رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں طالبان کی فتوحات کی اس تیزی کی توقعات نہ تھیں۔ صرف دس روز کے اندر انہوں نے شمال اور مغرب کے گیارہ صوبوں کے مراکز پر اپنا روایتی جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ کہیں بھی حکومتی فوج نے ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا۔ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد بھاگ کھڑے ہوئے۔ زمین پر مقابلے کے لیے فوجی دستے نہ ہوں تو ہوائی جہازوں سے بم باری شہری آبادی کی تباہی تو ضرور کر سکتی ہے‘ جو اس نے کی ہے‘ مگر مقامی طاقت کا توازن ابھی تک نہیں بگاڑ سکی۔ شہری آبادی کہیں بھی دنیا میں اسلحے سے لیس لشکروں کے سامنے مزاحمت نہیں کرتی‘ جب تک اس کو منظم نہ کیا جائے‘ تربیت نہ دی جائے اور اس کی قیادت نہ کی جائے۔ اپنے طور پر شہری وہی کرتے ہیں‘ جو افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں کے باسیوں نے کیا ہے۔ جو کچھ اٹھا سکتے تھے‘ اٹھایا اور شہر خالی کرنے شروع کر دیئے۔ جو مجبور ہیں‘ محصور ہو گئے ہیں‘ اور اپنے گھروں میں ہی رہنا چاہتے ہیں‘ وہ ابھی تک ایسا ہی کر رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سہمے ہوئے تو ہیں‘ اور خوف بھی ان پر طاری نظر آتا ہے‘ مگر صدر اشرف غنی اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو بچانے کے لیے کوئی اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ افغان فوج کی پسپائی کے مناظر کو دیکھیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر وہ تحریک نہیں‘ وہ جذبہ نہیں‘ جو طالبان کے جذبے کا مقابلہ کر سکے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو کھربوں کا سرمایہ لگایا ہے‘ اور سکیورٹی کے اداروں کی تعمیر کی ہے‘ اتنا تو سوویت یونین نے نہیں کیا تھا‘ لیکن اس وقت کی افغان فوج نے مجاہدین کو‘ جن کی حمایت سارا مغرب کر رہا تھا‘ جلال آباد پر قبضہ نہیں کرنے دیا تھا۔ مجاہدین اور افغان فوج کی سب سے بڑی لڑائی جلال آباد پر ہوئی تھی‘ مجاہدین کو پسپا ہونا پڑا تھا۔
ایک مغربی چینل پر کابل میں مقیم ایک تجزیہ کار کو افغانستان کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے سنا۔ کہہ رہی تھیں: فرق یہ ہے کہ طالبان مرنے کیلئے تیار ہیں‘ اور اس کے برعکس افغان فوجی مرنا نہیں چاہتے‘ طالبان کو دیکھتے ہی دوڑیں لگا دیتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی حکومت کیلئے اپنی جان کی قربانی کیوں دیں۔ عجیب بات ہے کہ صدر اشرف غنی تین لاکھ پچاس ہزار فوجیوں پر مشتمل طاقت کے ہوتے ہوئے پرانے وارلارڈز سے التجائیں کر رہے ہیں کہ میدان میں اتریں اور حکومت کو بچائیں۔ وہ عوام میں بھی‘ جہاں ممکن ہے‘ اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں اور تلقین فرما رہے ہیں کہ طالبان‘ جنہیں وہ دہشتگرد کہتے ہیں‘ کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اتنی بڑی فوج‘ وہ بھی مغربی طاقتوں کی تربیت یافتہ اور ان کی مسلح کردہ‘ کہاں گئی؟ مغربی تزویراتی منصوبہ سازوں‘ دفاعی مفکروں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دانشوروں سے یہ سوال بنتا ہے کہ کئی ہزار ارب ڈالرز صرف کرنے اور اتنی بڑی فوج تیار کرنے کے بعد بھی طالبان کیسے جھاڑو پھیر رہے ہیں اور فوج کا صفایا کر رہے ہیں۔
جواب کوئی نہیں بن پڑتا‘ کسی اور پہلو سے بات نکال کر ہماری ”بیوفائیوں اور دغابازیوں‘‘ کا ذکر دکھ کے ساتھ کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ لیکن سب نہیں‘ مغربی مبصرین اور صحافیوں میں جنہوں نے افغانستان میں کچھ وقت گزارا ہے یا کچھ علمی گہرائی حاصل کی ہے‘ وہ امریکہ کی پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ فوج تو بنائی‘ پولیس بھی دوبارہ منظم ہوئی‘ چمکتی وردیاں بھی عطا کیں‘ مگر انہیں لڑایا کس کے ساتھ جا رہا ہے۔ افغانوں کے ساتھ‘ اور افغان بھی وہ جو نہ تو شہروں میں امریکہ کی جنگی معیشت سے فیض یاب ہوئے اور نہ ہی قصبوں‘ دیہاتوں میں۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے افغانستان کے دوردراز علاقوں میں بھی چھوٹی چھوٹی چھائونیاں بنائیں۔ وہیں سے وہ مشتبہ طالبان ٹھکانوں پر بکتربند گاڑیوں کی آڑ میں یا ہیلی کاپٹر کی کھڑکیوں سے گولیاں برساتے۔ مقابلہ وقت اور گھڑی کا تھا‘ جن کے ہاتھوں میں آسمان میں تیرتے سیاروں سے منسلک گھڑیاں اور راستہ بنانے کیلئے ہمہ وقت کام کرنے والے آلات تھے‘ وہ افغانستان کو ”پُرامن‘‘ بنانے کیلئے اور کتنی جانوں کی قربانیاں دے سکتے تھے۔ فیصلہ تو بارک اوباما نے 2014میں سنا دیا تھا‘ مگر طاقتور امریکی مقتدرہ نے مزید وقت‘ اسلحہ اور فوج مانگ لی۔ نتیجہ وہی نکلا‘ جو دیکھ رہے ہیں۔ مزاحمتی جنگوں میں اگر ‘نہ ہار نہ فتح‘ کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم رہے تو مداخلتی فوج کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں‘ مورال گرنے لگتا ہے‘ فوجی سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان دوردراز ملکوں میں کیوں اپنا خون اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔
افغان حکومت کو بات اس وقت سمجھ آ جانی چاہئے تھی جب صدر ٹرمپ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ خود براہ راست طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ کابل کی طرف سے سہما سا احتجاج‘ اور درخواستیں کہ دیکھیں ”ہمارا کیا بنے گا‘‘ امریکہ کے فیصلے کو تبدیل نہ کر سکے۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ صدر اشرف غنی کو ملا۔ وہ بھی تو طالبان سے بات چیت کو معنی خیز بنا سکتے تھے۔ اقتدار کی خواہش اندھا کردیتی ہے۔ آخری وقت تک لڑنے کی جرأتمندی کے بیکار نعرے گھڑنے سے زمینی طاقت کا توازن تو نہیں بگاڑا جا سکتا۔ امن معاہدہ ہو یا طالبان کابل کا گھیرائو کرکے دبائو ڈالیں‘ اشرف غنی کو امریکہ میں پناہ لینا ہی پڑے گی۔ جیسے ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوج کے حامی جہازوں میں لاد کر امریکہ اور دیگر ملکوں میں لائے جا رہے ہیں‘ اسی طرح کسی دن سنیں گے کہ صدر غنی ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
آج کل پھر سے طالبان کی ”دہشتگردی‘‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کو لاحق خطرات کی خبریں اور تبصرے مغربی میڈیا پر نمایاں کئے جارہے ہیں۔ بیس سالہ مغربی جنگ نے افغانستان میں کتنے لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا؟ چلو لاکھوں افغانوں کی ہلاکت کی خبروں کی صداقت پرشک کیا جا سکتا ہے‘ لیکن خود امریکی ذرائع چالیس ہزار طالبان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اس جنگ میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ رات کو دیہاتیوں کے گھروں میں گھس کر حملہ کرنے اور چادر و چاردیواری کی روایتی حرمت کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو کیا افغان بھول پائیں گے؟ اور کیا کابل میں متعین امریکہ کے اشاروں پہ ناچنے والوں کو افغانستان میں خون خرابے کا ذمہ دار قرار نہیں دیں گے؟ کچھ رپورٹروں کو چیختے ہوئے سنا کہ طالبان تو انتقام پر اتر آئے ہیں۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ قبائلی معاشروں میں انتقام امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کیلئے ایک بنیادی اصول ہوا کرتا ہے۔ ہماری تو خواہش اور دعا ہے کہ وہ طالبان اگر ظفرمند ہوں تو سب کو معاف کردیں‘ مگر روایتی معاشروں میں دعائوں اور خواہشوں کی باریابی کم ہی ہوتی ہے۔
افغانستان کے حالات تیزی سے بگڑ اورتبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایک بارپھر افغانستان تاریخ کے چوراہے پر ہے۔ یہاں اگلے چند مہینوں میں جو بھی ہوگا‘ امن یا جنگ‘ ہمارے خطے کی سیاست‘ سلامتی اور مستقبل میں ترقی کے امکانات کو متاثر کرے گا۔ ہماری پالیسی درست ہے کہ ہم افغانستان میں کسی کی جنگ کا آلہ کار نہیں بنیں گے اور نہ مداخلت کریں گے۔ افغان جانیں اوران کاملک جانے۔ ہم امن‘ مذاکرات اورعقل کی راہ دکھانے میں مددگار ہوسکتے ہیں‘ تو وہ ہمیں اپنے قریب دیکھیں گے۔ امریکہ نے بھی یہی کہا کہ افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داری افغانوں کی ہے۔ طالبان کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ لشکروں سے اپنا ملک فتح کرکے نہ وہ چین سے حکومت کر سکیں گے اور نہ ہی دنیا انہیں قانونی جائزیت دے گی۔ ایسے نظام اور حکومت کی ضرورت ہے‘ جس میں سب دھڑے اور لسانی اقلیتیں شامل ہوں۔ افغانستان اور اس کے عوام پر پانچویں جنگ مسلط کرنا بہت بڑا ظلم ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر