نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

از خود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کو ہے، سپریم کورٹ

ازخود نوٹس چیف جسٹس خود لے سکتے ہیں یا کسی بینچ کے کہنے پر یا کسی درخواست پر لے سکتے ہیں،5رکنی بینچ نے صحافیوں کی درخواست پر لیا گیا2رکنی بینچ کا از خود نوٹس خارج کردیا اور کہا کہ صحافیوں کی درخواست پر چیف جسٹس بینچ تشکیل دیں گے۔

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے صحافیوں کوہراساں کرنے کا معاملے پرازخود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار سے متعلق کیس کی سماعت مکمل کرکے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا ۔ عدالت عظمی  نے فیصلہ دیاہے کہ از خود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کو ہے، 

سپریم کورٹ نے کہا20اگست کو دی جانے والی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے،ازخود نوٹس چیف جسٹس خود لے سکتے ہیں یا کسی بینچ کے کہنے پر یا کسی درخواست پر لے سکتے ہیں،5رکنی بینچ نے صحافیوں کی درخواست پر لیا گیا2رکنی بینچ کا از خود نوٹس خارج کردیا اور کہا کہ صحافیوں کی درخواست پر چیف جسٹس بینچ تشکیل دیں گے۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے20اگست کے فیصلے کو واپس لے لیا

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں  وائس چئیرمین خوش دل خان نے اپنے دلائل میں کہا رجسٹرار سپریم کورٹ کا نوٹ پڑھنا چاہتا ہوں،

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا یہی تو غلط فہمی ہے یہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا نوٹ نہیں ہے،

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بنیادی سوالات تین ہیں،آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار کے استعمال کا طریقہ کار کیا ہے،آرٹیکل 184 کی شق تین کا  استعمال کیسے ہو گا؟ اورآرٹیکل 184 کی شق تین کا استعمال کون کر سکتا ہے،جوڈیشل کاروائی بعد میں ہوتی ہے۔

وائس چیرمین پاکستان بار کونسل خوش دل خان نے کہا  بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عوامی مفاد کے تحت ازخود نوٹس کا استعمال کیا جا سکتا ہے،آئین میں ازخود نوٹس کے استعمال کیلئے سپریم کورٹ کا لفظ استعمال کیا۔سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر ججز صاحبان ہے،صحافیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت نے نوٹس لیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بنچ نوٹس لے سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عدالت میں درخواست وصول کی جاسکتی ہے،کیا کوئی عدالتی بنچ حکمنامے میں یہ لکھ سکتا ہے کون سا مخصوص بنچ اس کیس کو سنے گا؟

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا نظام عدل میں چیف جسٹس سربراہ انتظامیہ بھی ہوتا ہے، ہم جوڈیشل اختیار کا مکمل احترام کرتے ہیں،جوڈیشل اختیار کی اپنی الگ اہمیت ہے۔

وائس چیرمین پاکستان بار کونسل نے کہا اخباری خبروں پر نوٹس لینے کی روایات اور مثالیں بھی موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کسی درخواست پر جج نوٹس تو لے سکتا ہے اس کے بعد کیا کرنا ہے سوال یہ ہے، خط یا اخباری خبر پر نوٹس لینے کی روایات موجود ہیں،جب کسی جج صاحب نے نوٹس لیا تو بنچ چیف جسٹس نے بنایا۔

وائس چیرمین پاکستان بار کونسل نے کہا افسوس کی بات ہے پاکستانی معاشرے میں سچ بولنے پر سزا ملتی ہے،دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔

جسٹس قاضی محمد امین نے کہا ماضی کی متنازعہ روایات موجود ہیں، کیا سائل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کہے اس کا مقدمہ کس جج نے سننا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا اگر صحافیوں کی طرف سے درخواست طے شدہ طریقہ کار کے تحت دائر کی جاتی تو معاملہ مختلف ہوتا۔

خوش دل خان نے کہا براہ راست درخواست پر ازخود نوٹس لینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے،آپ نے کل وکیل صاحب کو دلائل کیلئے پورا دن دیا،میری درخواست ہے کہ مجھے بھی مکمل وقت دیں،میں وکلاء کا نمائندہ ہوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم آپ کو مکمل وقت دیں گے

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہمارا سوال کرنے کا مقصد آپ سے بحث کرنا نہیں ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ کار ہے،درخواست دائر ہونے کے بعد رجسٹرار آفس جاتی ہے نمبر لگتا ہے پھر آگے کاروائی چلتی ہے۔

وائس چیرمین پاکستان بار کونسل نے کہا اگر جسٹس قاضی فائز عیسی نے معاملہ چیف جسٹس کو نہیں بھیجا تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے

خوش دل خان کے دلائل مکمل ہوئے تو صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر آئے ، اور اپنے دلائل میں کہا 184(3) کا دائرہ اختیار ڈائریکٹ سپریم کورٹ نے استعمال کرنا ہوتا ہے،متعلقہ بنچ کو درخواست دی گئی اور اس نے آرڈر جاری کیا،184(3) کے تحت بھی درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں، آج ہم ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور لاہور کے وکلاء کو یہاں سے سنتے ہیں،ٹیکنالوجی کے آنے سے بہت سے معاملات بدل چکے ہیںوقت کے ساتھ ساتھ 184(3) کی درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے، 184(3) کے تحت ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں درخواست دائر ہی نہیں ہوئی،آپ کا کہنا ہے کہ درخواست گزار نے درست طریقہ کار نہیں اپنایا ۔

اس کے بعد جسٹس قاضی امین نے جہانگیر جدون سے مخاطب ہوکر کہا آپ وہ سپاہی ہیں جو بغیر تیاری اور ہتھیار جنگ پر آگئے ہیں،آپ درخواست کو دیکھیں اس میں ایک درخواست گزار عمران شفت کے دستخط 14 اگست کے ہیں جبکہ دوسرے کے 20 اگست کے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ درخواست 14 اگست کو تیار تھی اور دائر کرنے کیلئے کافی وقت موجود تھا،اس وقت چیف جسٹس بھی پاکستان میں موجود تھے جن کو درخواست دی جا سکتی تھی۔

قائم مقام چیف جسٹس نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا صحافیوں کیساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں،صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کاروائی بھی ہوگی،عدالت نے قانون اور ضابطے کے تحت کاروائی کرنی ہوتی ہے،۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا صحافیوں کیخلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہوگی،آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے۔

صدر سپریم کورٹ پریس  ایسوسی ایشن امجد بھٹی نے کہا پانچ رکنی بنچ نے قانونی سوالات اٹھائے ہیں، قانونی نقطے پر صحافی دلائل معاونت نہیں کرسکتے۔

صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بنچ پر اعتراض کیا تو جسٹس قاضی امین نے کہا بنچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نقطے پر دلائل تو دیں؟

جہانگیر جدون نے کہا تسلیم کرتا ہوں صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی،جن اداروں کو نوٹس ہوا تو وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا سوموٹو کیسز میں سرکاری ادارے درخواستوں پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں ہیں۔

صدر سپریم کورٹ پریس  ایسوسی ایشن نے کہا ہم نے صحافیوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق تین کے دائرہ اختیار سے متعلق پانچ رکنی لارجربنچ تشکیل دیا،پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کی شق تین کے دائرہ اختیار سے متعلق رائے نہیں دینا چاہتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاہم بنیادی حقوق کے ضامن ہیں، اگر صحافیوں پر کوئی ضرب آئی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔

جسٹس قاضی امین نے صدر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن سے مخاطب ہوکر کہا سپریم کورٹ آپ کے ساتھ ہے، آزادی صحافت پر حملہ سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔

صدر پاس نے کہا ہمیں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مکمل اعتماد ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمیں آپ کے ارادے پر کوئی شک نہیں ہے۔

صدر سپریم کورٹ پریس ایسویسی ایشن نے کہا ہم نے جب بھی انفرادی حیثیت سے درخواست دائر کی تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔ ہمیں سنا جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میں تو عارضی طور پر یہاں ہوں سننا چیف جسٹس آف پاکستان نے ہے،

جسٹس عمر عطا بندیال کا عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون سے مکالمہ بھی ہوا ۔ انہوں نے کہا آپ کی درخواست اپنی جگہ پر موجود ہے،آپ کی درخواست کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی نے کہا میں چاہتا ہوں ججز میں اتفاق اور اتحاد برقرار رہے، یہ ادارے کے لیے بہتر ہے،اگر کسی قسم کی کوئی تقسیم ہے تو اس کا بھی تاثر نہیں ملنا چاہیے،جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہٹانے اور دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال ہو رہے ہیں،ازخودنوٹس لینا سپریم کورٹ کا ہی اختیار ہے، ایسی کوئی مثال نہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے دوسرے بینچ کے فیصلے کو غیر موثر کیا ہو۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کی باتیں دل سے نکل رہی ہیں ہم انکی قدر کرتے ہیں،20 اگست کا حکم بھی ہمارا ہی حکم تھا، عوامی مفاد کے تحت سپریم کورٹ کو نوٹس لینے کا اختیار ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد جسٹس قاضی فائز عیسی نے ازخودنوٹس کے دائرہ اختیار اور تعین کیلئے قائم بنچ پر اعتراض اٹھا دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا  جس میں کہا گیا  کہ پانچ رکنی لارجر بنچ بنانے سے قبل دو رکنی بین کو آگاہ نہیں کیا گیا،آئین پاکستان میں سپریم کورٹ کا سماعت کیلئے مختلف دائرہ اختیار ہے،سپریم کورٹ کا ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی بنچ کے امور کی مانیٹرنگ شروع کردے۔ پانچ رکنی معزز بنچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا کہ اگر پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا، رجسٹرار سپریم کورٹ جو سرکاری ملازم ہے وہ بلاشبہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے،رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیا اور چھ صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا،اگر ایک بنچ دوسرے بنچ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو اس سے نظام عدل زمین بوس ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بنچ میں موجود اپنے ہی جج کو نکال کر نیا بینچ تشکیل دیا،جسٹس منصور علی شاہ نے بعد میں الگ حکم نامہ جاری کیا, سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس معاملے پر تاحال غور نہیں کیا گیا،کچھ چیف جسٹس صاحبان کی خواہش ہے کہ وہ بے لگام اور بلا روک ٹوک اختیارات کو اپنے پاس رکھیں،

جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید لکھا کہ چیف جسٹس یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بنچ میں مقرر ہوگا،بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ میں نے کبھی مجوزہ کازلسٹ جاری نہیں کی، سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقرر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ مقرر کرنا جوڈیشل سروس میں موجود افسران کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہاعدلیہ نے ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو واپس بھیجا لیکن ڈیپوٹیشن ملازم رجسٹرار سپریم کورٹ کام کر رہا ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ اس سے قبل وزیراعظم آفس میں کام کرتے رہے ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار کے طور پر لیا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کو لانے کا مقصد حکومتی دلچسپی کے مقدمات فوری مقرر کرنا تھا، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار مانگ کر لانے کا مقصد حکومت کے ناپسندیدہ کیسز کو دبا کر رکھنا تھا۔

جسٹس فائز نے کہارجسٹرار سپریم کورٹ کا میرے بنچ کے خلاف نوٹ لکھنا حکومتی مفاد اور اپنے سابقہ ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، ازخود نوٹس کے اختیار سے متعلق نو رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے، نو رکنی بینچ فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ آرٹیکل 184(3) غیر معمولی دائرہ اختیار رکھتا ہے،موجودہ پانچ رکنی بنچ نو رکنی کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا،۔

انہوں نے کہ ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے وٹس ایپ میسج پر ازخودنوٹس لیا گیا، وٹس ایپ ازخودنوٹس کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا، جب اس فیصلے پر نظر ثانی ہوئی تو مرکزی بنچ میں شامل جج جسٹس اعجازالاحسن نے اضافی نوٹ لکھ کر نظر ثانی سے اتفاق کیا، ریکوڈک کیس میں پاکستان کو عالمی مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا اور 6.4 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا،

معزز جج نے لکھا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا عدلیہ میں تقسیم ہے، مجھے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے عوامی تاثر کی بنیاد پر طنز کا نشانہ بنایا گیا، وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس میں لارجر بنچ بنا کر جسٹس مقبول باقر کو بنچ سے الگ کر دیا گیا، اس کیس میں جلدبازی میں غیر آئینی حکمنامہ جاری کیا گیا اور چیف جسٹس بنچ سے اٹھ کر چلے گئے، مجھے اس فیصلے میں وزیراعظم کے خلاف مقدمہ سننے سے ہی روک دیا گیا،میرے معزز ساتھی ججز نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا،میرے ساتھی ججز سے اب بھی اچھے تعلقات برقرار ہیں،

انہوں نے کہا اس عوامی تاثر سے انکار کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا، اس طرح کے برتاؤ کے باوجود میں نے اپنے ساتھی ججوں سے بہتر برتاؤ روا رکھا ہے،اگر میرے ساتھی ججز کو کوئی اعتراض تھا تو وہ اس معاملے کو بنچ نمبر دو میں لے کر آتے،حیران کن طور پر یہ معاملہ اتنا خفیہ رکھا گیا کہ مجھے سپریم کورٹ کے بجائے میڈیا سے معلوم ہوا،24 اگست کے حکمنامہ میں کہا گیا کہ ہم اصل سٹیک ہولڈرز کو سننا چاہتے ہیں، پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے سٹیک ہولڈر ہے، اس خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے۔

About The Author