دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک باپ جو بیٹی کو سالگرہ پہ خط لکھتے ہوئے پریشان ہے||حسنین جمال

تمہاری نسل بہت آگے ہے آئلہ، سٹریس، بلئنگ، موبائل ایڈکشن، ہریسمنٹ، باڈی امیج، سیلف آئیڈنٹیٹی۔ یہ سب تمہاری عمر کے بچے بھگتتے ہیں اور اس بارے میں سوچتے ہیں۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئلہ زینب، میں تمہاری ہر سالگرہ پہ ایک خط لکھتا تھا جس کا عنوان تمہیں یاد ہو گا، بیٹی کی تیرہویں سالگرہ پہ ایک خط۔ اس قسم کا ہوتا تھا۔

ابھی چونکہ تم ایک عقلمند لڑکی ہو اس لیے آئندہ کسی خط میں تمہاری سالگرہ کو مینشن نہیں کروں گا۔ تمہاری مرضی اپنی عمر جسے جو بتاؤ، کم از کم میں خود کیوں اپنی بیٹی کی عمر کا اشتہار لگاؤں؟ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے تم میری تنخواہ کا اعلان اپنی وال پہ کرتی پھرو۔

یہ خیال اصل میں یوں آیا کہ اب میں تمہیں اپنے ہی جیسے ایک انسان کے روپ میں دیکھتا ہوں۔ مکمل انسان، مجھ جیسا، سوچتا، آگے بڑھتا ایک وجود۔

پھر مجھے خیال آیا کہ جیسے حالات اب چل رہے ہیں، میں تمہارا نام بھی کیوں لکھوں؟ بہت سوچا تو اس سوال کا جواب بھی مل گیا۔ وہی، تم ایک الگ انسان ہو۔ ’میری عزت، میری بیٹی، میرا سہارا، میری لاڈلی، میری پہچان‘ ان سب لفظوں سے میں تمہیں اپنے ساتھ تو ٹیگ کر رہا ہوتا ہوں لیکن تمہاری اپنی پہچان، ایک وجود کی اپنی شناخت، وہ کہاں جائے گی؟ اور حقیقت میں تم صرف میرا نشان ہو، اس دنیا میں اپنے باپ کا نشان، بس! تو اس لیے میں نے سیدھے تمہیں تمہارے نام سے پکارا۔

یار ایک چیز تو پکی ہے آئلہ، جو کچھ میں اپنے آس پاس دیکھ رہا ہوں، میں پریشان ہوں۔ میں شرمندہ نہیں ہوں کیونکہ یہ سب میں نہیں کر رہا، نہ ہی میں ایسے بے لگام انسانوں کی دوستی یا تربیت کا دعویدار ہوں، لیکن میں پریشان ہوں۔

اس لیے نہیں کہ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ اس لیے کہ میں ایک ایسے وجود کا باپ ہوں جو اپنے دماغ سے سوچتا ہے اور عمل کرتا ہے لیکن میں اسے غلط جگہ پہ لا کر پھینک چکا ہوں۔

تمہاری ماں اور میری بڑی خواہش تھی کہ ہمارے بیٹی ہو لیکن بیٹی کو دینے کے لیے اپنے پاس کیا تھا؟ یہ سب کچھ جو آج تمہارے آس پاس چل رہا ہے؟ ہماری خواہش کا احترام قدرت نے رکھا اور تمہیں یہاں بھیج دیا۔ تم تو زبردستی کا شکار ہو گئیں؟ اس خطے میں پیدا ہونے کی مجبوری کا۔ وہ زمین کہ جہاں آزادی کی خوشی انجان لڑکیوں کو زبردستی ہاتھ لگا کے، انہیں چوم کے یا اکٹھے ہو کر ان کے کپڑے پھاڑنے کی شکل میں منائی جاتی ہے؟ وہ ملک جہاں بیٹا اپنی دوست کی گردن کاٹ رہا ہو تو ماں باپ سمجھتے ہیں تھوڑا شغل چل رہا ہے؟ وہ جگہ جہاں عورت کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے سوچنے والے یہی سوچتے ہیں کہ ’اسی نے کچھ کیا ہو گا۔‘

تم جینز شرٹ میں ہو گی تو وہ لباس بے ہودہ کہلائے گا، تم شلوار قمیص میں ہو گی تو وہ باریک سمجھا جائے گا، تم موٹے کپڑے پہنو گی تو ان کی فٹنگ مردوں کو گمراہ کرنے کے لیے کافی سمجھی جائے گی، تم عبایہ لو گی تو تمہارا چہرہ انہیں پریشان کرے گا، تم شٹل کاک برقعہ پہن لو، پھر بھی میری بچی تم سیف نہیں ہو کیونکہ عورت کا سکون تو بہرحال قبر میں بھی نہیں ہے۔

اچھا، تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ بھاگ جاؤ گی؟ کسی اور ملک؟ نہ یار، دس بار جا لیکن واپس آ جا آئلہ، اپن دو میاں بیوی کیا کریں گے بھئی؟ ابھی پندرہ بیس سال ہوں گے باقی ہم لوگوں کے، یا چلو تھوڑے اور بڑھا لو، ہم سال دو سال میں ایک بار تمہیں دیکھ کے گزارہ نہیں چلا سکتے بیٹی۔ اب یہ پورا پیکج ہے، جیسے ایک ویڈیو گیم ہوتی ہے، سمجھو کہ اسی میں ہو۔ بلاؤں سے بچنا ہے، کہیں لڑنا ہے، کہیں دبنا ہے، کہیں ہتھیار اٹھانا ہے، کہیں چھپنا ہے، کہیں بھاگ جانا ہے لیکن ویڈیو گیم تو کھیلنی ہے نا یار؟

ہمارے شاعر نے کہا تھا آئلہ، اے ماؤ، بہنو، بیٹیو قوموں کی عزت تم سے ہے، بس یہیں سے ہمیں پھنسا دیا گیا۔ عورت خود سے کیا ہے؟ اس کا جو بھی رشتہ ہے مرد کے نام سے کیوں ہے؟ اس کی عزت الگ سے کیوں نہیں؟ جب تک ہم اپنے لڑکوں کے دماغ میں یہ سوال نہیں ڈال سکتے تب تک برداشت کرو یار ان بے ہودگیوں کو، ان بدتمیزیوں کو۔ مجھے علم ہے کتنی بار تمہارے ساتھ بھی لڑکوں نے بدتمیزی کی ہو گی، تم نے ہمیں نہیں بتایا ہو گا۔ اچھا ہے، جب دل چاہے یا ضرورت سمجھو بتا دینا، خود کتنا لڑ سکتا ہے بندہ؟

ہمیں اگر کانسینٹ۔ صرف ایک لفظ کی سمجھ آ جائے یار تو سیاست سے لے کر تمہاری زندگی تک ہر چیز بدل سکتی ہے لیکن کیسے۔ جدھر رعایا بادشاہ کی مملکت ہو، جہاں دنیا کی آدھی آبادی باقی دوسرے نصف کی کھیتی سمجھی جائے، جہاں نکاح کا مطلب کسی بھی وقت کچھ بھی کر لینا ہو ادھر کون سا کانسینٹ؟ اور ویسے مغرب میں بھی گیم ساری یہی چل رہی ہے بس ان کے منہ زور بیلوں کو لگام ڈلی ہوئی ہے قانون کی، ہمارے اصل حکمران خود بے نتھے ہیں، کیا قانون اور کیا ان کی لگام!

یہ کچھ زیادہ عالمی نوعیت کا خط نہیں ہو گیا؟ جتنی بڑی ہو جائے، رہے گی تو بابا کی جانو بیٹی نا؟ تو بس برداشت کر۔

تمہارا رزلٹ بڑا شاندار آیا، میں فیس بک پہ اعلان نہیں کر سکا، مجھے لگا کہ جن بچوں کے نمبر کم آئے ہوں گے ان کے اماں ابا نے ایویں وقتاً ڈال دینا ہے، میں رک گیا۔ تھینک یو آئلہ کہ تم نے میرے ڈھیر سارے پیسے بچا لیے اور سکالر شپ پہ داخلہ مل گیا تمہیں۔

تم نے کہا ڈرائنگ نہیں کرنی، اوکے، حالانکہ تمہارا ہاتھ بڑا صاف تھا! گانے میں کریئر نہیں بنانا، بسم اللہ، جو مرضی کرو۔ تم نے کہا میتھ کے بغیر کوئی اچھا بزنس سٹڈی میں کمبینیشن نہیں بنتا، ہم نے کہا وہ کر لو۔ تم نے کہا فلاں جگہ داخلہ نہیں لینا یہاں لینا ہے، تم نے لے لیا۔ یہ تمہارا حق تھا کیونکہ زندگی تمہاری ہے۔ ہم تمہیں کہتے رہیں گے کہ دروازے کا چکر لگا لو، روٹی بنا دو، ٹانگیں دبا دو، پانی پلا دو، کوئی چھوٹا موٹا کام کر دو، وہ ہمارا حق ہے استاد، اس پہ منہ بناؤ گی تو ایسی تیسی تمہاری!

ایک چیز یاد رکھو۔ دنیا میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ایک کمرشل ہے، اشتہار ہے۔ تم کسی ملک کی پالیسیوں سے متاثر ہو گی، وہی ملک اسلحہ بیچنے والا نکل آئے گا، تم کسی سیاستدان کے بھرم میں آؤ گی، وہ عین وقت پہ جوتوں سمیت فرار ہو جائے گا، تم کسی فلم سٹار کی ایک اچھی بات پہ واہ واہ کرو گی، وہ خاتون اگلے دن کوئی بنیاد پرست گند گھول دیں گی، تم باڈی پازیٹوٹی کے لیے کسی کو آئیڈیل بناؤ گی، دو سال بعد وہ خاتون کئی برینڈز کی ایمبیسیڈر ہوں گی اور تمہارے جیسی کئی لڑکیاں صرف پازیٹو! دھیان کرو! سب کاسمیٹک ہے، سب کچھ! یہاں تک کہ تمہارا باپ بھی خط تمہیں لکھتا ہے لیکن سناتا دنیا بھر کے لوگوں کو ہے، یہیں سے اندازہ کر لو! تو بس دکھاوا ہے سب۔

’بیسٹی‘ کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام ’ریال‘ ہے
اس کا مطلب پھر کبھی بتا دوں گا ابھی جو سمجھ آ گیا اسی پہ غور کرو۔

تمہاری نسل بہت آگے ہے آئلہ، سٹریس، بلئنگ، موبائل ایڈکشن، ہریسمنٹ، باڈی امیج، سیلف آئیڈنٹیٹی۔ یہ سب تمہاری عمر کے بچے بھگتتے ہیں اور اس بارے میں سوچتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں شاید یہ سب کچھ ہوتا ہو لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ تم لوگ جانتے بھی ہو اور انہیں ہینڈل بھی کرتے ہو، ہیٹس آف یار! اور شکریہ کہ تم جہاں ضروری سمجھتی ہو ہمیں بتا بھی دیتی ہو۔ میرے الفاظ یاد رکھو، تمہارا کوئی بھی مسئلہ ہم تینوں کا مسئلہ ہے اور چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اس کا حل ہمیں مل کے نکالنا ہے، اور نکالا بھی ہے اکثر۔ باقی ذہن میں رکھنا کہ تم سے میری کوئی عزت یا غیرت وابستہ نہیں، تم خود اپنی عزت اپنے وقار کو بہتر سمجھتی ہو۔ جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے وہ ہمیں درست لگنا شروع ہو جائے گا۔

آخری بات۔ حالات جیسے بھی ہوں، ان دا ویری اینڈ، بہرحال انسان کو اپنی مخالف جنس کے کسی ایک آدمی کے ساتھ گزارا مزارا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپنے اصول، اپنی انا، اپنے جذبات، اپنی عادتیں، اپنی طبیعت بس اتنی نرم ضرور رکھو کہ وہ گزارا تمہارے لیے باسہولت رہے، نہیں بھی رہا تو کوئی غم نہیں، تم مضبوط ہو، تم محفوظ ہو، تم خوش ہو، تم راضی ہو، تم دل سے ہنستی ہو تو میری بیٹی تمہارا ابا ہر جہان میں پرسکون رہے گا۔

خدا تمہیں کامیاب رکھے۔

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author