رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا راستہ
ڈو تاں سارے جنگل آسن ترائے تاں سارے دریا
تحریر رئوف کلاسرا
آج نیند سے جاگا تو ایک خبر نے دل خوش کیا کہ سرائیکی کے بڑے شاعر رفعت عباس کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارگردگی سے نوازا گیا ہے۔
1980 کی دہائی میں سرائیکی کے شاعروں اور ادیبوں سے میرا تعارف کرانے والے نعیم بھائی تھے۔ ڈاکٹر اشو لال نعیم بھائی کے لاڈلے تھے اور نعیم بھائی ان کی شاعری اور فلاسفی سے متاثر تھے۔ جب نعیم بھائی نے گارشیا کے عظیم ناول “تنہائی کے سو سال “کا اردو ترجمہ کیا تو اس کا تعارف اشو لال سے لکھوایا۔
انہی دنوں ان سے کئی شاعروں کے نام سنے جن میں سائیں عاشق بزدار، عزیز شاہد، اشو لال، رفعت عباس کا نام بھی تھا۔ ( نام اور بھی کئی سرائیکی شاعروں اور ادیبوں کے ان سے سنے ) وہ ہر شاعر کی الگ سے مخصوص شاعری پر مجھے اکثر لیکچر دیتے رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے میں شاعری سے زیادہ نثر کو پسند کرتا تھا۔ پھر انہوں نے رفعت کی شاعری کی پہلی کتاب “پڑچھیاں اتے پھل” پڑھنے کو دی تو ان کے کچھ شعروں نے جیسے دل کو پکڑ لیا ہو۔ ان کے دو شعر تو ایسے تھے جو مجھے آج تک زبانی یاد ہیں جنہیں میں نے اپنی لکھی/تراجم کی کتابوں میں انتساب کے لیے استمعال کیے۔ عمر بھر یہی دو تین شعر ہی زبانی یاد ہوسکے۔ بلکہ یاد پڑتا ہے بہاء الدین یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی کلاس کے پہلے دن تعارف کے دوران کہا گیا کوئی شعر سنائیں تو یہی ایک شعر یاد تھا جو سنایا
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ
ڈو تاں سارے جنگل آسن ترائے تاں سارے دریا۔
اس کے بعد ان کا ایک اور شعر پڑھا جو کبھی نہ بھولا۔
اساں تاں پہلے ڈینہ دے رفعت جیویں ہاسے ہاسے
کینجھا ہک او سوہنڑا بندہ نال اساڈے رلیا۔
چند برس پہلے اس وقت کے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر شاہد صدیقی نے کہا کوئی سرائیکی شعر سنائیں۔ یہی شعر سنایا تو تڑپ اٹھے اور پھر رفعت عباس کی سب کتابیں ڈھونڈیں اور مجھے کہتے اب پڑھ کر سنائو۔اور ایک دن رفعت سے ملنے ملتان جا پہنچے۔
پھر ایک دن شاہد صدیقی نے کہا کسی اور سرائیکی شاعر کا کوئی شعر یا نظم سنائیں۔
میں نے اشو لال کی سرائیکی نظم “بیڑی کیویں بنڑدی اے” پڑھ کر سنائی تو ڈاکٹر شاہد صدیقی پھر تڑپ گئے۔ کہا اشو لال سے ملوائیں۔ پروگرام بنا کسی دن اکھٹے لیہ چلیں گے اور اشو سے ملیں گے۔
کئی دفعہ کہا اشو کی کتابیں ڈھونڈ کر دیں۔ میں نے ڈاکٹر محسن شہزاد قادر کو فون کیا تو اس کی مہربانی اس نے بھجوائیں۔
رفعت نے اس کے بعد بھی شاعری کی کمال کتابیں شائع کیں جن میں “جھومری جھم ٹرے”، “بھوندی بھوئیں تے” اور مقامی آدمی کا موقف شامل تھیں۔ ابھی سرائیکی کا ناول “لون دا جیون گھر”چھپا ہے جس نے سرائیکی ادب کو نیا رنگ اور نئی کہانی دی ہے۔
رفعت ہمارے خطے کا ایک بڑا شاعر اور نفیس انسان ہے۔ ایک عاجز، محبت کرنے والی مسکین روح ہے۔ رفعت اس سے پہلے لاہور پنجاب انسٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر ( پلاک) کا بڑا ادبی ایواراڈ لینے سے انکار کرچکے ہیں جس کے ساتھ تین لاکھ روپے نقد انعام بھی تھا۔ رفعت کا موقف تھا کہ وہ ایوارڈ ہمارے پنجابی ادیبوں اور شاعروں کے لیے تھا اور پنجابی میں بڑے بڑے لکھاری اور شاعر صاحبان تھے یہ انہیں ملنا چاہئے۔ وہ سرائیکی شاعر ہیں اور یہ ایوارڈ لینا پنجابی دوستوں کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کو ابھی بھی خطرہ ہے رفعت عباس کے اندر کا باغی یہ صدارتی ایوارڈ لینے سے کہیں انکاری نہ ہو جائے۔ انوار احمد صاحب نے درست لکھا کہ اسلم انصاری اور رفعت عباس جیسے ادیبوں اور شعرا کو یہ ایوارڈ دینے سے اس ایوارڈ کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔
سنا ہے ہمارے کچھ لاہور اور گردونواح کے ادبی دوستوں کو رفعت عباس کو اس ایوارڈ کے ملنے پر “شک” ہے اور وہ ناخوش بھی ہیں تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے رفعت ایک فقیر، درویش اور ملنگ انسان ہے۔ اسے کب ایوارڈز کی خواہش رہی ہے۔ رفعت جتنا بڑا شاعر ہے۔ اتنا ہی بڑا انسان ہے۔ اگر رفعت کو ایوارڈز یا ایوارڈز سے جڑے نقد انعامات کی خواہش ہوتی تو بھلا تین لاکھ روپے ایوارڈ سے یہ کہہ کر انکار کرتا کہ اس کے حقدار کچھ اور لوگ تھے۔۔
رفعت عباس ان دنیاوی چیزوں اور ایوارڈز سے ماروا انسان ہے۔ وہ کسی اور زمانے کی روح ہے۔ اس کے اندر کئی پرانے زمانے قید ہیں جو اس کی شاعری کےزریعے اپنی شناخت مانگتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو اسے پڑھ کر دیکھیں۔ اسے سمجھ کر دیکھیں۔ رفعت کو مل کر دیکھیں تو آپ کو لگے گا دراصل آج صدارتی ایوارڈ کی ساکھ اور عزت بڑھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ