گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچپن میں بکرید کا پہلا دن تو قربانی اور گوشت کی تقسیم میں گزر جاتا مگر دوسرا دن اصل شغل میلہ ہوتا۔ پنجابی میں تو عید کے دوسرے دن کو ٹرو اور تیسرے کو مرو کہتے ہیں۔خیر ہم بھی گاٶں سے ٹرو والے دن نیا جوڑا اور نئیے جوتے پہنتے اور ہمارے ٹرو کے دن کے ٹور دیکھنے والے ہوتے۔ اس وقت ہم بازار کے لیے روانہ ہوتے لیکن بازار کا نام کم لوگوں کو پتہ تھا۔ جو پوچھتا کہاں جا رہے ہو ہم بتاتے۔۔۔دیرے ویندے پے ہاں ۔۔۔ ہماری نئی چپلیاں چیک مکیکاں آوازیں نکالتیں اور پہلی منزل دُلا حلوائی ہوتا۔وہاں سے حلوہ کھانے کے بعد پلازہ سینما کے سامنے سرکس اور موت کا کنواں کھیل دیکھتے ۔ راستے میں ایک ایک آنہ دے کر طوطے کی فال نکوالیتے۔ چونکہ ابھی شادی نہیں ہوئ تھی اس لیے شادی سے متعلق طوطے کی خبروں پر یقین کرتے جو ایک فراڈ تھا۔ پھر مداری کے بندر اور بکرے کے کرتب دیکھتے۔ آگے سرکس لگا ہوتا ٹکٹ لے کر اندر آ جاتے۔ سرکس میں لڑکیوں کے الٹے جمپ بہت مزہ کرتے اصل میں ہم یہی جمپ ہی دیکھنے جاتے ۔پھر ہم توپاں والے گیٹ سے چوگلہ پہنچتے جہاں مشھور فالودہ کی دکان تھی اور ہم فالودہ نوش فرماتے۔اگلی منزل بھاٹیہ بازار سے ٹاون ہال تھا۔ یہاں دیہاتوں سے آے ہوے چھوکرے ڈھول کے ساتھ ڈانس کررہے ہوتے اور ہمارے شھریوں کے دولی جھمر کی طرز پر شہنائی اور ڈھول بجاتے تو ہماری ٹولی دریس میں شامل ہو جاتی۔جب خوب تھک جاتے تو براستہ گھڑے بھن ۔کانجکیاںوالی بستی۔جیل اور شاہ سید منورشاہ سے سہ پہر تین چار بجے پیدل گھر آ جاتے۔شام کو سینما کا پروگرام بنتا جسے بائسکوپ بولتے اور رات کو لیٹ شو کے بعدگھر آتے۔ امن کا زمانہ تھا راستے میں سور ۔بھگاڑ۔گیدڑ تو مل جاتے دھشت گرد نہیں تھے بعد میں دھشت گردوں نے ان درندوں کی جگہ سنبھال لی۔اب کچھ امن ہوا تو ہے۔تیسرے دن چدھے کھیلنے کا گاٶں میں مقابلہ ہوتا اور شام کو بیٹ پر کبڈی یا دودہ۔۔۔ یوں عید گزر جاتی۔
.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ