حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات کو جیسے ہی میاں نواز شریف کی ویزے میں توسیع کی درخواست برطانوی حکومت نے مسترد کی تبدیلی سرکار کے تین پانچ درشنیوں نے وہ ہنگامہ اٹھایا کہ یوں لگنے لگا جیسے برطانیہ نے نواز شریف کو بغیر انجن والی کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر میں چھوڑ دیا ہے
نواز شریف کے پاس دس سال کا ملٹی پرپز ویزہ ہے ۔
اس ویزے کے قانون کے مطابق انہیں ہر چھ ماہ بعد برطانیہ سے باہر کا ایک سفر لازمی کرنا ہے جو انہوں نے نہیں کیا لگ بھگ دو بار ان کے قانونی مشیروں نے صحت کے حوالے سے معلومات ہوم آفس کو فراہم کیں لیکن اگلی بار ان مشیروں نے معاملے کو ایزی لیایہ سہل پسندی درخواست مسترد ہونے میں معاون بنی ۔
ان کے مشیروں نے جمعرات کو ہی نظرثانی کی اپیل دائر کردی تھی اس کی سماعت اور فیصلے میں چھ سے بارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔
نواز شریف کے صاحبزادگان ‘بہوئیں ‘ پوتے پوتیاں برطانوی شہری ہیں۔ ان کے فرزند حسن نواز اپنے بوڑھے بیمار والد کو اپنے پاس بغرض علاج رکھنے کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔
سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کے ایسا پہاڑ ہرگز نہیں ٹوٹا ان پر جیسا وفاقی وزراء اور مشیر داخلہ شہزاد اکبر بتا رہے ہیں۔ شہزاد اکبر قبل ازیں بھی نواز شریف کے قیام برطانیہ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کہتے رہے ہیں جو خلاف واقعہ تھیں۔
جناب شیخ رشید پتہ نہیں کس سکول اور یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں بس ایک ہی بات تکرار کے ساتھ کہے جارہے ہیں۔
جس سوال کو یہ وزیر و مشیر نظر انداز کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف کی بیماری جعلی تھی تو سب ے پہلے شوکت خانم لیبارٹری و ڈاکٹر فیصل(یہ اب وفاقی مشیر صحت ہیں) پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کے خلاف معاونت کا مقدمہ درج ہونا چاہئے تھا۔
یہ بھی تو جعلسازی میں معاون بنے ان کی رپورٹ پر ہی وزیر اعظم نے انہیں باہر جانے کی اجازت دی تھی اس حوالے سے وزیر اعظم کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔
لیجئے برطانیہ نے بھارت کو کورونا وبا والی ریڈ لسٹ سے خارج کردیا ہے جبکہ پاکستان بدستور موجود ہے بظاہر یہ سیدھی سادھی سفارتی ناکامی ہے مگر ہمارے یہاں اس کا اعتراف کرنے کی بجائے بھارت سے برطانیہ کے ساتھ ترجیحی سلوک پرسیاپا ڈالا جارہا ہے ۔
ہمیں کھلے دل سے مان لینا چاہئے کہ ہم سفارتی ناکامیوں سے دوچار ہیں اور مسلسل جھوٹ بول بول کر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔
یہ بجا ہے کہ بھارت میں کورونا سے شرح اموات امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں لیکن یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ نے جب ہمیں ریڈلسٹ میں ڈالا تو ہم نے اسے سنجیدہ نہیں لیا
ملتانی مرشد قریشی سمیت پورے دفتر خارجہ کا خیال یہ تھا کہ یہ مسئلہ چٹکیوں سے حل ہو جائے گا۔
کیا مجال کہ اعداد و شمار اور مجموعی صورتحال کے حوالے سے ایک بار بھی سنجیدہ درخواست برطانیہ کو دی گئی ہو؟
وزارت خارجہ اور وزارت صحت سے رابطہ کرکے موقف ان کے سامنے رکھا گیا ہو تو سفارتکاری کے ماہرین اسے رکھیں قوم کے سامنے ۔
اب بھی بھارت بھارت کا راگ الاپنے کی بجائے ہمیں اپنا موقف پیش کرنا چاہئے ضروری نہیں کہ کسی ملک کے بھارت اور ہم سے مساوی بنیادوں پر تعلقات ہوں۔
سفارتکاری لابنگ اور دوسرے جو امور بہتر تعلقات کار میں معاون بنتے ہیں ان کے حوالے سے ہماری کارکردگی صفر ہے ۔ یہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر والے معاملے میں عوام کو گمراہ کر لیا گیا ہے دیگر امور میں بھی یہی داو پیچ چل جائیں گے ۔
ایسا نہیں ہے بلکہ جن اقدامات کے اٹھانے کی بات اب کی جارہی ہے یہ قبل ازیں اٹھا لئے جانے چاہئیں تھے ۔
تاکہ اب تک کوئی حل تلاش کر لیا جاتا ۔
یہ بات بھی ہمیں سمجھنا ہوگی کہ برطانیہ ایک ملک ہے ہماری اپوزیشن کی کوئی جماعت نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیں گے پھر اپوزیشن والے بھگتتے رہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اچھا کیا کہ بھونگ ضلع رحیم یار خان میں ہندو برادری کے مندر پر حملے اور بدترین توڑ پھوڑ کانوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو طلب کر لیا ہے ۔
نوٹس گزشتہ روز وزیر اعظم نے بھی لیا تھا معاملہ صرف نوٹس لینے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ضلعی اور تحصیل انتظامیہ مندر پر حملے سے دو دن قبل تحصیل صادق آباد میں کی گئی تقاریر اور لوگوں کو جھوٹی کہانیاں سنا کر اکسانے والی سرگرمیوں سے لاعلم کیوں رہی۔
یہاں ہوا یہ کہ پہلے ایک ہندو نوجوان پر توہین مقدسات کا الزام لگایا گیا دوران تفتیش یہ الزام غلط ثابت ہوا اور عدالت نے نوجوان کو رہا کردیا پھر ایک آٹھ سال کے لڑکے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے مدرسہ کی لائبریری میں پیشاب کر دیا ہے ۔
دبائو پر اس آٹھ سالہ ہندو بچے کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی سوال یہ ہے کہ جب ایف آئی آر درج ہو گئی تھی تو پھر تحصیل بھر سے لوگوں کو جمع کرکے بھونگ میں مندر پرحملہ کیوں کیا گیا؟
ایک رائے یہ ہے کہ مندر اور ملحقہ ہندو آبادی کی زمین بہت قیمتی ہے کچھ قبضہ گیر بڑے لوگ اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں
آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور جان لیجئے کہ بھونگ کی ہندو برادری اسی مقام پر صدیوں سے آباد ہے یہی ان کی دھرتی ماتا ہے ۔
بہر طور جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ‘ اس قصبے میں مندر پر حملے کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کو زہریلے پروپیگنڈے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ مندر پر حملے اور ہندو برادری کی مقدسات کی توہین ہوئے تین دن گزر گئے لیکن کوئی مقدرہ درج نہیں ہوا حالانکہ وقوعہ کے وقت خاموش تماشائی بنی بھونگ تھانہ کی پولیس ایک ایک کردار سے واقف ہے ۔
اصولی طور پر تو پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ رحیم یار خان کی ضلعی انتظامیہ اور ڈی پی او کے علاوہ تحصیل صادق آباد کی انتظامیہ و ذمہ دار پولیس افسران کو کسی تاخیر کے بغیر معطل کرے تاکہ ہر دو معاملات کی تحقیقات میں آسانی ہو اور مجرم و سہولت کار کیفر کردار تک پہنچائے جا سکیں۔
پسِ نوشت
یہ اطلاع بھی ہے کہ مندر پر حملے سے قبل بلوائیوں نے ایک امام بارگاہ پر حملہ کرکے اس میں رکھے مقدسات کی توہین کی اور علم کو جلادیا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر