نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ مثالیت پسند بلوچ قوم پرست دانشوروں کا صدمہ اور پی پی پی ||عامر حسینی

پی پی پی انقلابی جماعت کبھی نہیں رہی - وہ سوشل ڈیموکریٹک کریٹک فیڈرل پارلیمانی سیاست کی علمبردار ہے اور وہ تو کنفیڈریشن تک پہ یقین نہیں رکھتی -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں پی پی پی نے بندوق کی نوک پہ نواب زھری اور. عبدالقادر بلوچ کو شامل نہیں کیا یہ لوگ خود پی پی پی میں آئے اور یہ وہی لوگ ہیں جو کل تک سچے اور پکے بلوچاور پشتون قوم پرستوں کو اپنے ساتھ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں قبول تھے، ان کا نواز لیگ میں ہونا محمود خان اچکزئی اور بزنجو کی پارٹی کو قابل قبول تھا اور اختر مینگل بھی ان کے نواز لیگ کے ساتھ ہونے پر معترض نہ تھے…..
آج پی پی پی میں ان کی شمولیت سے ہمارے کچھ بلوچ دانشوروں کی رگِ حمیت اور رگِ ظرافت دونوں پھڑک اٹھی ہیں……
بلاول بھٹو پہ غصہ نکالنے والے زوالفقار علی بھٹو سے شروع کرتے ہیں اور بیچ میں ایم آر ڈی کے دور کو نکال دیتے ہیں جب غوث بخش بزنجو اور شیرباز مزاری جیسے بلوچوں کی قیادت میں دو سیاسی جماعتیں پی پی پی کا حصہ تھیں اور شیر باز مزاری کی جماعت میں تو نیپ میں شامل بڑے بڑے پشتون نام بھی شامل تھے…..
وہ بے نظیر بھٹو کو اکبر بگٹی کی حکومت ختم کرنے کا طعنہ تو دیتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ بگٹی صاحب تو نواز شریف اور اُن کے سلیکٹرز کی مدد سے حکومت پہ براجمان تھے گویا سلیکٹڈ ہی تھے….. بگٹی تو بلوچ قوم کے ھیرو تب بنے جب انھوں رائلٹی اور اقتدار کی بجائے پوری بلوچ قوم کی آزادی کی بات کی…..
پی پی پی انقلابی جماعت کبھی نہیں رہی – وہ سوشل ڈیموکریٹک کریٹک فیڈرل پارلیمانی سیاست کی علمبردار ہے اور وہ تو کنفیڈریشن تک پہ یقین نہیں رکھتی –
اب اگر کوئی بلوچ یا پشتون قوم پرست اپنے تئیں پی پی پی کو انقلابی قوم پرست کنفیڈرل یا علیحدگی پسند سیاسی جماعت سمجھ لے یا کوئی کمیونسٹ اسے لیننسٹ یا ماؤاسٹ گوریلا پارٹی سمجھ بیٹھے تو یہ اُس کی اپنی غلطی ہے یا اپنی فریب دلی ہے اس میں بلاول یا بلاول کے ماں باپ یا بلاول کے نانا کا کوئی قصور نہیں ہے –
پی پی پی اپنے ناقدین سے حق اختلاف کبھی چھینے گی نہیں اور نہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے –
وہ تو عدم تشدد کے ساتھ علیحدگی پسندوں کو بھی سیاست کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دے دے اگر اُس کے بس میں ہو – پی پی پی کی قیادت نے یہ رواداری اور برداشت بلاشبہ ایک دن میں نہیں سیکھی – اُس سے غلطیاں بھی ہوئیں اور اُس کی پہلی حکومت کے دوران بلوچستان اور کے پی کے میں نیپ کی حکومتوں کے ساتھ جو ہوا اُس میں وہ اب یہ سمجھتی ہے کہ صرف قصور نیپ کے عقابوں کا ہی نہیں تھا بلکہ پی پی پی کی حکومت میں براجمان کچھ عقابوں کا بھی تھا – پی پی پی کی قیادت ہو یا کارکن انہوں نے اپنی غلطیوں کا خراج اپنے لہو سے ادا کردیا –
پی پی پی کا آج بھی یقین ہے کہ آج بھی اگر صاف اور شفاف انتخابات ہوں اور اُس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ مکمل خودمختار ہو تو وفاق پاکستان چل سکتا ہے – اٹھارویں ترمیم نے یہ ممکن کر دکھایا تھا –
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سردار، نواب، ریٹائرڈ فوجی افسر، سرمایہ دار، بڑے زمینار اشراف پی پی پی میں شامل ہوئے ہوں، یہ کئی بار ہوا ہے لیکن پی پی پی پی کا جو تشخص ہے
طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں
وہ اُس کی مرکزی قیادت نے کبھی دھندلا نہیں پڑنے دیا-
اگر پی پی پی کے عوامی طرز سیاست کو پنجاب کے قریشی، گیلانی، ھراج، ڈاہے، نون، گردیزی، سید گہنا نہیں سکے، اگر اس سیاست کو کے پی کے خوانین اور بلوچستان کے وہ سردار جن کا تذکرہ ہمارے ایک دوست نے بلاول بھٹو کے نام ایک فکاہیہ پوسٹ میں کیا تو اب بھی کوئی زھری نواب ، کوئی رند سردار اس میں شامل ہوکر اس کی عوامی پاپولسٹ سیاست کو بدل نہیں سکے گا –
پارلیمانی سیاست مسلح، گوریلا اور یہاں تک کہ عدم تشدد پہ مبنی علیحدگی پسند سیاست سے یکسر مختلف ہوتی ہے، یہ کھلے یا چھپے مارشل لاؤں، ہائبرڈ رجیم کے ادوار میں بھی پارلیمانی راستے سے تبدیلی اور بدلاؤ لانے پہ یقین رکھتی ہے – اسے ہوسکتا ہے کھلے مارشل لاء کے خلاف الذوالفقار کی طرح کا راستا اپنانے سے اختلاف ہو لیکن وہ اس راستے پہ چلنے والے شہیدوں کی قربانی اور غازیوں کی جرآت و خلوص کا انکار نہیں کرتی – اُسے کنفیڈرل، علیحدگی پسند حقیقی قوم پرستوں اور اسی طرح سے مارکس واد، مارکس – لینن واد یا ماؤ واد سے جڑے سیاسی کارکنوں کے خلوص پہ اور جدوجہد کی سچائی پہ یقین ہے لیکن اُن کے سیاسی لائحہ عمل سے اختلاف ہے –
پی پی پی کو کسی نواب، کسی ریٹائرڈ فوجی یا کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی پارٹی میں شمولیت کا طعنہ دینے والوں کو اُن کے حق اختلاف، تنقید اور یہاں تک کہ مذاق اڑانے کے حق کو سلب کرنے کا شوق نہیں ہے –
بلاول بھٹو زرداری نے پشتون قومی تحریک ہو، بلوچ قومی تحریک ہو، سندھی قومی حقوق کی تحریک ہو، سرائیکی قومی حقوق کی تحریک ہو، جموں و کشمیر کی قومی تحریک ہو یا گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی تحریک ہو ان سب کے آزادی اظہار، بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور ضمانت کی مانگ کی ہے اور کرتی رہے گی –
پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے جبری گمشدگیاں ہوں، ماوراۂے عدالت قتل ہوں، دوران سیکورٹی آپریشن انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں، دہشت گردی کے خاتمے کے نام پہ فوجی عدالتوں کا قیام ہو، میڈیا کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ہو ان کی قومی سلامتی یا ریاستی مفاد کے نام پہ کبھی اجازت دی نہ دے گی –
بلوچستان میں پی پی پی اگر حکومت بنائے گی تو وہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کی مساوات میں ضم نہیں ہوگی –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author