نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ووٹرز کا امتحان کب تک؟||احمد اعجاز

پی ایم ایل این کی قیادت دَبائو سے نکلنے کی بجائے ،ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں لگ پڑی ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں اس جماعت کی نمائندگی کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے لوگوں پر تنقید شروع کردیتے ہیں
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت پی ایم ایل( این) شدید دبائو میں ہے اگرچہ قیادت یہ تاثر دے رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔مگر ایسا نہیں۔اس وقت جس دبائو کا مسلم لیگ ن کو سامنا ہے ،یہ پانامہ سیکنڈل کا نتیجہ ہے۔پانامہ سیکنڈل کے نتیجے میں پی ایم ایل این کی دوہزار تیرہ میں قائم ہونے والی حکومت نے اپنی مُدت تو پوری کی ،مگر میاں نوازشریف بطور وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہ کرسکے۔
اگر دوہزار سولہ میں جب پانامہ سیکنڈل سامنے آیا تھا،پی ایم ایل این کی حکومت ختم ہوجاتی تو اس وقت یہ دبائو کا شکار بھی نہ ہوتی۔آج سے صورتِ حال بہت مختلف ہوتی۔پانامہ سیکنڈل نے محض میاں نوازشریف کو وزیرِ اعظم نہ رہنے دیا،شریف خاندان میں دراڑ بھی ڈال دی۔شریف خاندان میں دراڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی میں تقسیم دَر آئی۔پانامہ سیکنڈل سے عام انتخابات تک میاں نوازشریف اور اُن کی بیٹی مریم نوا ز پر کڑا وقت رہا۔
دوہزاراَٹھارہ کے بعد میاں نوازشریف کے علاج کی غرض سے لندن جانے تک،باپ بیٹی پر کڑا وقت برقرار رہا۔میاں نواز شریف لندن سِدھار گئے،مریم نواز کو تازہ ہوا میسر آگئی تو باپ بیٹی کو وہ سکھ کاسانس مل گیا،جس کی دونوں کو اَشد ضرورت تھی۔پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم قائم ہوا تو میاں نوازشریف اور اُن کی بیٹی کو اپنے جذبات کے مکمل اظہار کا موقع ملا۔اس دوران میاں نوازشریف کی جانب سے سخت بیانات نے پارٹی اور شریف خاندان کے لیے مشکلات کو جنم دینا شروع کردیا۔
پھر آہستہ آہستہ دونوں کے مؤقف میں ٹھہرائو او رسطحی جذباتیت کم ہونا شروع ہوئی،اس دوران ضمنی انتخابات میں مریم نواز نے بہترین طریقے سے پارٹی کو مضبوط کیے رکھا اور بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا۔لیکن جب پی ایم ایل این کو کراچی کے ضمنی الیکشن ،قبل ازیں گلگت بلتستان کے انتخابات،پھر بعدازاں آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات اور سیالکوٹ میں پی پی اَڑتیس کے الیکشن میں پے دَرپے شکست کا سامنا ہوا تو ووٹرز دبائو کا شکار ہوتا چلا گیا۔
 مسلم لیگ (ن) کی قیادت پانامہ سیکنڈل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دبائو کو ووٹرز میں منتقل کر بیٹھی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ووٹرز نے پی پی اَڑتیس میں اس دبائو کا ثبوت دیتے ہوئے پی ایم ایل این کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ووٹرز نے جب یہ دیکھا کہ پانامہ سیکنڈل سے تاحا ل یہ جماعت مزاحمت اور مفاہمت کے مابین پھنسی ہوئی ہے۔
مزاحمت کے بیانیہ میں جو کشمیر میں شکست ہوئی ،قبل ازیں ڈسکہ کے الیکشن میں سخت مقابلہ ہوا،تو ووٹرز یہ بھی سمجھنے لگ گیا کہ اب پی ایم ایل این کو آگے نہیں آنے دیا جائے گا،لہٰذا ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔نیزکبھی شہباز شریف متحرک ہوجاتے ہیں،پھر اچانک خاموش ہوجاتے ہیں اور مریم کہیں سے نمودار ہو کر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگادیتی ہیں اور انگلینڈ میں بیٹھے نواز شریف سخت ٹویٹ کردیتے ہیں،ووٹر ز ابھی مریم اور میاں نوازشریف کی طرف متوجہ ہورہا ہوتا ہے کہ مریم اورمیاں نوازشریف بھی خاموش ہوجاتے ہیں جبکہ شہباز شریف بول اُٹھتے ہیں۔
پھر ووٹرز شہباز شریف کی طرف متوجہ ہوتا ہے ،اسی اثناء میں وہ بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ووٹرز شدید نوع کی کنفیوژن میں گھِرکررہ گیا۔اگرچہ سیالکوٹ کی صوبائی نشست پر پی ایم ایل این کے اُمیدوار نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ووٹوں کی تعداد میں معمولی کمی آئی ،مگر مخالف پارٹی کا ووٹ بینک بڑھتا چلا گیا۔
اس حلقہ میں دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹرز کو پی ٹی آئی نے اپنی طرف متوجہ کرکے یہاں سے جیت کو یقینی بنا لیا،جبکہ پی ایم ایل این ایسے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی۔اس حلقہ میں پی ایم ایل این کی جیت یقینی قراردی جارہی تھی ،وریو خاندان اس حلقہ سے اُنیس سوپچاسی سے الیکشن لڑتا چلا آرہا ہے۔اس حلقے کی انتخابی تاریخ میں وریو خاندان نے سات بار کامیابی سمیٹی ہے۔
حلقے کی سیاست چودھری اختر علی اور اُن کے بھائی چودھری عبدالستار کے گردگھومتی رہی پھر اُن کے بیٹوں کو منتقل ہوئی ،مگر اچانک ایک کم عمر نوجوان احسن سلیم نے یہ حلقہ چھین لیا۔سلیم بریار کی سیاست کا آغاز دوہزار دو سے ہوتا ہے ۔جبکہ وریو خاندان اَسی کی دہائی سے سیاست میں ہے۔اس حلقے کا اقتدار ایک خاندان سے دوسرے خاندان کو شفٹ نہیں ہوا ،اس عمل کو ایک جماعت سے دوسری جماعت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔پی ایم ایل این کو فوراً سنبھلنا ہوگا،ورنہ پی ٹی آئی جس حکمتِ عملی کے تحت اس حلقے میں کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوئی ،آمدہ عام انتخابات میں اُسی حکمتِ عملی کو بروئے کار لائی تو پنجاب میں پی ایم ایل این کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
 پی ایم ایل این کی قیادت دَبائو سے نکلنے کی بجائے ،ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں لگ پڑی ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں اس جماعت کی نمائندگی کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے لوگوں پر تنقید شروع کردیتے ہیں،شاہد خاقان عباسی برملا شہباز شریف پر تنقید کرچکے ہیں۔اس کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی نے پی ایم ایل این میں چھائی تقسیم کا فائدہ اُٹھانا شروع کردیا ہے۔بلوچستان میں ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ سمیت پی ایم ایل این کے کئی اہم رہنما پی پی پی کو پیارے ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں سردار یعقوب ناصر پر پارٹی کی بھاری ذمہ دارآن پڑی ہے۔مگر سردار یعقوب ناصر بھی اپنی پارٹی مسلم لیگ ن سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔
اگرچہ سردار یعقوب ناصر کے بیٹے سردار نعمان آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں کئی جلسوں میں مریم نواز کے ساتھ دکھائی دیے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ وہ ایک بیانیہ اپنائے۔خود بھی دبائو سے نکلے اور ووٹرز کو بھی دبائو سے نکالے۔اگر موجودہ صورتِ حال کا تذبذب جاری رہا تو اگلے الیکشن میں پی ایم ایل این شدید مشکلات میں گھری نظر آئے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author