کو آگے لایا گیا اور جان چھڑائی گئی۔ یہ کوئی سیاسی افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے۔ ہم چونکہ مشرقی پاکستان کے المیے اور دنیا کے دوغلے پن اور حلیفوں کی طوطا چشمی سے کچھ نہ کچھ سیکھ چکے تھے‘ اس لیے امریکہ کی نظروں میں اچھا رہنے کی کوئی غرض ہمیں نہ تھی۔ اسی جنگ کے دوران ہم جوہری ہتھیار بنانے کی استعداد حاصل کرچکے تھے‘ صرف بم پھوڑنا باقی رہ گیا تھا‘ جو وقت آنے پر کر دکھایا۔
کچھ اس دور کو ذہن میں رکھیں گے تو افغانستان کی موجودہ صورتحال‘ طالبان کی فتح‘ امریکی شکست اور روایتی الزام تراشیوں اور ان کو ملک کے اندر اور باہر ہوا دینے والوں کے کردار کے بارے میں سب معلوم ہو جائے گا۔ طالبان تحریک کا راکھ کے ڈھیر کی ایک چنگاری سے شعلہ بن کر دنیا کی بڑی طاقت کو مذاکرات کی میز پر لانا اور اپنی مرضی کا معاہدہ کرانا موجودہ تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ شروع سے طالبان مذاکرات اور امریکہ بہادر جنگ کرنا چاہتا تھا۔ اب تو کوئی اس بارے میں سامنے آنے والے شواہد نہیں جھٹلا سکتا۔ جب معاہدے نے جنگ جاری رکھنے سے ممانعت کر دی تو تین لاکھ پچاس ہزار افغان فوج کو لڑنے مرنے کی ترغیب دی گئی۔ وہ بھلا ایک کرپٹ‘ کٹھ پتلی‘ نام کی جمہوری حکومت کا دفاع کیوں کرتے؟ کہا یہ جا رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے جنگی ٹھیکے داروں نے ہاتھ کھینچ لیا‘ فوج کے پاس راشن اور اسلحہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے جب یہ سب کچھ تھا تو طالبان کا تو نام و نشان ہی مٹ جانا چاہئے تھا۔ بات کچھ اور ہے۔ افغان فوج طالبان کے ساتھ لڑنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ بات چیت‘ بزرگوں اور قبائلی سرداروں نے کرائی‘ فوجی وردیاں اتار کر گھروں کو چلے گئے۔ افغان امن اور سلامتی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ مشاورت‘ جرگہ‘ مذاکرات ان کی سنہری روایات میں سے ہیں۔ سب کو معاف کر دیا ہے۔ ایسا کہیں اور کم ہی ہوتا نظر آیا ہے۔
طالبان افغانستان کی تازہ نہیں چوالیس سالہ پرانی حقیقت ہیں۔ بیرونی فوجی مداخلت اور اس کے ہرکاروں کے لیے مزاحمت کی شاندار داستان بھی۔ یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے اپنا پرامن انخلا کا وعدہ نبھایا ہے۔ اپنی حکومت کا ابھی اعلان نہیں کیا کہ دوسروں کو بھی شامل کیا جائے۔ افغانستان کی تعمیرِ نو کا اب وقت ہے کہ جنگ ختم ہو چکی۔ دیکھتے ہیں کون افغانستان کی مدد‘ معاونت اور بحالی کے لیے آگے آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author