نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان اور پاکستان کا سیاسی منظرنامہ||عامر حسینی

افغان صورت حال پہ پاکستان میں جو سیاسی صورت حال ابھرکر سامنے آئی ہے اس کو ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ افغان طالبان افغانستان کے تمام صوبوں کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں ۔ افغان طالبان نے اپنے سینئر ترین رہنما ملّا غنی بردار کو عبوری صدر  مقرر کردیا ہے۔ سابق افغان حکومت کے صدر اشرف غنی سمییت کئی ایک اہم عہدے داران ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق ابھی تک افغانستان میں کوئی حکومتی سیٹ اپ نہیں ہے۔ سلامتی کونسل پاکستان کے بغیر اپنے دو اجلاس منعقد کرچکی ہے اور تاحال زبانی اعلامیوں کے علاوہ کوئی عملی روڈ میپ سامنے نہیں آیا ہے۔ طالبان نے بھی ابھی تک عملی طور پہ کوئی روڈ میپ نہیں دیا جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ "سب کو ساتھ لیکر چلنے” کی جو بات کررہے ہیں اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟

 

افغان صورت حال پہ پاکستان میں جو سیاسی صورت حال ابھرکر سامنے آئی ہے اس کو ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

 

 

پاکستان اسٹبلشمنٹ 

 

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت  ہو وہ افغان طالبان کے افغانستان میں فتح یاب ہوکر سامنے آنے کواپنی  نائن الیون کے بعد اختیار کی گئی پالیسی کی جیت سمجھ رہی ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے ایک طرف تو امریکہ اور نیٹو فورسز کی افغانستان پر مسلط جنگ کا ساتھ دیا اور کولیشن سپورٹ پرگرام کے زریعہ اربوں ڈالر حاصل کیے۔ دوسری طرف اس نے افغان طالبان کی قیادت اور اہم ترین رہنماؤں کو بلوچستان، سابقہ فاٹا میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔ یہاں تک کہ اس قیادت نے القاعدہ کے سربراہ سمیت اہم ترین شخصیات کو بھی پاکستان کے اندر چھپایا۔ 20 سال کی جنگ کے دوران پاکستان،  ایران، چین اور روس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے افغان طالبان کو بطور ایک تنظیم کے قائم رکھنے میں مدد دی اور ایسے ہی قطر نے بھی افغان طالبان کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی- پاکستان کی فوجی قیادت کی افغان طالبان کو برقرار رکھنے کی اس پالیسی کی بڑے پیمانے پہ پاکستان کی جن جماعتوں نے بڑے پیمانے پہ مخالفت کی ان میں سرفہرست پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی تھیں۔ جنھیں افغان طالبان نہ صرف افغانستان کے لیے بلکہ خود پاکستان کے لیے ایک بڑی مصیبت قرار دیا۔ 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاق میں اور کے پی کے میں اے این پی کے ساتھ بنائی گئی حکومتیں ایسی تھیں جنھوں نے عسکری اسٹبلشمنٹ کی "طالبان”سے سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انھیں پاکستان کی افغان پالیسی اور ہندوستان کی پالیسی پہ مکمل طور پہ عسکری اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول کو کم کرنے کی کوشش مہنگی بھی پڑی وہیں ان کا بدترین میڈیا ٹرائل بھی ہوا۔ پاکستان اسٹبلشمنٹ کی افغان طالبان سے سٹرٹیجک پارٹنرشپ نے ہی افغان طالبان کی چین اور روس سے سٹرٹیجک پارٹنر شپ چاہے اس کی نوعیت کچھ کیوں نہ رہی ہو شروع ہوئی۔ افغان طالبان کے ساتھ ایران نے بھی تعلقات بنائے اور شاید ان تعلقات کا ثمر تھا کہ ایران نواز افغان شیعہ ملیشائیں اور افغان شیعہ /ہزارہ، تاجک اور ازبک و پشتون شیعہ گروہوں کے جو سیاسی و جنگجو گروہ تھے وہ بھی طالبان کوشمالی افغانستان پر سب سے پہلے کنٹرول کی مدد فراہم کرگئے۔ افغان طالبان نے ان مذکورہ بالا ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا بھرپور استعمال بھی کیا اور اس سے طالبان کو جو تقویت ملی اسی نے امریکہ جیسی عالمی فوجی قوت کو ان سے مذاکرات پہ مجبور کردیا اور دوحہ اعلامیہ ایسے ہی وقت میں سامنے آیا تھا۔ پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان میں طالبان سے اپنی سٹرٹیجک شراکت داری کو کسی صورت ترک کرنے پہ آمادہ نہیں ہے اور وہ  اس کے لیے جو بن پڑا کرے گی۔

 

پاکستان کا مذہبی دایاں بازو اور دیگر سنٹر رائٹ جماعتیں

 

جس وقت امریکہ نے افغانستان میں جنگ مسلط کی تھی تب سے پاکسان میں دیوبندی مکتبہ فکر کی تمام سیاسی مذہبی جماعتیں، خالص مذہبی فرقہ وارانہ جماعتیں اور دیوبندی مدارس کی چھاتہ بردار تنظیم  وفاق المدارس افغان طالبان کی حامی تھیں ۔ جمعیت علمائے اسلام  کے جتنے دھڑے ہیں وہ سب کے سب افغان طالبان کے لیے اپنے مدارس کے نیٹ ورک کو طالبان کے لیے افرادی قوت کی فراہمی، اپنے زیر اثر تاجر و کارپوریٹ سرمایہ کے مالکان سے فنڈز کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے تھی جمعیت علمائے اسلام(ف) کے جنوبی کے پی کے، سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے قلات ڈویژن و بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں قائم مدارس افغان طالبان کے لیے ریکروٹمنٹ سنٹرز کا درجہ بن چکے تھے۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 2018ء کے بعد سے عسکری اسٹبلشمنٹ سے اپنی تمام تر لڑائی کے باوجود ان کی طالبان سے سٹرٹیجک پارٹنر شپ کے حامی تھے اور اس میں مددگار بھی۔ جماعت اسلامی پاکستان بھی بلوچستان ، کے پی کے اور سابقہ فاٹا میں قدرے کم پیمانےپہ سہی وہی خدمات فراہم کررہی تھی جو جمعیت علمائے اسلام(ف) ، جے یوآئی (س) اور جے یو آئی(نظریاتی) فراہم کررہی تھیں۔ دیوبند کی نمائندہ سیاسی و مذہبی غیر سیاسی جماعتیں اور جماعت اسلامی پاکستان نائن الیون کے بعد سے  پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے پاکستان میں وجود میں آنے والی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بھی ملٹری آپریشنوں کی مخالفت کررہی تھیں۔ لیکن مشرف ہو یا پرویز اشفاق کیانی، یا پھر راحیل شریف ہو یا جنرل قمر باوجوہ ہوکی افغان طالبان سے جو تزویراتی شراکت داری ان کی تھی یہ اس سے سہمت تھے۔ افغان طالبان کی حالیہ کامیابیوں کو جن جماعتوں نے اعلانیہ خوشی منائی ان میں  جے یوآئی ف اور جماعت اسلامی پاکستان شامل ہیں۔ وہ افغان طالبان کو اپنا برادر کہہ رہے ہیں۔ دیوبندی وفاق المدارس ہو یا اہلحدیث مدارس کی چھاتہ تنظیم ہو اور اہل حدیث جماعتیں ہوں وہ افغان طالبان کو اپنا اتحادی ہی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ بریلوی تنظیم المدارس کے مرکزی صدر مفتی منیب الرحمان ہوں یا تحریک لبیک یارسول اللہ ہو یہ بھی افغان طالبان کی طرف مائل ہیں۔

 

شیعہ مجلس وحدت المسلمین ، تحریک اسلامی ، شیعہ علماء کونسل اور ایسے ہی بریلویوں میں پاکستان عوامی تحریک(طاہر القادری) ، سنّی اتحاد کونسل (صاحبزادہ حامد رضا) ان کی جانب سے تاحال خاموشی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ تنظمیں افغان طالبان کے خلاف کوئی کھل کر پوزیشن لینے سے گریزاں اس لیے ہیں کہ ایک طرف پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کی افغان طالبان سے سٹرٹجیک پارٹنرشپ ہے تو دوسری طرف ایران کے افغان طالبان سے برادرانہ تعلقات ہیں۔ ان جماعتوں کی طرف سے نہیں لگتا کہ یہ افغان طالبان کے خلاف اپنی پاکٹس کو محترک کریں گی۔

 

پاکستان مسلم لیگ نواز نے افغانستان میں افغان طالبان کے ابھار اور حالیہ کامیابیوں پہ سرکاری طور پہ کوئی سیاسی موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ لیکن اس نے پی ڈی ایم میں شامل جمعیت علمائے اسلام (ف) کی لی گئی پوزیشن سے بھی اعلانیہ اختلاف نہیں کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میآں محمد نواز شریف نے سابقہ افغان حکومت کے اہم عہدے داروں سے لندن میں ملاقات جو کی تھی اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ میاں نواز شریف امریکہ اور یورپ کی حکومتوں کو اپنی جماعت کے سابقہ افغان رجیم کا حامی ہونے کا تاثر دینا چاہتے تھے لیکن اب جبکہ امریکہ کے اتحادی اشرف غنی معزول ہوچکے اور امریکہ کو بھی سابقہ رجیم کوبحال کرانے میں دلچسپی نظر نہیں آرہی تو یہ بات یقینی ہے کہ نواز شریف اپنی پارٹی کے بھاری قدامت پرست اور افغان طالبان نواز ووٹرز  خاص طور پہ پنجاب اور کے پی کے میں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے اور اس موقعہ پہ شہباز شریف کو آگے رکھا جائے گا جو ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ کی اسٹبلشمنٹ سے اتفاق کرنے والی سیاسی لائن ہی اختیار کریں۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ نواز کے موجودہ عسکری قیادت کے خلاف اختیار کیے جانے والے بیانیہ کو پروجیکٹ کرنے والا لبرل صحافتی اور سول سوسائٹی سیکشن اپنے آپ کو یتیم اور الگ کردیا گیا محسوس کرے۔

 

پاکستان مسلم لیگ نواز اگر اعلانیہ عسکری اسٹبلشمنٹ کی افغان لائن کو قبول کرتی ہے تو اس کی پی ڈی ایم میں شامل اتحادی پشتون اور بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے ساتھ رشتے کیسے برقرار رہیں گے؟ یہ اپنے طور پہ خود ایک ملین کا سوال ہے۔

 

لبرل، پشتون اور بلوچ قوم پرست

 

اس وقت پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں جو ہیں وہ بھی بڑی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔  عوامی نیشنل پارٹی نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی سپورٹ کی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ افغان طالبان اور سابقہ افغان رجیم میں شامل پشتون قوم پرست کسی سیاسی تصفیہ پہ پہنچ جائیں اور کسی حد تک پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی بھی یہی چاہتی تھی جس کی امیدیں جمعیت علمائے اسلام(ف) سے وابستہ تھیں لیکن قندھار میں عبدالرزاق اچکزئی کی طالبان کے ہاتھوں ہلاکت اور بلوچستان سے ملحق پاک- افغان سرحد کے دونوں اطراف طالبان کے حامی اور اس کے حریف قبائل کی فتح نے اس کو خاصا دھچکا لگایا ہے۔ دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ ہے جس میں شامل ایک بڑا سیکشن کے پی کے، سابقہ فاٹا اور جنوبی بلوچستان(پشتون خوا) میں ایک نئی پشتون قوم پرست لبرل پارٹی کی داغ بیل ڈالنا چاہتا تھا جس کے نمایاں لیڈر افراسیاب خٹک، محسن داورڈ، بشری گوہر اور دیگر ہونا تھے اور اس نئی لبرل پشتون قوم پرست سیاسی پارٹی کو ایک طرف تو افغانستان میں سابقہ غنی رجیم کے حامی کے طور پہ خود کو پیش کرنا تھا اور پشتون لبرل قوم پرستوں میں اسے سب سے بڑی طالبان مخالف قوت کے طور پہ بھی خود کو منوانا تھا۔ افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پی ٹی ایم کے اس سیکشن کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔

 

بلوچ قوم پرست جماعتوں میں اس وقت ایک طرف تو میر غوث بخش بزنجو کی باقیات میں ڈاکٹر مالک کی زیرقیادت بلوچستان نیشنل پارٹی اور دوسری طرف اختر مینگل کی قیادت میں بی این ایم دو ایسی قوتیں ہیں جو ایک طرف تو پی ڈی ایم کا حصّہ ہیں تو دوسری طرف ان میں ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی اپنے آپ کو چین نواز لیفٹ پارٹی کے طور پہ پیش کررہی ہے۔ اختر مینگل بھی اپنی پارٹی کو سی پیک کی مخالف پارٹی کے طور پہ پیش کرنے سے گریزاں ہے اور یہ دونوں جماعتیں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے کھلی لڑائی لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ افغانستان کے معاملے پہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سے خود کو بہت زیادہ فاصلے پہ دکھائیں گی یہ خوش فہمی ہوگی۔ یہ دونوں جماعتیں پی ٹی ایم کے اندر عقابوں سے اپنے آپ کو پہلے ہی فاصلے پہ رکھے ہوئے ہیں اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی ان کے فاصلے واضح ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی

پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان ہوں سے اپنے آپ کو فاصلے پہ رکھے ہوئے ہے۔ اس نے اپنے دور حکومت میں خود کو عسکری اسٹبلشمنٹ کی افغان طالبان حمایت اور پاکستان میں نام نہاد اچھے طالبان کی سرپرستانہ روش سے فاصلے پہ رکھا اور یہ فاصلہ اس کے اور ملٹری قیادت کے درمیان فاصلے اور اندرون خانہ کش مکش کا سبب بنتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان پیپلزپارٹی چین اور روس کے ساتھ اقتضادی تعلقات اور سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو اپنے دور میں ہی آگے لیجانے کی پالیسی میں فوجی قیادت سے ہم آہنگ نظر آئی اور بعد میں اپوزیشن کے حالیہ آٹھ سالوں میں بھی یہ دونوں ممالک سے سٹرٹیجک اور اقصادی تعاون میں ملٹری قیادت سے غیرمتفق نظر نہیں آتی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی فیادت کی جانب سے دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف بھی کوئی متنازعہ بیان دیکھنے کو نہيں ملا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے آپ کو سخت گیر پاکستانی امریکہ نواز لبرل سے فاصلے پہ رکھا اور اس نے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف پاکستانی لبرل صحافتی اور سول سوسائٹی کے غیر لچک دار اینٹی فوج بیانیہ کے ساتھ چلنے کی بجائے درمیانی راہ اختیار کیے رکھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کے سٹرٹیجک مفاد افغانستان ایشو کے تناظر میں قدامت پرست دائیں بازو کی نعرے بازی سے فاصلے پہ رکھے ہوئے اور وہ افغان طالبان کی وکیل صفائی نہیں بننا چاہتی جیسے پاکستان تحریک انصاف اور دائیں بازو کی دیگر جماعتیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ پشتون و بلوچ قوم پرستوں میں موجود انتہائی ریڈیکل قوم پرستانہ بیانیہ کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کی خواہش مند ہے۔ وہ پاکستانی فیڈریشن کے اندر ایک سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پہ افغان ایشو کو دیکھ رہی ہے۔ وہ ایسے پاکستانی لبرل اور قوم پرست ریڈیکل بیانیہ سے اپنے آپ کو فاصلے پہ رکھنا چاہتی ہے جو موجودہ افغان صورت حال کا سارا الزام پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پہ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اعلانیہ سی پیک پروجیکٹ کا مخالف کہتا ہے اور چین، روس اور ایران کو امریکی بیانیہ کے مطابق "برائی کا محور” گردانتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا پاکستانی لبرل اور قوم پرست ریڈیکل بیانیہ سے دوری وہ بڑی وجہ ہے جس کے سبب اسے پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں لبرل اور ریڈیکل قوم پرست اسٹبلشمنٹ کی سخت مخالفت بلکہ کردار کشی کا بھی سامنا ہے اور اسے اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کے الزام کا بھی سامنا ہے۔

 

پاکستان پیپلزپارٹی  نے افغان صورت حال پہ سنٹر ایگزیگٹو کمیٹی کے اجلاس میں غور وفکر کے بعد جو اعلامیہ پریس میں جاری کیا اسے ہم انتہائی محتاط اعلامیہ کہہ سکتے ہیں ۔ پی پی پی نے ایک طرف تو طالبان نواز قوتوں کی طرح افغان صورت حال پہ خوشیاں نہیں منائیں تو دوسری طرف اس نے افغانستان کے لیے جمہوری حکومت کی مانگ کی ہے۔ اس نے افغانستان میں نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اور اس اعلامیہ میں اس نے نہ تو سابقہ افغان رجیم کے ڈھے جانے کا نوحہ پڑھا ہے تو نہ ہی اس نے افغان طالبان کا کسی بھی پیرائے میں ذکر تک نہیں کیا۔ یہ ڈسکورس پاکستان پیپلزپارٹی کی افغان صورت حال پہ دایاں بازو کی مذہبی و سنٹر سیاسی جماعتوں  اور پاکستان کے امریکہ نواز لبرل و قوم پرستوں کے ڈسکورس سے اپنے آپ کو فاصلے پہ رکھتا ہے۔ امکان اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی پی پی اپنے ڈسکورس پہ اتفاق کے لیے عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی ، بی این ایم وغیرہ سے تبادلہ خیال کرسکتی ہے اور اپنے ڈسکورس کو میڈیا و سوشل میڈیا پہ مقبول بناسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author