اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محروم تو تھے اب بھکاری بھی ٹھہرے ||مظہراقبال کھوکھر

اعجاز اعوان کا یہ بیان محض ایک شخص کا بیان نہیں بلکہ درحقیقت اس کے پیچھے ایک مخصوص سوچ ہے جو ہمیشہ وسیب کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتی ہے اسی سوچ نے آج تک وسیب کو محرومیوں سے دو چار کر رکھا ہے

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پاکستان اس وقت دنیا میں رہنے کے لیے سستا ترین ملک ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عالمی سطح پر تین ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے کرنا پڑا۔ اس کے باوجود پیٹرول اور ڈیزل کی سب سے کم قیمت پاکستان میں ہے ہم نے درست فیصلے کر کے معیشت کو بچا لیا” یہ بات وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے ” آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ ” پروگرام میں ٹیلی فون پر عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ وزیر اعظم نے یہ بات ورلڈ پاپولیشن ریویو کی رپورٹ کی بنیاد پر کی جسے وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئیٹ کیا تھا۔ نہیں معلوم ہر حکمران ایسے غیر معروف ادارے اور ان کی رپورٹیں  کہاں سے دریافت کر لیتے ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ سب اچھا ہی اچھا ہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ حالانکہ ترقی اور خوشحالی رپورٹوں سے نہیں بلکہ عوام کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے مگر انہیں پڑھنے اور سمجھنے والا بھی تو کوئی ہو۔
بہر حال کسی بھی حکومت اور حکمران کا اپنی پالیسیوں کو مثبت، معیشت کو مضبوط اور کارکردگی کو بہتر قرار دینا کوئی حیران کن  بات نہیں مگر حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے والے نہ سمجھ آنے والی بات کو سمجھانے اور درست ثابت کرنے کے لیے تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا وزیر اعظم کے اس بیان کو درست ثابت کرنے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کے خود ساختہ ترجمان جنرل ر اعجاز اعوان نے غلط انداز اپناتے ہوئے پورے وسیب کو کو گالی دے ڈالی جس کی وجہ سے پورے خطے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جنرل ر اعجاز اعوان نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ” ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے کہیں پر بھی غربت نہیں ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی کی سڑکوں پر نظر آنے والے جنوبی پنجاب کے لوگ جنہوں نے بیلچہ اور گھینتی اٹھائی ہوتی ہے یہ محنت کش نہیں بلکہ پروفیشنل بھکاری ہیں۔ تیس تیس بندوں نے مل کر ایک مکان کرایہ پر لیا ہوتا ہے شام کو ہزار ہزار روپے لیکر آتے ہیں اور مکان کا کرایہ صرف ایک ہزار پڑتا ہے۔ یہ لوگ محنت کش نہیں بلکہ بیلچہ بھیک کی علامت ہے”
موصوف نے حکومت کا تو شائد دفاع کیا ہو مگر وسیب پر اس نے حملہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدور اور محنت کش ہر علاقے اور ہر طبقے میں ہوتے ہیں جو کہ یقیناً عظیم لوگ ہیں۔ اسی طرح بھیک مانگنے والوں کی بھی کوئی تفریق نہیں ہر طبقے، ہر قوم اور ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ جو کہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے ایسے ہی پروفیشنل لوگوں کی وجہ سے یہ فرق کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون حق دار ہے اور کون نہیں ہے۔ مگر خود کو دفاعی تجزیہ نگار اور حکومت کا ترجمان کہنے والا ایک ذمہ دار شخص غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مخصوص خطے اور لوگوں کو ٹارگٹ کرے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ موصوف خوشامد میں اتنا آگے چلے گئے کہ پورے وسیب کے 8 کروڑ لوگوں کی تذلیل کر ڈالی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اعجاز اعوان کا یہ بیان محض ایک شخص کا بیان نہیں بلکہ درحقیقت اس کے پیچھے ایک مخصوص سوچ ہے جو ہمیشہ وسیب کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتی ہے اسی سوچ نے آج تک وسیب کو محرومیوں سے دو چار کر رکھا ہے۔ ہم پہلے بھی انہی صفحات پر متعدد بار عرض کر چکے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وسیب کے لوگ کراچی ، بلوچستان ، لاہور ، گوجرانوالہ ، راولپنڈی اور اپر پنجاب کے دیگر شہروں میں جا کر محنت مزدوریاں کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وسیب میں روزگار کے مواقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ان محنت کشوں کو بھکاری قرار دیا جائے تو اس بڑھ کر بد اخلاقی کیا ہوگی۔ سوال تو یہ ہے کہ ملک کے ذمہ دار ادارے اور حکومت ایک خطے کے لوگوں کو بھکاری قرار دینے والے اعجاز اعوان کے خلاف کیا کارروائی کرے گی کیونکہ ماضی میں ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کو بھوکے بنگالی کہنے کے خطرناک نتائج دیکھ چکے ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ حکومت کیا ایکشن لے گی یہ تو بعد کی بات ہے وسیب کے منتخب نمائندوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اعجاز اعوان کے اس بیان کی مذمت کر سکیں۔ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آج اگر وسیب کے لوگوں کو بھکاری کہا جارہا ہے تو اس کے سب سے بڑھ کر ذمہ دار وسیب سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جانے والے ماضی اور حال کے منتخب نمائندے ہیں۔ جنہیں لوگ عزت دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور اسمبلیوں میں جا کر وسیب کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں۔ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا سب سے بڑا کام تھانیدار اور پٹواری کا تبادلہ ہوتا ہے۔ انھوں نے آج تک وسیب کے بنیادی مسائل بھوک ، غربت اور بے روزگاری پر بات نہیں کی، وسیب کے ساتھ رواء رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر بات نہیں کی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی پر بات نہیں کی، وسیب کی سڑکوں کی حالت زار پر پر بات نہیں کی، صنعتوں کے قیام پر بات نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سونا اگلتی زمینوں کا حامل، ملک میں سب سے زیادہ گندم اور کپاس پیدا کرنے والا سرائیکی وسیب مسلسل محرومیوں کا شکار ہے اور آج تو اس خطے کے لوگوں کو بھکاری بھی قرار دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے دنیا میں رہنے کے لیے سب سے سستے ملک میں وسیب کے لوگوں کو عزت کے ساتھ رہنا کا حق ملتا ہے یا نہیں۔۔؟ اور  اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ  اسمبلیوں میں موجود وسیب کے منتخب نمائندوں نے اگر محنت کشوں کی علامت بیلچے کو بھیک کی علامات قرار دینے والے اعجاز اعوان کو معافی مانگنے پر مجبور نہ کیا تو وسیب کے لوگ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: