حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوے فیصد افغانستان فتح کرواچکنے والا میڈیا اب دو دن سے ہمیں بتارہاہے کہ افغان جنگجوئوں نے صوبہ نمروز کے بعد صوبہ جاوز جان کے مرکزی شہر شبر خان پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ کوئی نہیں بتارہا کہ جنگجوئوں کے ساتھ ہرات میں کیا ہوا اور قندھار پر مکمل تسلط سے محروم کیوں ہیں؟
ان سطور کے لکھے جانے سے 48گھٹنے قبل افغانستان کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ ہمارا سارا شکوہ اور زور اس بات پر ہے کہ ’’ہمیں‘‘ سلامتی کونسل کے اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔
دکھی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ دلپشوری کرنےکے لئے ’’تاریخ ساز‘‘ وزیر خارجہ کی قومی اسمبلی میں خارجہ امور پر کی گئی تقاریر کا مطالعہ کیجئے۔ کہیں سے ویڈیوز مل جائیں تو سن لیجئے۔ دھمال سے زیادہ سر میں خاک ڈالنے کو دل کرے گا۔
ہم کب تک دیوار پر لکھی حقیقت سے آنکھیں چراتے رہیں گے؟
ہمارے ایک دوست نے پھبتی کسی ’’پاکستانیوں کو خارجہ پالیسی پر بات کرنے کی اتنی ہی آزادی ہونی چاہیے جتنی یمن پالیسی پر سعودیہ اور ایران کے لوگوں کو حاصل ہے‘‘۔ ادب سے عرض کیا جانا لازم ہے کہ ایک جگہ ملوکیت ہے اور دوسری جگہ ملائیت۔ مفادات کا ٹکراو ہے۔ یہی بات اور حال افغان پالیسی کے حوالے سے ہمارا ہے۔
اس پالیسی کا نفع کس کس کے گھر گیا اور لاشیں کس کس کے؟
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بولے ہم دنیا کو بتا نہیں پائے کہ افغانستان کی بدامنی ماضی میں ہمارے 70ہزار شہری کھاگئی۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ غیرسنجیدہ پالیسی کی قیمت چکائی اس ملک کے لوگوں نے۔ پچھلی شب ایک ٹی وی پروگرام میں افغانستان میں ہمارے سفیر منصور احمد خان نے کہا ’’اشرف غنی کی حکومت کو جائز سمجھتے ہیں۔ طالبان یا کوئی دوسرا گروپ طاقت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کرتا ہے تو انتشار پھیلے گا‘‘۔
ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہی عرض کررہا ہوں منتخب حکومت کے مقابلہ میں ہمارے وزیر خارجہ جنہیں تمیزدار، خوش لباس، بااخلاق اور جہاندیدہ قرار دے رہے ہیں ان کے اور ان کے ہمدردوں کے لگائے زخموں سے ابھی خون رِس رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے بتایا تھا افغان طالبان تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے ان تبدیل شدہ و فہمیدہ لوگوں نے ایک مزاحیہ فنکار کو درندگی کے ساتھ قتل کیا پھر صوبہ اوزگان میں مقیم معروف ماہر تعلیم شاعر اور مفکر عبداللہ عاطفی کی جان لے لی۔ عبداللہ عاطفی کو ان کے گھر سے اغواکیا گیا دو دن بعد ان کی لاش ملی۔ عاطفی اپنی فہم کے حوالے سے بین الاقوامی طور پر معروف شخصیت تھے۔ ان کے سفاکانہ قتل کو ہر صاحب ضمیر نے محسوس کیا۔
افغانستان میں جاری کھیل کے نتائج کیا ہوں گے؟
اس سوال کا جواب گزشتہ دنوں اشرف غنی کی حکومت کی حمایت اور جنگجووں کے خلاف افغان عوام کے ردعمل میں موجود ہے۔
جناب منصور احمد خان کی یہ بات درست نہیں ہے کہ ’’افغانستان کے معاملے میں ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں‘‘۔
تضاد نہیں تضادات ہیں حضور۔ مثلاً وزیر خارجہ اور سفیر محترم ان دونوں کی آراء کا تجزیہ ہی سمجھا دیتا ہے کہ تضادات کیا ہیں۔
جنگجووں کی حمایت کے لئے سرگرم غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کا کردار سب پر عیاں ہے کوئی کارروائی ہوئی؟
یہ بھی درست ہے کہ اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ کیا ہم نے سنجیدگی کے ساتھ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی؟
مسئلہ فقط یہی ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ امریکیوں کی مرضی و منشا یہی ہے کہ افغان متحارب دھڑے میدان جنگ بھڑکائے رکھیں تاکہ افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے محفوظ تجارتی راستہ نہ بننے پائے۔
یہی وہ نکتہ ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ ہمیں افغان جنگجووں سے فاصلہ رکھنا چاہیے اور عملی طور پر ان کوششوں کا ساتھ دینا چاہیے جو متحارب دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کی جارہی ہیں۔
مکرر یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ افغانستان سے ملحقہ سرحد پر قانونی اور غیرقانونی گزرگاہوں کی سکیورٹی بڑھانی ہوگی۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں کے علم میں ہے کہ گزشتہ دنوں جنگجووں نے اسپین بلدک کے علاقے میں جو قتل عام کیا اس کے اثرات سرحد کے اِس پار شدت سے محسوس کئے گئے کیونکہ مقتولین کا تعلق جس قبیلے سے ہے اس قبیلے کا بڑا حصہ چمن سے اِس طرف مقیم ہے۔
31صوبوں پر جنگجووں کے ’’قبضے‘‘ کو ہیڈ لائن بنانے والے اپنے قارئین کو یہ کیوں نہیں بتاتے کے جنگجووں کے خلاف شدید مزاحمت بھی ہورہی ہے۔ پچھلے دنوں ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے کی جو گونج پورے افغانستان میں سنائی دی وہ جنگجووں کے خلاف لڑنے والوں کی حمایت میں اٹھی آوازیں تھیں۔
جنگجووں اور حکومت کی طرف سے کامیابیوں کے متضاد دعوئوں کے آگے زمینی حقائق کیا ہیں۔
دو دن قبل متحارب گروہوں کی لڑائی میں مرنے والوں کی لاشوں کی ایک تصویر افغان حکومت نے جاری کی۔ دعویٰ یہ تھا کہ یہ نعشیں ان لوگوں کی ہیں جو جنگجووں کی حمایت میں پاکستان سے لڑنے آئے تھے۔
دفتر خارجہ نے جواب کیوں نہیں دیا۔ اصولی طور پر اسے فوری جواب دینا چاہیے تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنی کمزوریوں اور تساہل دونوں کا جائزہ لینا ہوگا۔
لیجئے جمعہ اور ہفتہ کو امریکی طیاروں نے پانچ سے زیادہ مقامات پر افغان جنگجووں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ قندھار، ہلمند اور ہرات و لشکر گاہ میں جنگجووں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے جوبائیڈن حکم جاری کرچکے۔
یہاں ہمیں قصوں، کہانیوں، قبروں سے اٹھتی خوشبو اور ’’شہیدوں‘‘ کے جلالی استقبال کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔
بار دیگر عرض ہے پاکستان کے علاقائی مفادات دوسروں کی طرح اہمیت رکھتے ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح مفادات کی بالائی چند درجن لوگ کھائیں اور جنازے ہمارے گھروں سے اٹھیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر