ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوٹیوب کھولی تو اندھیرا اجالا کی ڈبیا پہ نظر پڑی۔ تصویر میں خیام سرحدی اور جمیل فخری تھے۔ دونوں میرے دوست، یادوں کا فوارہ چھوٹ پڑا۔
خیام سے پتہ نہیں کیسے یاد اللہ تھی مگر میں اپنی خاص کیفیت کے سبب اس تعارف کو بھول بیٹھا تھا۔ ایران سے واپس آیا تو ایک بالکل انجان اور گمنام مقام کوٹ ادو میں قیام کیا۔
بوبی کوٹ ادو حبیب بینک میں مینیجر تھا جو بعد میں مشہور ہونے والے اور پھر الحمرا آرٹس کونسل کا ڈائریکٹر رہنے والے اداکار، جس کا نام یاد نہیں آ رہا، کوئی ناصر یا ناصر کوئی تھا کا بڑا بھائی تھا جو ایک کھیل کوٹ ادو لے آیا تھا۔
میں اپنے کلینک کے علاوہ زیر تعمیر تھرمل پاور سٹیشن میں کام کرنے والی سیمنز کمپنی میں جزوی وقتی طبی مشیر بھی تھا۔ باور نام کا جرمن یار تھا۔ اس سے پراڈو جیپ پکڑی اور بیوی ڈاکٹر میمونہ کو لے کر کھیل دیکھنے چلا گیا۔
کھیل کے بعد پردے کے پیچھے اداکاروں سے ملنے گئے تو خیام بولا، ”اوئے ڈاکٹر تم یہاں“ ۔ بالکل یاد نہیں آ رہا تھا مگر لگا کہ پہلے سے شناسا ہیں۔ فوراً تم پہ آ گئے۔ بوبی حیران کہ اداکار کا دوسرا یار کیسے، وہ شریف آدمی بھائی کے توسط سے خود کو ہی اس شہر میں لاہور کے اداکاروں کا دوست خیال کر رہا ہوگا۔ خیام نے میرا تعارف جمیل فخری، محمد قوی، عطیہ شرف اور ایک دوسری اداکارہ سے کروایا۔
اب ایسا ہو نہیں سکتا تھا کہ خیام دوست ہو اور میں اسے اور اس کے دوستوں کو کھانے پر مدعو نہ کروں۔ اگلے روز رات کے کھانے کی دعوت دی اور واپسی پہ باور کو گاڑی دینے کے بعد اس سے تین چار سکاچ کی بوتلیں پکڑتا لایا۔
اگلی رات ڈرامہ ختم کر کے بوبی سمیت سب گھر پہ آ گئے۔ پینے پلانے لگے۔ سب سے زیادہ اس اداکارہ نے چڑھائی جس کا نام یاد نہیں رہا شاید نیلوفر تھا اور سب سے کم محمد قوی نے۔ کھانا کھانے کے بعد ، میں نے کہا کہ سب یہیں سو جاو۔
محمد قوی بوبی کے ساتھ سونے چلے گئے۔ باقی میرے گھر رہے۔ عطیہ شرف خیام کی سابقہ بیوی تھی وہ اس پہ طنز کرتا رہا۔ فخری اسے ڈانٹتا اور عطیہ کو حوصلہ دیتا۔
رات اچھی کٹی۔ سردیاں تھیں۔ صحن کی گلی والی دیوار کے ساتھ دھوپ پہلے آتی یعنی گیارہ بارہ بجے۔ وہاں چارپائی پہ سب دھوپ میں بیٹھ گئے۔
ہمارا گھر محلے کی ایک گلی میں تھا۔ اس محلے میں بیشتر لوگ کم سماجی حیثیت والے تھے۔ اداکاروں کو ان کی صبح اٹھی شکل میں دیکھنے کو چھتوں دیواروں پر چڑھ گئے کیونکہ ہم دروازہ نہیں کھولتے تھے۔ دن چڑھے وہ لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔
دو سال بعد میں مریدکے منتقل ہو گیا البتہ خیام ایک بار اپنی بیوی صاعقہ اداکارہ کے ہمراہ کوٹ ادو میرے اسی گھر میں آیا تھا۔ مریدکے سے لاہور آنا جانا ہوتا ہی تھا۔ راوی پارک یا قلعہ لچھمن سنگھ راستے میں ہی پڑتا تھا جہاں جمیل فخری کا گھر تھا۔ ہم دونوں میں بہت دوستی ہو گئی۔ وہ بھی دو چار بار مریدکے آیا۔ میں اس کے گھر جاتا تو باورچی خانے میں پیڑھی پہ بیٹھ کے بھابی کے ہاتھوں بنائے پراٹھے کھاتا۔ جمیل پکا پرانا لاہوری تھا۔ کھابے کھلائے بغیر رہتا نہیں تھا۔
ایک بار خیام مجھے چکر دینے لگا کہ بس آ رہا ہوں ملنے۔ بس راستے میں ہوں۔ یار مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا۔ تین بار مجھے فون کرتا دیکھ کے فخری نے نصیحت کی ”مجاہد اسے فون کرو جو تمہیں فون کرے اور اس سے ملو جو تم سے ملنا چاہتا ہو“ ۔ میں اس کی اس نصیحت پر عمل کرتا ہوں۔ ایک اس نے مجھے وظیفہ بتایا تھا جو میں تب سے کر رہا ہوں، شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جمیل فخری کے والد پیش امام تھے۔
اب نہ خیام ہے نہ فخری۔ بہت یاد آئے۔ اندھیرا اجالا کی جس تمثیل سے یادوں کا فوارہ چھوٹا اس میں بندیا بھی تھیں جو میرے جی سی لاہور اور نشتر میڈیکل کالج کے ہم جماعت اور دوست یمین الحق کی گرل فرینڈ اور بیوی رہیں۔ دو سال پہلے پتہ چلا تھا کہ نیلی آنکھوں، تیکھے نقوش، گورے رنگ والا دھان پان خالص اردو بولنے والا ڈاکٹر یمین الحق بھی اس دنیا میں نہیں رہا تو یمین بھی یاد آیا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ