سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان میں گزشتہ دنوں ساون کی ابھی فقط ایک بارش ہوئی اور عوام کے چہرے کھل اٹھے لیکن یہ خوشی اس وقت وا ہوگئی جب بجلی کے 4کھمبے گرنے سے نیو ملتان کے عوام کو میپکو نے بجلی اگلے روز آنے کی نوید سنادی۔ گرمی سے بے حال عوام واپڈا کے دفاتر کے چکر لگالگاکر تھک گئے جبکہ شاہ رکن عالم کے ایس ڈی او تو اس قدر سیخ پا نظر آئے اور برملا کہنے لگے کہ ہم سے جو ہوسکتا ہے وہ ہم کررہے ہیں اس سے زیادہ کی توقع نہ کی جائے۔ عوام نے واپڈا حکام کے بے تکے اور غیرتسلی بخش جواب پر جب اخبارات کے دفاتر رابطہ کیا تو میپکو کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا گیااور بجلی اگلے روز ہی آئی یعنی 24گھنٹے کے بعد۔ بجلی کے مہنگے مہنگے بل ادا کرنے کے باوجود جس تکلیف اور پریشانی سے عوام کو گزرنا پڑا کیا اس کا واپڈا یا میپکو نامی ادارہ کوئی ازالہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض اوقات کئی کئی دن بجلی بند رہتی ہے لیکن وہ بھی آفت یعنی ایسے موقع پر جب آفات کو کنٹرول کرنا عوام کے بس میں نہ ہو لیکن جلد ہی معاملات درست ہوجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو ایسا الٹا معاملہ ہے کہ بارش کی چند بوندیں ہی بجلی کے جانے کا موجب بن جاتی ہیں یہی نہیں بلکہ سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں۔ عوام ان حالات میں واپڈا نامی ادارہ سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب وہ عوام کو دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی ترین بجلی فراہم کررہے ہیں تو بہترین سہولیات کی فراہمی میں کیا امر مانع ہے۔ آخر کب تک عوام کو تھرڈ کلاس سروسز کی فراہمی کی جائے گی۔ کیا بہترین سہولیات کی فراہمی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے معیار زندگی پر نظر دوڑائیں تو وہاں اپنے عوام کو سہولیات کی فراہمی حکومتیں اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔ وہاں کے کائونسل ہائوسز خود ہی بچے کو تعلیم کے لئے نرسری میں داخلے کے لئے گھروں میں درخواست بھیجتے ہیں اور اب یہ والدین پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کس نزدیکی سکول میں داخل کروائیں۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم، صحت کے علاوہ بہترین سڑکیں، اعلیٰ معیار کی گروسری، سبزیاں اورگوشت وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے اور نرخ سرکاری ملتے ہیں۔ اگر بیکری آئٹمز زائد المیعاد ہوتے ہیں تو انہیں سٹور کے گیٹ پر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ کوئی ضرورت مند لے کر جانا چاہے تو لے جاسکتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ ناپ تول میں کمی، مہنگی اشیاء کی فراہمی جیسی شکایات اب معمول کی کارروائی محسوس ہوتی ہیں۔ بجلی، گیس، پانی جیسی بنیادی سہولیات بلاتعطل فراہم کی جاتی ہیں اور گندگی کا تو ان ممالک میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج تک نہیں سنا کہ سوائے کسی بڑی آفت کے آنے پر ان ترقی یافتہ ممالک میں بجلی گئی ہو مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اسی لئے تو عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دینے کی آج تک کسی نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی اسی لئے توپاکستانی عوام کے آج بھی پتھر کے دور میں رہنے کا گمان ہونا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، واسا، سوئی گیس، ٹیلی فون جیسے قومی اداروں میں بہتری اور اپ گریڈیشن کی طرف توجہ دینے کی زحمت کیونکر گوارہ نہیں کی جاتی۔ ان کے افسران لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے ان قومی اداروں کی بحالی اور اپ گریڈیشن کے لئے آواز کیونکر نہیں اٹھائی۔ قومی ادارے کسی بھی ملک کی پہچان ہوتے ہیں لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے آج تک ان اداروں کی بحالی اور ترقی بارے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ جب قرض کی مے پی جائے گی تو پھر ان اداروں کی بہترین کی پالیسی کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ان قومی اداروں کو جان بوجھ کر دیوالیہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا تاکہ اپنی ذاتی ایئر سروسز اور بس سروس کو کامیاب کروایا جاسکے۔ یورپ میں لوگ ذاتی گاڑیوں کی بجائے سرکاری طور پر چلنے والی بسوں اور ریلوے سروس پر سفر کرنا بہتر خیال کرتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں چونکہ عوام کو بہتر سفری سہولیات ہوں یا بجلی، گیس، واسا، ٹیلیفون اوربہتر سفر کی فراہمی حکومتوں کے کبھی اصل ایشوز نہیں رہے اسی لئے ان کو آج کوڑیوں کے بھائو بیچنے کی باتیں دھڑلے کے ساتھ کی جارہی ہیں یہی نہیں بلکہ Buy one get one free جیسی پرکشش آفرز کرکے قومی اداروں کی تحقیر کی گئی جس پر محب وطن لوگ تو خون کے آنسو روئے۔
درحقیقت یہی وہ سوچ اور رویے ہیں جن کی بنا پر آج تمام قومی ادارے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ سہولیات اور سروسز بہتر بنانے کی بجائے مہنگے داموں انہیں فروخت کرنے پر ہی تمام تر توجہ مرکوز ہے۔ ایسے میں اگر عوام اداروں سے بہترین سہولیات کی فراہمی کی توقع کرتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ آخر حکومت بلوں کی مد میں لمبے چوڑے پیسے عوام سے بٹورتی ہے اور ہر پندرہ روز بعد بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاتا ہے، یہ سب کدھر جاتا ہے جبکہ کئی مرتبہ واپڈا کو اس کے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے بیل آئوٹ پیکیجز بھی حکومتوں کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود معاملات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف ہی جاتے نظر آرہے ہیں۔ اگر یہاں بارش کے بعد بجلی جانے کی بات کی جائے تو یہ سوال بڑا اہم ہے کہ واسااور میپکو،سوئی گیس، ٹیلیفون، واپڈا مل کر ایک ایسی حکمت عملی کیونکر نہیں بناتے جس سے ایک طرف سیوریج کا نظام بہتر کیا جاسکے اور دوسرا بارش اور آندھی کے موسم میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے لیکن اس کے لئے ایک Mutual Understanding کی بے حد ضرورت ہے۔ اسی طرح عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے کہ بارش کے دنوں میں اپنے گٹروں کی صفائی پر دھیان دیں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ ہم عوام سب کام کرنے کی توقع حکومت سے ہی کرتے ہیں کہ وہ سب معاملات کو دیکھے حالانکہ بہت سے معاملات انفرادی اور محلے کی سطح پر بھی درست کئے جاسکتے ہیں۔ اگر اب یہاں عوام غریب ہونے کی بات کی جائے تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ انتہائی بدترین اور مہنگائی کے مارے عوام نے جولائی میں صرف ٹیوٹا کی 6ہزار 775گاڑیاں کیسے بک کروالیں۔ اگرچہ یہ سب بھرے پیٹ کے چونچلے ہیں اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ حکومت قومی اداروں کی ازسرنو تشکیل کی طرف توجہ دے اور واپڈا نامی سفید ہاتھی کو عوام کی زندگیاں مزید مشکل بنانے سے روکے کیونکہ اگر اب بھی جب عوام اپنی آمدن کا 60فیصد سے زائد بجٹ یوٹیلٹی بلوں کی مد میں خرچ کرتے ہیں، ان کو بہترین سہولیات فراہم نہیں کی جاسکتیں تو پھر عوام کیونکر طویل اور غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتیں کیونکہ بجلی کی ٹرانسمیشن کا نظام جدید ترین تقاضوں کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ ایس ڈی او ہو یا چیئرمین واپڈا یا لائن مین ہو، ہر ایک کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے علاقے میں عوام کو بجلی کی بہترین سہولیات کی فراہمی یقین بنائیں اور اگر عوام کو کوئی پریشانی یا کرب سے گزرنا پڑا تو اس کی ذمہ دار اس علاقہ کی انتظامیہ ہوگی جس پر فالٹ کے تناسب سے جرمانہ مقرر کیا جانا چاہیے تبھی جاکر واپڈا ہو یا کوئی دوسراکوئی ادارہ، عوام کو بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گا کیونکہ واپڈا ملازمین تو پہلے ہی مفت یون کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ عوام مہنگی ترین بجلی خرید رہے ہیں اور ان پر انہیں طویل لوڈشیڈنگ کا تحفہ بھی ساتھ بونس میں دیا جاتا ہے۔ حماد اظہر جو بجلی اور توانائی کے وفاقی وزیر اور ایک پڑھے لکھے شخص ہیں اب ذرا عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی طرف بھی توجہ دیں کیونکہ حالات کے ستائے ہوئے عوام اب کسی قسم کا کوئی ڈرامہ برداشت نہیں کریں گے۔ایک طرف دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی 54فیصد آبادی ڈیجیٹل دور میں داخل ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 76فیصد ڈیجیٹل ایرا میں داخل ہونے والی آبادی کا تعلق کراچی، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان سے جبکہ 24فیصد کا دیگر شہروں سے تعلق ہے۔ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز کی 54فیصد آبادی ڈیجیٹل ایرا میں داخل ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود واپڈا، واسا، ٹیلیفون، ریلوے کی جانب سے جو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اس کے پاس پتھر کے دور میں رہنے کا گمان ملتا ہے۔اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرط پر بجلی سبسڈی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد سلیب 50سے بڑھاکر 100یونٹ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایسے میں عوام حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ تو آئی ایم ایف کے ایما پر حکومت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے لیکن پھر سہولیات مہنگی ترین بجلی خریدنے والوں کو فراہم کرنے سے کیونکر انکاری ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر