نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیر غازی خان شہر کی ایک عظیم شخصیت :شیخ فیض محمد||ساجد منصور قیصرانی

پنجاب کی دوسری لیفٹننٹ گورنر کونسل 3 جنوری 1910 کو وجود میں آئی۔ اس میں پہلی مرتبہ پانچ منتخب نمائندے بھی شامل تھے۔ اس میں ڈیرہ غازی خان سے نواب بہرام خان مزاری ممبر تھے۔
ساجد منصور قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیر غازی خان شہر کی ایک عظیم شخصیت :شیخ فیض محمد (1962-1893)

ڈیرہ غازی خان شہر نے انیسویں صدی میں ایک ایسی بڑی شخصیت پیدا کی جو بیسویں صدی میں تقریباً چالیس سال تک ملکی افق پر ایک ستارے کی طرح جگمگاتی رہی۔ وہ پچیس سال تک پہلے متحدہ پنجاب اور پھر مغربی پنجاب کی صوبائی کونسلوں اور اسمبلیوں کے رکن رہے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ بلا مقابلہ مغربی پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ہوئے۔ وہ بہاولپور ہائی کورٹ کےآخری چیف جسٹس رہے اور مغربی پاکستان کے قیام کے بعد اس کے پہلے ایڈووکیٹ جنرل۔ پورا ہندوستان انہیں آئینی امور کا ماہر تسلیم کرتا تھا اور اہم آئینی امور پر ان کی رائے لی جاتی تھی۔ علامہ اقبال ، حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین جیسے لیڈروں سے ان کے ذاتی مراسم اور دوستی تھی۔ اس عظیم شخصیت کا نام تھا شیخ فیض محمد۔
شیخ فیض محمد بیسویں صدی کے اوائل سے لے کرچھٹی دہائی تک ڈیرہ غازی خان کے ممتاز ترین فرد تھے۔ وہ 1893 میں ڈیرہ غازی خان شہر کے ممتاز شیخ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے داد ا ریاست بہاولپور کے چیف جج اور والد شیخ غلام حیدر بہاولپور ریاست کے ریوینیو افسر تھے۔ والد کی بہاولپور ملازمت کی وجہ سے شیخ فیض محمد کا بچپن بہاولپور میں گزرا۔ انہوں نے صادق ڈین ہائی سکول بہاولپور سے میڑک کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے ایف سی کالج لاہور داخل ہو گئے۔ وہاں سے گریجوایشن کرنے کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کیا اور واپس ڈیرہ غازی خان آ کر اپنی قانون کی پریکٹس کا آغاز کیا۔ وہ ڈیرہ غازی خان کے پہلے مسلم وکیل تھے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔
1932 سے 1937 تک وہ ڈیرہ غازی خان میں پبلک پراسیکیوٹر رہے۔ شیخ فیض محمد نے 1930 کی دہائی میں اپنی قانون کے پریکٹس کے ساتھ ساتھ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1924 میں انہیں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا رکن بنایا گیا ۔
May be an image of 1 person
پنجاب میں پہلی صوبائی سطح پر قانون ساز باڈی کا قیام 1897 میں ہواجسے لیفٹننٹ گورنر پنجاب کونسل کا نام دیا گیا۔ اس کا پہلا اجلا س لاہور میں یکم نومبر 1897 کو ہوا جس کی صدارت لیفٹننٹ گورنر سر ولیم میک ورتھ ینگ نے کی۔ بعد میں سر چالس منٹگمری، سر ڈینزل چارلس اِبیٹسن ،سر لوئی ولیم ڈین، سر مائیکل او ڈائر ، اور پھر سر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن بھی پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر کے طور پر کونسل کے صدر رہے۔ نواب سر امام بخش خان نے 1897 کی کونسل میں ڈیرہ غازی خان کی نمائندگی کی۔ اس کونسل کے تمام ممبر نامزد کئے گئے تھے۔
پنجاب کی دوسری لیفٹننٹ گورنر کونسل 3 جنوری 1910 کو وجود میں آئی۔ اس میں پہلی مرتبہ پانچ منتخب نمائندے بھی شامل تھے۔ اس میں ڈیرہ غازی خان سے نواب بہرام خان مزاری ممبر تھے۔ پنجاب کی تیسری لیفٹننٹ گورنر کونسل 4 جنوری 1913 کواور چوتھی لیفٹننٹ گورنر کونسل12 جون 1916 کو وجود میں آئی۔ ان میں بھی ضلع ڈیرہ غازی خان کی نمائندگی نواب سر بہرام خان مزاری نے کی۔
1921 میں پنجاب میں لیفٹننٹ گورنر کونسل کی بجائے پنجاب لیجسلیٹو کونسل قائم کی گئی۔ اس میں ڈیرہ غازی خان کی نمائندگی سردار علن خان دریشک اورسردار جمال خان لغاری نے کی۔ دوسری لیجسلیٹو کونسل 2 جنوری 1924 میں وجود میں آئی ۔ شیخ فیض محمد پہلی مرتبہ الیکشن جیت کر کونسل کے رکن بنے۔ ان کے علاوہ ڈیرہ غازی خان سے دوسرے منتخب رکن خان بہادر سردار محمد جمال خان لغاری تھے۔ 1927 کی کونسل میں بھی شیخ فیض محمد اور سردار محمد جمال خان لغاری نے الیکشن جیت کر اپنی نشست برقرار رکھی۔ 1930 میں شیخ فیض محمد، سردار بہادر خان اور خان بہادر سردار محمد جمال خان لغاری کونسل کےر کن منتخب ہوئے۔ اس طرح شیخ فیض محمد نے الیکشن جیت کر 1924 سے 1937 تک اپنی نشست برقرار رکھی۔
پنجاب قانون ساز اسمبلی کا قیام 1937 میں عمل میں آیا۔ اس کیلئے انتخابات 1936 میں ہوئے۔ اس میں ڈیرہ غازی خان سے شیخ فیض محمد اور خان بہادر سردار محمد جمال خان لغاری کے علاوہ پہلی مرتبہ تونسہ کے خواجہ غلام مرتضیٰ خان ، سردار محمد اعظم خان مزاری اور خان بہادر سردار محمد حسن خان گرچانی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ خان بہادر چوہدری سر شہاب الدین اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ہوئے ۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ پھر اسمبلی نے لیفٹننٹ کرنل سر سکندر حیات کو پنجاب کا پہلا وزیرِ اعظم منتخب کیا۔ نئی کابینہ میں ڈیرہ غازی خان سے منتخب رکن خان بہادر سردار محمد جمال خان لغاری کو پبلک ورکس کا وزیر بنایا گیا، جبکہ شیخ فیض محمد کو لوکل گورنمنٹ اور پبلک ورکس کا پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ حکومتِ برطانیہ نے شیخ فیض محمد کو ایم بی ای اور خان بہادر کے خطابات سے بھی نوازا۔
دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے 1946 تک دوبارہ الیکشن نہ ہو سکے اور یہی اسمبلی کام کرتی رہی۔
1946 کے انتخابات میں ڈیرہ غازی سے منتخب ہونے والوں میں خان بہادر شیخ فیض محمد کے علاوہ نواب سر جمال خان لغاری، عطا محمد خان بزدار، اور سردار بہادر خان دریشک شامل تھے۔

14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اور اس کے ساتھ ہی 1946 میں منتخب ہونے والی اسمبلی کو دو حصوں مغربی پنجاب قانون ساز اسمبلی اور مشرقی پنجاب قانون ساز اسمبلی میں تقسیم کردیا گیا۔ اور اس طرح ڈیرہ غازی خان سے منتخب ہونے والے تمام اراکین مغربی پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے۔ نئی اسمبلی نے خان بہادر شیخ فیض محمد کو بلا مقابلہ مغربی پنجاب اسمبلی کا پہلا سپیکر منتخب کر لیا۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ مغربی پنجاب کے پہلے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ۔

خان بہادر شیخ فیض محمد25 جنوری 1949 کوپنجاب اسمبلی کے تحلیل ہونے تک پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے۔ اس طرح شیخ فیض محمد الیکشن جیت کر 1924 سے 1949 تک مسلسل 25 سال پنجاب میں صوبائی کونسلوں اور اسمبلیوں کے رکن رہے۔ اسمبلی کے تحلیل ہونے پر شیخ فیض محمد نے اپنی پوری توجہ اپنی وکالت کی طرف مرکوز کر دی۔ انہوں نے بعض بہت اہم کیسوں پر کام کیا ، جن میں لیاقت علی خان قتل کیس میں حکومت کی طرف سے پیروی اور راولپنڈی سازش کیس میں جنرل اکبر خان کی وکالت شامل ہیں۔
1954 میں شیخ فیض محمد پانچ سال کیلئے بہاولپور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ وہ ریاست بہاولپور کے آخری چیف جسٹس تھے۔ 1958 میں انہیں مغربی پاکستان کا پہلا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا۔
اس سے پہلے وہ 1931 سے لے کر 1934 تک اور پھر 1940 سے 1945 تک ڈیرہ غازی خان شہر کی میونسپل کمیٹی کے صدر رہے۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل پندرہ سال تک ڈسٹرکٹ بورڈ ڈیرہ غازی خان کے ممبر رہے۔
ان کی وفات 19 فروری 1962 کو ہوئی اور انہیں ڈیرہ غازی خان میں ملا قائد شاہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
May be an image of 1 person and indoor
شیخ فیض محمد بے شمار انسانی خوبیوں کے حامل تھے۔ اپنے ہم وطنوں کے علاوہ انگریز بھی ان کی ذہانت اور فہم و فراست کے معترف تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جس میں سیاستدانوں کے علاوہ ماہرینِ قانون، صحافی اور دانشور شامل تھے۔ ان کے ذاتی دوستوں میں علامہ اقبال، لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، سر سکندر حیات ملک خضر حیات ٹوانہ ، نواب افتخار حسین ممدوٹ، نواب مشتاق حسین گورمانی اور حمید نظامی شامل تھے۔
فقیر سید وحید الدین علامہ اقبال پر اپنی معروف کتاب” روزگارِ فقیر "میں لکھتے ہیں: ” فقیر سید افتخار الدین اور مرزا سلطان احمد میں بڑی گہری دوستی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی بھی ان دونوں سے کافی بے تکلفی تھی۔ خان بہادر شیخ فیض محمد صاحب ( سپیکر پنجاب اسمبلی) نے ان تینوں حضرات کی دوستی اور رفاقت کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ ایک مرتبہ انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس کی دو نشستوں میں ایک کی صدارت فقیر سید افتخار الدین نے کی اور دوسری کی مرزا سلطان احمد نے۔ پہلی نشست مغرب کی نماز سے پہلے ختم ہو گئی اور دوسری مغرب کی نماز کے بعد شروع ہو ئی۔ پہلی نشست میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی مشہور نظم ” شمع و شاعر” پڑھی تھی جو ان کی اردو نظموں میں خاص درجہ اور مقام رکھتی ہے۔ یہ نشست ختم ہونے کے بعد سب لوگ جلسہ گاہ سے نکلے، تو مرزا سلطان احمد نے ڈاکٹر صاحب سے کہا، ‘تم بھی عجب ہرجائی ہو ، کبھی میری بغل میں اور کبھی فقیر سید افتخار الدین کی بغل میں’۔ ڈاکٹر صاحب نے اس فقرہ کے جواب میں ذیل کے اشعار فی البدیہہ ارشاد فرمائے:
ہم نشینِ بے ریانم از رہِ اخلاص گفت
اے کلامِ تو فروغِ دیدہ برنائو پیر
درمیانِ انجمن معشوق ِ ہرجائی مباش
گاہ با سلطان باشی گاہ باشی بافقیر
گفتمش اے ہم نشیں معذوری دارم تر
در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستی اسیر
من کہ شمعِ عشق را در بزمِ جاں افروختم
سوختم خود را وسامانِ دوئی ہم سوختم
یہ اشعار اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوئے”۔ اس سے آپ شیخ صاحب کے مراسم، ان کی ادب شناسی، اور حافظے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
شیخ فیض محمد نے متحدہ ہندوستان میں مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کو جدید بنانے کے لئے بے شمار کوششیں کیں ، جس کا ذکر بہت کم کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں ان کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ انہیں شیخ صاحب کی تحریک سے دلی ہمدردی ہے۔
شیخ فیض محمد کو پورے برِ صغیر میں آئینی امور کا ایک بڑ ا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آئینی بحثوں میں انہوں نے اسمبلی کے اندر اور اخبارات میں گراں قدر حصہ ڈالا ۔ اس سلسلے میں ان کی خود قائدِ اعظم سے کئی معاملات پر اخبارت میں بحث ہوئی۔
اپنی سادگی، خلوص اور دیانت کی وجہ سے وہ اپنے علاقے کے لوگوں میں بے حد مقبول تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل 25 سال ان کے ووٹوں سے صوبائی سطح پر ان کی نمائندگی کرتے رہے۔
اگرچہ وہ یونینسٹ پارٹی میں شامل تھے ، لیکن مسلم لیگ کے ساتھ شروع سے ہی ان کی ہمدردیاں تھیں۔ 1946 کے انتخا بات میں ڈیرہ غازی خان سے پنجاب اسمبلی کیلئے مسلم لیگ کے امیدوار عطا محمد خان بزار کی بلا مقابلہ کامیابی انہیں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میرے والد ڈاکٹر احمد یار خان قیصرانی جو ان دنوں ضلعی مسلم لیگ کے صدر تھے بتاتے تھے کہ انہیں شیخ صاحب نے پیغام بھجوایا کہ عطا محمد خان بزدار کے مخالف امیدوار کے کاغذات میں سقم موجود ہے اور اگر آپ لوگ اس معاملے کو ریٹرننگ افسر کے سامنے اٹھائیں تو اس کے کاغذات مسترد ہو جائیں گے۔ ان کے مشورے پر عمل کیا گیا اور اس طرح عطا محمد خان بزدار بلامقابلہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔
شیخ فیض محمد دھیمے مزاج کے شخص تھے۔ ان کے صاحبزادے شیخ سجاد حیدر نے ایک قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ شیخ صاحب اپنی کار میں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے لاہور جا رہے تھے۔ ان کا ڈرائیور نیا تھا ا ور جوان تھا۔ اس نے ہائی وے پرکچھ دیر کار چلانے کے بعد اس کی رفتار بہت تیز کر دی۔ شیخ صاحب نےجو پچھلی نشست پر بیٹھے تھے، اسے کہا، بیٹا آہستہ چلو۔ اس پر ڈرائیور نے رفتار آہستہ کی مگر چند میل چلنے کے بعد رفتار پھر تیز کر دی۔ پھر شیخ صاحب نے اسے کہا ، بیٹا رفتار آہستہ کرو۔ ڈرائیور نے پھر رفتار آہستہ کی مگر پھر چند میل چلنے کے بعد رفتار تیز کر دی۔ اب شیخ صاحب نے اسے کہا، ذرا گاڑی سڑک کی ایک سائیڈ پر روکو۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی تو شیخ صاحب گاڑی سے اتر گئے اور اسے کہا، اگر تمہیں بہت جلدی ہے تو تم چلو میں بعد میں آ جائوں گا۔
شیخ صاحب وقتاً فوقتاً اخبارات میں اہم ملکی معاملات پر مضامین بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے 1950 اور 1951 میں کشمیر کے مسئلے پر سول اینڈ ملٹری گزٹ میں تین مضامین لکھے جنہیں بہت پذیرائی ملی۔

شیخ سجاد حیدر

شیخ فیض محمد کے اکلوتے صاحب زادے شیخ سجاد حیدر نے اپنی سیاست کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ انہوں نے ضلعی سطح پر تحریکِ آزادی کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ کئی سالوں تک ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر رہے۔ 1950 میں انہیں ڈیرہ غازی خان شہر کی میونسپل کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ ضلع اور ڈیرہ غازی خان شہر میں مسلم لیگ کی تنظیم میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔ انہوں نے نوائے وقت اور دوسرے اخبارات میں سیاسی موضوعات پر کالم بھی لکھے۔ 1960 کی دہائی اپنی آنکھوں کی خرابی کے باعث انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں کمی کر دی تاہم ان کی سماجی سرگرمیاں پوری عمر جاری رہیں۔ ان کی آخری بڑی سیاسی سرگرمی 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنا تھی، جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کی پیش کش ہوئی اور باوجود اس کے کہ وہ سمجھتے تھے کہ الیکشن میں پی پی پی جیت جائے گی ، انہوں نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔
شیخ سجاد حیدر بہت پڑھے لکھے، سمجھدار اور روادار شخص تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ہر شام ان کے گھر ان کے احباب کی ایک محفل سجتی تھی جس میں ضلع کے تقریباً تمام ممتاز افراد شریک ہوتے تھے۔ ان کے پرانے تحریک ِ پاکستان کے ساتھی توتقریباً ہر روز وہاں آتے تھے۔ ان میں ڈاکٹر احمد یار خان قیصرانی، عطا محمد خان بزدار، ملک محمد نواز، ابراہیم خان احمدانی ایڈووکیٹ، اور بہت سے اور لوگ شامل تھے۔ ڈاکٹر ارشاد نوحی اور انجنیئر محمد اسماعیل شہید بھی بعد میں ان محفلوں کے مستقل ممبر بن گئے۔ شیخ صاحب کی وفات دسمبر 1984 میں ہوئی۔
May be an image of 1 person, standing, outdoors and text that says 'University of Oxfor Bradmore Road Nurser The Entrance at rear of house'
شیخ سجاد حیدر کے اکلوتے بیٹے شیخ زعیم سجاد اب اپنے والد اور دادا کی روایات کو نبھا رہے ہیں۔ وہ مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور خاندان کے تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اب تو شیخ زعیم سجاد کے صاحبزادے سنی سجاد بھی اپنے والد کی ان کاموں میں معاونت کرتے ہیں۔ سنی سجاد ایک نہایت پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور انہوں نے لندن یونیورسٹی کے معروف سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز سے ڈیولپمنٹ اکنامکس میں ماسٹرز کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

ساجد منصور قیصرانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author