رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان پُرامن‘ پُرسکون اور بطور ایک قدیمی معاشرہ دنیا کیلئے دلکش ملک تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں دور دراز کے ملکوں سے سیاح کھنچے چلے آتے تھے۔ تب ایران اور پاکستان بھی ایسے ہی تھے۔افغانستان کی آبادی کم تھی‘ مگر زیادہ تر صحت مند‘ خوش حال اور مقامی معاشرے کے دائروں میں خوش باش۔ اپنی تابناک تاریخ اور رنگ دار ثقافتی دھاروں کے امین افغانوں کے سر بلند تھے۔ باہر کے لوگ ان سے کہیں ملتے یا افغانستان کا سفر کرتے تو ان کی خود اعتمادی‘ عزتِ نفس اور خود داری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ اس خطے میں افغانستان واحد ملک تھا جو براہ راست استعماریت سے محفوظ رہا۔ ہندوستان میں انگریزی راج نے دو مرتبہ انیسویں صدی میں جنگیں کیں تو افغانوں نے بھرپور مزاحمت کی۔ اس وقت کی عالمی طاقت کے ساتھ بہادری سے لڑے‘ قربانیاں دیں اور ایسی پیچیدہ حکمت عملی اختیار کی کہ برطانیہ نے پہلی جنگ میں ہزیمت اٹھائی اور شکست کھانے کے بعد پھر فیصلہ کر لیا تھا کہ افغانستان پر قبضہ کر کے ہندوستان جیسی ریاست قائم کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ روس کے ساتھ ”بڑے کھیل‘‘ میں حریف طاقت کا اثر و رسوخ اس قریبی ملک میں نہ بڑھے‘ کابل کے خارجہ امور پر اپنا غلبہ دھونس‘ دھاندلی اور وظیفوں سے جاری رکھا۔ جب 1839-42 کی جنگ میں شاہ شجاع کو آگے کر کے افغانستان پر قندھار کے راستے قبضہ کیا تھا تو انگریزوں نے نئی افغان ریاست کی تشکیل کیلئے جدید فوج کی بنیاد رکھنا شروع کر دی تھی۔ ان زمانوں میں فوجیں قبائلی لشکروں کی صورت میں اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے اور جارحانہ مہمات کے لیے بوقتِ ضرورت تیار کر لی جاتی تھیں۔ ان کے خلاف نفرت‘ مزاحمت اور کابل سے انخلا کے پیچھے محرکات میں سے افغان فوج بنانے کی بڑی غلطی بھی شامل تھی۔ اس لیے کہ قبائلی سرداروں کے اپنے اپنے لشکروں کے کماندار اور منصب دار تھے۔ پھر انہیں اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کھونے کا خدشہ بھی تھا۔ انخلا کے دوران انگریزی فوج کا افغانوں نے وہ حشرکیا کہ کابل سے جلال آباد پسپائی مارچ کے دوران‘ جو سخت جاڑے کے موسم میں ہوا‘ صرف ایک نیم مردہ ڈاکٹر بھوک اور پیاس سے بے جان گھوڑے کی پشت پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکا تھا۔
افغانستان میں اندرونی خلفشار وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہے‘ مگر بادشاہت اور اس کی جائزیت نے افغان ریاست کو فطری توازن اور استحکام تقریباً دو صدیوں تک بخشے رکھا۔ تاریخ کا مطالعہ اور پھر تاریخ پر فیصلہ اگر ہم اپنی خواہشوں اور مثالیت پسندی کی روشنی میں صادر کریں تو صرف عیب نکال سکیں گے۔ یہ فضول کی بحثیں ہیں کہ افغانستان میں بادشاہت کیوں تھی۔ ہمارے ہاں تو جیسے جمہوریت کی دیوی کا راج تھا۔ نظام جو بھی ہو‘ اگر وہ معاشرے کو استحکام‘ انصاف‘ رواداری‘ عزت‘ آزادی اور امن سے محروم رکھتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا دور‘ اور اگر ان کے چچائوں‘ جنہیں مصاحبان کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے‘ شامل کریں تو چونسٹھ سال کا طویل عرصہ امن‘ سلامتی اور بتدریج ترقی کا زمانہ تھا۔ دو بڑی طاقتیں‘ امریکہ اور سوویت یونین کے علاوہ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ انسانی اور قدرتی وسائل کی ترقی اور ریاست کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں معاونت کر رہے تھے۔ ترقی کا عمل سست تھا مگر اس میں تسلسل اور روانی تھی۔اخبار اور رسالے نکالنے کی محدود آزادیاں تھیں۔ انیس سو چونسٹھ میں آئین بنا اور دو متواتر انتخابات بھی کرائے گئے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت نہ تھی‘ مگر غیر رسمی طور پر سیاسی دھڑے مجلس شوریٰ میں موجود تھے۔ ان میں کچھ خواتین ‘ کمیونسٹ دانشور‘ ملا حضرات اور قبائلی سردار افغان معاشرے کی نمائندگی کرتے تھے۔ سب ریاستی ادارے فعال اور مضبوط ہو رہے تھے۔
تفصیل کیلئے گنجائش نہیں کہ موثر‘ مضبوط اور تاریخی ریاست کو کیسے تباہ کیا گیا۔ شاہی خاندان میں سے ظاہر شاہ کے کزن سردار محمد دائود نے ماسکو کی تربیت یافتہ فوج کا سہارا لے کر ریاست پہ اس وقت قبضہ کر لیا جب بادشاہ اٹلی میں سالانہ چھٹیاں گزار رہے تھے۔ افغانستان کی ریاست کی تباہی کی ابتدا انیس سو تہتر میں بادشاہت ختم کرنے سے شروع ہوئی۔ سرداردائود نے کون سی جمہوریت قائم کرنی تھی‘ شخصی حکمرانی کی کاوش میں خود کو‘ خاندان کو اور افغانستان کو تباہ کر ڈالا۔ ان کیخلاف سوویت یونین کے قریب المرگ اشتراکی رہنما ”انقلاب‘‘ لے آئے‘ جو بنیادی طور پر ان کے ایما پر فوجی بغاوت تھی۔ سامنے کٹھ پتلی مقامی اشتراکی حکومت تھی‘ جو کئی حریف دھڑوں میں بٹی‘ اقتدار کی جنگ لڑتی اور خوابی نظریاتی دنیا میں گم رہتی۔ سوویت یونین کی پشت پناہی میں افغان معاشرے کو جدید‘ ترقی پسند اور اشتراکی تعمیرِ نو کے دھارے میں ڈھالنے کے انقلابی نشے میں دھت جعلی حکومت کیخلاف مزاحمت نے اس قدر زور پکڑا کہ ماسکو میں بیٹھے اشتراکیوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ اپنی ساکھ‘ انقلابی سرمایہ کاری‘ اور افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بچانے کیلئے وہ خود میدان میں کود پڑے۔ انہیں تو برطانوی راج کی جنگوں کا علم تھا اور انکے انجام کا بھی‘ مگر طاقت کی کہتے ہیں اپنی ہی منطق ہوتی ہے۔ دس سال جنگ کرنے اور پندرہ ہزار فوجی مروانے کے بعد کچھ ہوش آیا تو واپسی کی راہ لی‘ مگرافغان ریاست کی تعمیر کے دو متضاد نظریوں نے جو کچھ گزشتہ نصف صدی میں بن پایا تھا‘ تباہ کر ڈالا۔
باقی تباہی مجاہدین کی باہمی جنگ اور طالبان کے سابق دور میں خانہ جنگی نے کردی۔ طالبان اور مجاہدین افغان ریاست کو اسلامی اور شرعی ریاست بنانے کے روایتی نظریات کے داعی رہے۔ نظریہ جو بھی ہو‘ مگر ریاست کے لیے فوج‘ پولیس‘ عدالتیں‘ تعلیمی اور صحت عامہ کا نظام‘ سڑکیں‘ بجلی‘ پانی‘ زراعت اور صنعت کا نظام اور یہ سب کچھ چلانے کے لیے نوکر شاہی اور حکومتی ادارے ہوتے ہیں۔ وہ جب تباہ ہوئے تو پھر دوبارہ ان کا زندہ کرنا آسان نہ رہا۔ یہی حال ہم آج لیبیا‘ شام‘ عراق اور یمن کا دیکھتے ہیں۔ ذہن میں کوئی شک نہیں کہ ان ملکوں میں تباہی لانے والوں کو علم تھا کہ ایک دفعہ ریاست ٹوٹ گئی تو تعمیر ناممکن ہو گی۔ ثبوت تو موجود نہیں‘ کچھ اندازہ ہے کہ ارادہ یہی تھا۔ نو گیارہ ہوا تو افغانستان کی شامت آ گئی۔ اس واقعے میں ایک بھی افغان ملوث نہیں تھا۔ اس المیے کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ میں کہیں کوئی ایسے شواہد مجھے نہیں دکھائی دیئے کہ طالبان کی قیادت کو ان حملوں کے بارے میں پیشگی علم تھا یا وہ کسی ایسی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ ان کا جرم یہ ٹھہرا کہ وہ القاعدہ کی قیادت کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ جدید تاریخ کی خوفناک جنگ افغانستان پر مسلط کی گئی۔ طالبان کی حکومت یا اسلامی امارات میں پہاڑوں‘ صحرائوں اور وادیوں میں تحلیل ہو گئی۔ طالبان سے متحارب وارلارڈز بہت خوش تھے۔ اسلحہ‘ دولت اور اقتدار نے بیس سالہ جنگ میں انہیں‘ امریکہ اور اس کی اتحادی طاقتوں کا غلام بنائے رکھا۔ امریکہ نے کئی بار حکمت عملی بدلی‘ اہداف بدلے‘ اور آخر میں انہیں کہنا پڑا کہ یہ فضول کی جنگ تھی‘ پہلے نکل آتے تو بہتر تھا۔ وہ جمہوری اور آئینی ریاست جس کی بنیاد دو دہائیاں پہلے رکھی گئی تھی‘ اب بکھرتی نظرآرہی ہے۔ ان کے شماریات کے مطابق ایک کھرب ڈالرز اس منصوبے پر صرف ہوئے‘ امریکہ کے اڑھائی ہزار اور اتحادی ممالک کے آٹھ ہزار فوجیوں کی لاشیں اٹھیں۔ امریکی اور برطانوی حیران اور پریشان ہیں کہ جس فوج کی تشکیل میں بیس سال لگائے‘ اس کی تربیت کی اور اسلحہ پر تراسی ارب ڈالرز خرچ کئے‘ موٹر سائیکلوں پر سوار طالبان کے حملوں کی تاب کیوں نہ لا سکی۔ حضور! آپ تاریخ اور افغان معاشرے کی ساخت سے نابلد تھے‘ ریاستیں مصنوعی طریقوں سے نہیں بنتیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ