حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگ بھگ نصف صدی سے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کرتے ہوئے ہوگئے اس عرصہ میں ایسی سفارتی تنہائی دیکھی نہ سنی جس کا ان دنوں سامنا ہے ۔
ہمارے ملتانی” مرشد” سمجھتے ہیں کہ چبائے ہوئے لفظوں کی کھردرے انداز میں ادائیگی سے رعب پڑتا ہے اور اس رعب کی بدولت کسی کو کھانسنے کی بھی جرأت نہیں ہوتی۔
یہاں اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ تھوڑا سا حوصلہ کرکے سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو سرکاری طور پر غدار قرارپاتے ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک فہرست لہراتے ہوئے چند مبینہ غداروں کی نشاندہی کی۔
ان سکہ بند غداروں میں دو نام ایسے ہیں جن پر حیران ہوا جا سکتا ہے اولاً بلوچستان سے بشیرنیچاری اور ثانیاً میرپور خاص سے کامریڈ جیون بھیل ‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں بنیادی طور پر سیاسی کارکن ہیں حسن اتفاق سے دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ۔ بشیر نیچاری اور کامریڈ جیون بھیل دونوں محکوم طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا جرم سوال اٹھانا ہے ۔
بشیر نیچاری اکثر پوچھتے رہتے ہیں ۔
بلوچستان میں امن کب ہو گا ‘ترقی کب شروع ہوگی ‘سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ کب بند ہو گا۔
کامریڈ جیون بھیل اپنے علاقے میں بعض شدت پسند مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کے خلاف پچھلے کئی برسوں سے سرگرم عمل ہیں مذہب کی جبراً تبدیلی کے خلاف ان کے موثر احتجاج نے ہمنوائوں کی بڑی تعداد بنا دی۔
پیپلز پارٹی سے ان کا تعلق اور غریب خاندانوں کا فرزند ہونا کسی سے مخفی نہیں۔ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں پرسوں سے ناراض ہیں۔ وجہ پوچھنے پر کہتے ہیں۔
شاہ جی! مجھے چار دہائیوں سے کفر اور غداری کے فتووں کا سامنا ہے ۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ وزیر اطلاعات اور غدار تیار کرنے والی ٹیکسال کے انجینئر کو مجھ جیسا سکہ بند کافر اور غدار دکھائی نہیں دیا۔ کاش مجھے بھی اس فہرست میں شامل کر لیاجاتا
ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا غداروں کی سرکاری فہرست میں نام آجانے سے آپ کو کیا فائدہ ہوتا؟
کہنے لگے شاہ جی
امریکہ میں سیاسی پناہ لینے میں مدد ملتی۔
سچ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کا باوا آدم نرالا ہے ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ جیسی سفارتی تنہائی آج درپیش ہے ایسی کبھی نہیں تھی یقین نہیں آتا تو گزشتہ روز غیرملکی میڈیا کے نمائندوں سے وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو کا متن حاصل کرکے پڑھ لیجئے ۔ کاش نیلے آسمان کے نیچے موجود کوئی زندہ شعور شخص اٹھے اور وزیر اعظم کو جاکر بتائے کہ
حضور!
ہمارے اور امریکہ کے مراسم ہمیشہ آقا ومحکوم ‘ دادا گیر اور سہولت کار کے طور پر رہے ہیں ان تعلقات کا ایک معروف حوالہ "اور بھی ہے” لیکن میں چونکہ فقیر راحموں کی طرح سکہ بند کافر اور غدار نہیں نا ہی امریکہ میں پناہ لینے کا خواہش مند ہوں اس لئے وہ معروف حوالہ لکھنے سے اجتناب کرتا ہوں ایسا کرنا صحت کے لیے بھی مفید ہے
البتہ یہ حقیقت ہے کہ پچھلی نصف صدی سے جنوبی ایشیاء میں امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر بھارت ہے اور رہے گا۔ ہم بس امریکہ کی ضرورت ہیں بلکہ یوں کہیں کہ تھے ۔ اب شاید وہ بھی نہ ہو اس کی وجہ خود ہماری قلابازیاں ہیں۔ یہاں جو چین کا ہوا دیکھا کہ امریکہ کو دام میں لانے کے تعویذ دے رہے ہیں انہیں توگھر میں دوسری بار سالن کوئی نہیں دیتا ۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ڈنگ ٹپاو پالیسیوں کا رواج رہا کبھی جہاد ‘ مجاہدین ‘ پھر دہشت گردی ‘ امن دشمن ، مجاہدین انسانیت کے ماتھے پر کلنک ‘ ہم سمجھتے رہے کہ بس ہم چونکہ دیسی گندم کھاتے ہیں اس لئے بریڈ کھانے والے کیا سمجھیں گے ۔
ایک بات اور عرض کروں پچھلی نصف صدی میں ایسا طوفان بدتمیزی بھی دیکھا بھگتا نہیں کبھی جیسے ہماری بنی گالوی تہذیب کے شاہکار ہیں۔ یہاں تک یہ مرحومہ اسلامی جمہوری اتحاد پر بھی بازی لے گئے تبدیلی والے مجاہدین ۔
خیر چھوڑیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔ فی الوقت یہ ہے کہ مرشد ملتانی نے داسو ڈیم دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ روز تفصیلات بیان کی ہیں اور میں ایک محب وطن شہری کے طور پر آنکھیں بند کرکے اس پر ایمان لے آیا ہوں
ویسے بھی مجھے ملتان میں اپنے آبائی گھر جانے کے لئے مرشد کے محل کے سامنے سے گزرنا پڑتا ہے۔
مرشد اچھے آدمی ہیں بس انہیں کل کہی ہوئی بات یاد نہیں رہتی ۔
مشورہ ان کے لئے یہی ہے کہ وہ داسو ڈیم کے بعد سے گزشتہ روز کے بیان تک کے درمیان میں دیئے گئے ا پنے بیانات جمع کروا کے ایک بار تنہائی میں پڑھ لیں یہ ان کی صحت اور وزارت دونوں کے لئے اچھا ہو گا
ایک ملتانی دوسرے ملتانی کی صحت کے حوالے سے فکر مند نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ داسو ڈیم سانحہ سے قبل ہوئے علاقے میں ایک مسلح جرگے اور سانحہ کو الگ الگ کرکے دیکھنے والے لسی شسی پی لیں ورنہ سوالات اٹھانے والوں نے ان کی جان نہیں چھوڑنی۔
میں اور میرے جیسے محب وطن تو وزیر خارجہ مرشد آف ملتان کی باتوں کو جان سمجھ لیں گے لیکن دنیا کو کون سمجھائے منوائے گا۔
را اور این ڈی ایس کی مشکوک بلکہ پاکستان دشمن سرگرمیوں پر بحث کی ضرورت نہیں یہ بھی مان لیا کہ خود کش بمبار افغان شہری تھا اور دومرکزی کردار سرغنہ معاویہ اور خالد شیخ افغانستان میں ہیں اور یہ کہ
خود کش بمبار کی گاڑی چمن کے راستے پاکستان پہنچی تھی۔
سر تسلیم خم کے تین دہشت گرد پکڑے گئے لیکن میرا سوال بدستور وہی ہے ۔
مفرور ٹی ٹی پی کمانڈروں جرگہ میں ہوئی تقایر ‘ دھمکیاں کس کے لئے اور کس کے خلاف تھیں۔
کیا اس جرگے میں 2015ء میں گلگت جیل سے بھاگا مطلوب دہشت گرد شامل نہیں تھا کیا یہ وہی شخص نہیں جو قبل ازیں چینی سیاحوں کے قتل میں ملوث ہونے پر گرفتار ہوا تھا؟ ۔
وزیر خارجہ مجھے بے شک ان سوالوں کاجواب نہ دیں مگر یہ سوال تو متاثرہ فریق بھی پوچھ رہا ہے انہیں کیا جواب دینا ہے ؟
حرف آخر یہ ہے کہ جوبائیڈن نے فون کرنا ہے تو کرے نہیں کرنا تو یاد رکھے کہ آٹھ محرم تک اس نے فون نہ کیا تو نو اور دس محرم کو ہمارے ہاں موبائل سروس بند ہو گی۔
ایک مشورہ ہے وہ یہ کہ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کو رخصت کرکے دیکھ لیجئے ۔ یعنی بندہ بدل لیجئے حضور کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی بعض باتوں سے امریکی ناراض ہیں۔
آخری سے آخری بات یہ ہے کہ غداروں کی فہرست میں ڈالے گئے پیپلز پارٹی کے دو کارکنوں کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے یہ اچھی رسم بالکل نہیں کہ مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں کو غدار قرار دیا جائے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر