نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر حضرت زینب کی یاد||رانا محبوب اختر

مٹیاری کا پورا لینڈ سکیپ اس مٹی کی خوشبو میں گندھا ہے جو لطیف کے ''رِسالو''کی شاعری ہے ۔سندھ وادی کی مٹی کے قیمتی قالین پر لطیف کی شاعری کے پھول بوٹے ہیں۔اوپر دھنک رنگ ثقافت کا خیمہ ہے

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا

شاہ عبدالطیف بھٹائی (1689-1752)سُر سوہنی میں محبت کے سفر کے آداب بتاتے ہیں .وہ کہتے ہیں کہ محبوب کی طرف جاتے ہوئے آنکھوں کو پاؤں بنا لو۔حیدر آباد سے ہالہ اور ہالہ سے بِھٹ شاہ تک ہم آنکھوں کے بل چلتے تھے۔بِھٹ شاہ کا صوفی شاعر ، سندھ وادی کاquintessentialآدمی ہے۔ اس کے ہاں شاعری، رومان، داستان،تصوف ، موسیقی، لوکائی اور لوک روایت ،سندر سندھی زبان کے کندن سے سندھی آدمی کے لئے کیمیائے سعادت یا alchemy of happiness بن گئی ہے۔ شاعری ، سرشاری ہے۔عقل کو معطل کرتی ہے۔ ہمارے گولے پر قدیم آدمی شاعری اور علامت میں بات کرتاتھا۔اِشارے اور اِستعارے میں کلام کرتا تھا۔سندھو کے کنارے لکھے گئے وید شاعری ہیں۔ قدیم آدمی کا کلام۔ان ویدوں میں ایک سما وید ہے۔سَما، گانا ہے ۔شاعری اور موسیقی سے تیرتھوں میں بیٹھے بھگت بھگوان کو بہلاتے تھے۔بھجن گاتے تھے۔ آسمانوں اور پربتوں پر رہنے والے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے جتن کرتے تھے۔ مگر مقامی آدمی کو راکشش، شودر، کالا اور” بِڈا ”کہتے تھے۔ عورت داسی تھی۔ آسمانی بھگوان اور برہمن، زمین کے اصل مالکوں، مقامی درواڑوں اور مہذب موہانوں سے خوفزدہ تھے۔ جیسے امریکہ کے سفید عیسائی گورے،ریڈ انڈین زمیں زاد سے ڈرتے ہیں اور افریقی امریکیوں کے ماضی کا انکار کرکے ان کے انسانی جوہر کا انکار کرتے ہیں۔ قدیم آریائی سامراجی سوچ صدیوں بعد ہِٹلر کی صورت نمودار ہوئی اور آج آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی ہے۔ شاہ بھٹائی نے آریائی ویدوں کی استعماری روش کو رد کر کے مقامیت کا مستند بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ شاہ کی کائنات میں ماروی، دیوی ہے اور ملیر دیس، آسمان ہے۔ شاعری اور موسیقی سوہنی سندھی زبان کی بوتل میں بند، آبِ بقا ہے جس سے سندھ کی روح امر ہو گئی ہے ۔ سندھ وادی میں انسان دوست، بشر مرکز قدیمی روایت کا دوامی تسلسل یا perpetuation، شاہ کی کرامت ہے۔
مٹیاری کا پورا لینڈ سکیپ اس مٹی کی خوشبو میں گندھا ہے جو لطیف کے ”رِسالو”کی شاعری ہے ۔سندھ وادی کی مٹی کے قیمتی قالین پر لطیف کی شاعری کے پھول بوٹے ہیں۔اوپر دھنک رنگ ثقافت کا خیمہ ہے۔ جس کے نیچے موسیقار، چترکار، جوگی ، بیراگی ، عاشق، ست سورمیون ، موہانے اور ملیر کے غریب کسان، کھیت سے عاشق رہتے ہیں۔کھیت وہ غریب سندھی کسان ہے جو محبت کی جنگ میں بادشاہ عمر سومرو کو مات دیتا ہے۔ کھیت اور ماروی جیسے لوگ شاہ کی شاعری کے ہیرو ہیں۔ بادشاہ کو مات ہوتی ہے، عام آدمی جیتتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، شاہ کی شاعری میں آباد عام لوگوں کے نام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے تھے !امر ہوئے !
وہ رشی جو سندھو کنارے تِیرتھوں میں بیٹھے زمین کو ماتا اور زمیں زاد کو راکشَش کہتے تھے۔ان کے تِیرتھ گر گئے ہیں ۔نام مٹ گئے ہیں۔ زبان ختم ہوتے ہوتے سنسکرت ہو گئی ہے۔مگر شاہ کے سندھی بولنے والے عام لوگ ، سورما اور سورمائیں زندہ ہیں۔ شاہ لطیف کے بہادر اوروفا شعار جکھرو کو ہر زماں نئی زندگی ملتی ہے ۔مارویاں اور سسیاں، بے نظیر ہیں ۔ ہزاروں سالوں پر محیط سندھی تہذیب کے تاج محل کے ہر طاق میں شاہ لطیف کی شاعری کا چراغ جلتا ہے۔ چراغ میں سرسوں کا تیل ہے۔ اور یہ سرسوں جس مٹی میں "نسرتی” ہے وہ مٹی ماروی کی محبت ،سسی کے آنسوؤں ، دودو کے خون اور جھکرو کی وفا سے زرخیز ہے۔
یاتری شاہ کی مزار کے اندرونی دروازے کے سامنے پشت در پشت گانے والے ایک خاندان کے گائیکوں کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ راگ سسوئی گا رہے تھے۔ یہ شاہ کے راگی ہیں۔راگ ، فقیروں کا ڈی این اے ہوتا ہے۔ وریام فقیر، منٹھار فقیر، لال محمد فقیر، مومن علی فقیر اور عنایت علی فقیر نام کے یہ فقیر کئی نسلوں سے گاتے ہیں۔وہ شعلہ عشق کی طرح سیاہ پوش تھے۔ساز کی آواز،مونجھ اور ملال سے گداز تر تھی۔ پھر وہ خوب صورت مرد نغمہ گر ، طنبوروں پر زنانہ آواز میں گاتے لگے ۔شاہ کے راگی، بیجل سے مختلف تھے ۔ وہ سُر (Sur) کے بدلے سَر نہیں مانگتے تھے ۔ شاہ کا مزار ان راگیوں کے سُروں کی چادر میں لپٹا ہوا تھا ۔مزار، ساز تھا۔راگ تھا ۔ رنگ تھا۔ دربار نہ تھا، آستانہ تھا ۔یہ محبت ، مونجھ اور موسیقی کی ارضی جنت تھی۔ یہاں زمین آسمان سے زیادہ معتبرتھی ۔جہاں جزا کچھ اور تھی ۔ خدا کوئی اور تھا!
راگ ختم ہوا تو بے ادب یاتری نے کچھ اور سنانے کا کہا جس پر ان میں سے سب سے بزرگ اور مہربان موسیقار نے کہا کہ ہم اب سر حسینی گائیں گے اور کربلا سے دور طنبورے کے تار فرات کی لہروں کی طرح تڑپنے لگے تھے۔گائیکوں کے تربیت یافتہ گلوں سے نِسوانی آوازیں آنے لگیں تھیں۔تجسس سے ہم نے پوچھا کہ عورت کی آواز میں کیوں گاتے ہو؟ گائیک نے جیسے دل میں تیر مارا تھا” سائیں!بین تو عورت کی آواز میں ہوتا ہے ناں”۔ یاد آیا کہ جب شام میں شعورِنسواں کی پہلی سورما ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو قید سے رہا گیا تو وہ مدینہ جانے کی بجائے دمشق میں رک گئیں تھیں اور شہیدانِ کربلا کی یاد میں پہلی مجلس عزاء برپا کی تھی ۔مرنے والوں کا اس سے معتبر سوگ دنیا کی تاریخ میں شاید کبھی ہوا ہو!سندھ سے کربلا والوں کا رشتہ قدیم ہے۔ حسینی برہمن اور راجہ داہر یاد آئے!سندھ میں شعورِنسواں کی قدیم روایت موہنجوداڑو کی سَمبارا سے ، سومرا زینب تائی، مرکھاں شیخن، ماروی اور سسی سے ہوتی ہوئی بے نظیر بھٹو کی شہادت تک آئی ہے۔محرم کے ہر موسم میں حضرت زینب کے خطبے ہمارے آنسوؤں کا خراج لینے آتے ہیں :
اِنہاں کربل والے سیداں کوں
کوئی ساڈے وانگ تاں رو ڈیکھے
شاہ لطیف کے مزار پر راگی کربلا والوں کا غم زنانہ آواز میں بیان کرتے تھے۔ سَر دینے والے سُروں میں سما گئے تھے۔
لطیف کے مزار پر گاتے راگیوں، میں سے ایک نجیب گائیک کالے دھاگے پر کچھ پھونکتا اور گانٹھیں لگاتا جا رہا تھا۔ ایک دھاگہ اس نے میری کلائی پر باندھ دیا۔ شہباز قلندر اور شاہ بھٹائی کے آستانوں کے دھاگے میرے بازو پر کئی دن بندھے رہے کہ ان دھاگوں کے سیاہ، سرخ اور سبز رنگوں میں درد و غم کی صدیاں بندھی تھیں!
ماضی کی راکھ اور مستقبل کے خواب بندھے تھے ۔شاہ کے مرقد پر رائے ڈیاچ کی کہانی ،سسی، سُر حسینی اور کربلائیں میری بے انت مونجھ سے ہم آہنگ ہو گئی تھیں۔
"All three in tune were wed,
The music’s chords, the dagger and the neck”.
Shah Latif
Translation by HT Sorley
سورٹھ اور رائے ڈیاچ کی کہانی میں،جب رائے ڈیاچ اپنا سَر کاٹ کر موسیقار کے ہاتھ پر رکھتا ہے توسُر، خنجر اور گلہ ایک ہوتے ہیں!صوفی اسے صدور(emanation)کہتے ہیں۔وحدت الوجود کا اسرار عجب ہے!جہاں ماتمیوں کا نوحہ، طنبورہ، عورت کی آواز اور مطرب کا”ماڑو”ایک ہیں۔ دربار سے روانہ ہوا تو دربار سے گاڑی تک کا فاصلہ ہوَیت کا نیا سفر تھا۔ سندھ کی زمین پر ہم آہستہ قدم رکھتے تھے۔ زمین سے آہستہ پا بہ نہہ کہ ملک سجدہ می کنم کی آواز آتی تھی ۔دمشق میں حضرت زینب کی ماتمی مجلسوں اور شاہ کے راگیوں نے حسین علیہ السلام کی مظلومیت اوریزید کی آمریت میں امتیازاور دوئی قائم کرکے حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچ دی تھی ۔راگیوں نے پدر شاہی کی آمرانہ روش کا پردہ عورت کی آواز سے چاک کر دیا تھا۔ حضرت زینب کی دمشق کی مجلسوں سے غربت ، شہادت ، حسینیت، تریمتائیت کی عظیمت ، حریت اور مظلومیت کے مقابلے میں یزیدیت ،مُلوکیت ، استعماریت اور جبر کی دوئی قائم ہو گئی تھی۔وحدت الوجود کا اہرام، دَھڑام سے گر گیا تھا!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

رانا محبوب اختر کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author