عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ذہین، فہیم، عقیل اور ذہن رسا رکھنے والے نوجوانوں سے مکالمہ درپیش تھا۔ یہ نوجوان خواتین و حضرات جمہوری جذبے سے لتھڑے ہوئے تھے۔ ان کی گفتار میں انقلاب کی تپش، افکار کی گرمی اور انکار کی قوت موجود تھی۔ یہ نوجوان بے باک بھی تھے اور بے لوث بھی۔ ان کے لہجے میں توانائی بھی تھی اور طاقت بھی۔ یہ نوجوان فوری انقلاب کے مطالبے پر مصر تھے۔ جبر کی قوتوں کے خلاف جہاد ان کا مطمح نظر تھا۔ آمریت کے سیاسی غلبے کو یہ ایک ہلے میں دور کرنا چاہتے تھے۔
جمہوریت ان کا عزم اور جمہوری روایات ان کا خواب تھی۔ ایک جمہوری پاکستان ان کی خواہش تھی۔ بے تاب سے یہ نوجوان اب کسی قوت سے نہ ڈرنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ خوف کی سب سرحدیں عبور کر چکے تھے۔ وہ فی الفور اس صورت حال کو بدلنے کے متقاضی تھے۔ اب انتظار کی کلفت ان کو گہوارہ نہیں تھی۔ اب وہ ”جمہوری تبدیلی“ چاہتے تھے اور جلد از جلد یہ تبدیلی انہیں درکار تھی۔ متوقع انقلاب کے تعطل اور ابہام کی بنا پر اپنے اپنے سیاسی مسلکوں سے ناخوش بھی تھے۔ اپنی اپنی سیاسی قیادتوں سے بدظن بھی تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ اب وہ مقام آ گیا ہے کہ ”تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست“ ۔ بقول ان کے انقلاب اب ”ٹیک آف“ سٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ اب جمہوریت کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اب ”ووٹ کو عزت دینے“ کے سوا کوئی حیلہ نہیں۔
میں نے ان حوصلہ مند نوجوانوں کی گفتگو بہت دل جمعی سے سنی۔ ان کے کسی خیال کی تردید نہیں کی لیکن چند معروضات پیش کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکا۔ وہی آپ کے گوش گزار کرنا مقصود ہے۔ یہی اس کالم کا مطمح نظر ہے۔ یہی استدلال اس تحریر میں پنہاں ہے۔
جس ملک میں آمریت کا اندھیرا سات دہائیوں سے چھایا یو وہاں جمہوریت کی روشنی یک دم نہیں آ سکتی۔ جمہوریت ایک ”پروسس“ ہے۔ جمہوریت اور انقلاب میں بنیادی فرق ہے۔ انقلاب تباہی لاتا ہے۔ جمہوریت رسان سے تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہے۔ جلد بازی ہمیں ایک اور جمہوریت کش دور میں گھسیٹ سکتی ہے۔ ”احتیاط احتیاط احتیاط انشاء جی“ کا رویہ بہت لازم ہے۔ ماضی میں بہت سے انقلاب ہائی جیک ہو چکے ہیں۔ بہت سے خوابوں کے قصر مسمار ہو چکے ہیں۔ اس لیے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہو گا۔
جو لوگ آمریت کے دل دادہ ہیں یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک تقریر سے، ایک ٹویٹ سے، کسی صحافی کی ایک خبر سے خوف زدہ ہو کر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اپنی بیرکوں میں بھاگ جائیں۔ ان غیر جمہوری قوتوں نے سات دہائیاں اس ملک پر حکومت کی ہے۔ ان کے پاس اپنا تسلط قائم رکھنے کے بہت سے حربے ہیں۔ سیاسی قائدین کے کھیسے میں عوام کے جذبے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ نہ تنظیم ہیں نہ وہ ذرائع ہیں نہ وہ طاقت ہے نہ بندوق ہے۔ سیاسی جماعتیں جبر کے اس ماحول میں سے اس موقع کی تلاش میں ہیں جس میں لوہا بھی گرم ہو اور آنچ بھی تیز ہو۔ مجھے یقین ہے موجود حالات میں وہ موقع بہت دور نہیں۔
غلامی سب سے قبیح قسم ذہنی غلامی ہے۔ ذہنی تسلط ہے۔ جب آپ کے ذہن غلامی کو نہ صرف قبول کر چکے ہوں بلکہ اس کے معترف رہنے پر بھی مجبور ہوں تو اس کیفیت سے نکلنا سہل نہیں ہوتا۔ ہم دہائیوں سے ایک خاص قسم کے مطالعہ پاکستان کے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر سیاست دان غدار کافر، کرپٹ اور ڈاکو ہے اور غیر جمہوری قوتوں والے فرشتے ہیں۔ یہ بات اس حد تک ہمارے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے کہ اس کیفیت سے نکلنا بہت دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں۔
موجودہ جمہوری شعور جو عوام کو عطا ہوا ہے یہ ایک نعمت ہے جو دہائیوں کے بعد اس ملک کے عوام کو نصیب ہوئی ہے۔ اس شعور کو عوامی سطح تک پہنچانے میں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جمہوری شعور ہی اس جدوجہد کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ کسی قوم میں ایک دفعہ یہ شعور بیدار ہو جائے تو پھر اس شعور کو ذہنوں سے منفی نہیں کیا جا سکتا۔ مزاحمت کی سیاست کا یہ سلسلہ بالآخر جمہوری شعور کا باعث بنے گا۔ عوام کو ذہنی آزادی اور جمہوری پختگی عطا کرے گا۔ اب اس سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ اب اس ملک کے عوام جمہوریت کے خواب دیکھنے لگیں ہیں اور خوابوں پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
اس بات کی توصیف ہم پر فرض ہے کہ چند سیاسی جماعتوں کی دلیری اور عوام کے شعور کی وجہ سے پاکستان میں بہت بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ چند سال پہلے جس بات کا ذکر کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا وہ اب کھلے عام ہو رہی ہیں۔ وہ مقدس گائیں جو اپنے اوپر شجاعت کا ملمع چڑھا کر عوام کو ورغلا رہی ہوتی تھیں اب وہ خوفزدہ ہیں۔ ان کا خوف عوام کے سیاسی شعور کا نتیجہ ہے۔ میں خوش گمان ہوں کہ وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ عدالتیں، مجبور میڈیا، متزلزل بیوروکریسی اور متذبذب سیاسی قیادت عوام کے اس جذبے پر کان دھرے گی اور ان کی آواز میں آواز ملائے گی۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ یہی مستقبل اور یہی واحد امید ہے۔
کوئی بھی شخص درست طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت آنے میں مزید کتنے برس لگیں گے۔ کتنی حکومتیں موجودہ ڈمی حکومت کی طرح ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گی۔ کتنے الیکشن ابھی مزید چوری ہوں گے۔ کتنی دفعہ آئین کی بالادستی کے خواب کو پامال کیا جائے گا۔ کتنی دفعہ ووٹ کی عزت کو لوٹا جائے گا۔ کتنی دفعہ ابھی مزید عوام کے مینڈیٹ کا تمسخر اڑایا جائے گا۔ لیکن مجھے اس بات پر یقین ہے حالات بدلنے کی کنجی عوام کی مٹھی میں قید ہے۔
اور کمال یہ ہے کہ اب عوام کو اس طاقت کا احساس ہو گیا ہے۔ ذہنی غلامی کے کالے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اب عوام کی طرف سے ہر ایسے قدم پر مزاحمت ہو گی جس میں جمہوریت کش عناصر کی شمولیت ہو۔ مزاحمت کا یہ سفر کٹھن ہے مگر یاد رکھیئے کہ دشمن کی ناکامی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت نے جس طرح عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا ہے وہ عوام کو اس نتیجے پر پہنچنے میں بہت مدد رہی ہے کہ عوام دشمن عناصر کون سے ہیں۔ بال اب عوام کی کورٹ میں ہے۔ سیاستدان بہت قربانی دے چکی ہیں اور اب بھی قربانی پر مصر ہیں۔ اب عوام ان کا حوصلہ بنیں تو جمہوریت کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر