نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"عورت : تمھارا جسم، ہماری مرضی”||رانا محبوب اختر

اسلام آباد میں ایک تعلیم یافتہ شخص نے نور مقدم کو قتل کیا ہے اور اسلام کوٹ میں ایک نیم خواندہ ڈرائیور نے کمزور مکیش بھیل کو بھگوان کی بہن کو گالی دینے پر مجبور کیا ہے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد میں ایک تعلیم یافتہ شخص نے نور مقدم کو قتل کیا ہے اور اسلام کوٹ میں ایک نیم خواندہ ڈرائیور نے کمزور مکیش بھیل کو بھگوان کی بہن کو گالی دینے پر مجبور کیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک سفارت کار کی بیٹی قتل ہوئی اور اسلام کوٹ میں بھگوان کی نامعلوم بہن کو گالی پڑی ہے ۔زندہ عورت قتل ہوئی ہے ۔دیومالائی عورت کو گالی دی گئی ہے ۔ کمزور قوموں، طبقوں، صنفوں اور افراد کو قتل کرنا اور انھیں غلام بنانا استعماری پدرشاہی کی عادت ہے ۔تاریخ، تشدد کی کہانی ہے۔ مرد نے عورت کے لئے ماں بہن کی گالیاں ایجاد کیں کہ وہ اسے کمتر اور غلام سمجھتا ہے ۔عورت کا جسم مرد کی کالونی ہے۔ سامراجی طاقت و تکبر اور بے رحم پدر سری سماج عورت کے تقدس کو گالی سے گدلا کرکے سماج کو بیمار بناتے ہیں !
بادشاہ ،دیوتااور مرد طاقت کی علامت ہیں ۔ان کے نام پر ظلم، تشدد اور قتل روا ہے۔ طاقتور کا خدا مگر دولت ہے اور غریب تو کجا ، غریبوں کے خدا کی توہین بھی بجا ہے۔پنڈت ، پادری اور ملا خدا کے نام پر سامراج کا کام کرتے ہیں ۔تاریخ، پنڈت اور پادری کی پارسائی کے ڈھونگ کے پیچھے چھپی غریب دشمنی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔علامہ اقبال رح "جوابِ شکوہ” میں امیروں کا گلہ کرتے ہوئے غریبوں کے لئے صوفی و ملا کے بنائے سراب کو بیان کرتے ہیں:
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا، تو غریب
اُمَرا نشّۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے مِلّتِ بیضا غُرَبا کے دم سے
غریب، خدا کا دم بھرتے ہیں اور سامراجی ، خدا کے نام پر ملت_ بیضا کو غلام بناتے ہیں۔امراء خدا سے غافل اور نشہ دولت میں گم ہیں۔وہ نسل پرست سید ، مرزا اور افغان تو ہیں مگر انسانیت پرست مسلمان نہیں ۔ بیسویں صدی کے ایک بڑے موسیقار پرنس راجرز نیلسن نے ” کولو نائزڈ ذہن ” کے نام سے ایک نغمہ لکھا، جو استعماری پیراڈائم کو آشکار کرتا ہے:
Upload the master race idea
Genetically disposed to rule the world
Download a future of isolated
Full of isolated, boys and girls

Upload a two party system
The lesser of two dangers, illusion of choice
Download their form of fascism
Nothing really ever changes
You never had a voice!!
بیمار اور سفاک لوگ صنفی ، نسلی یا مذہبی برتری کے مریض ہوتے ہیں۔ استعماری ذہنیت رکھتے ہیں۔مقامیوں ، عورتوں اور غریبوں کی روح کا انکار کر کے ان کے جسموں پر تشدد کرنا ان کے لئے روا ہے۔ جسم ، سامراج کا مقبوضہ علاقہ ہے۔ زمینوں پر قبضہ کرنے سے پہلے سامراج جسم کے قلعے مسمار کرتا ہے۔تشدد اور قتل عام سے مقامیوں کو نیست و نابود کرتا ہے۔ سامراجی سوچ جسم کے اندر بیکٹیریا کی طرح کالونیاں بناتی ہے، روح اور جسم کو بیمار کرتی ہے۔جسم کی سلطنت کو صحت کی بادشاہی درکار ہوتی ہے کہ راحتیں اور کلفتیں جسم کے جغرافیے میں ہیں۔درد جسم کی سر دردی ہے اور دردِلا دوا دل کا آزار ہے۔ استعماری حملہ آور کھوپڑیوں کے میناروں میں جسم کی اینٹیں چنتے تھے ۔ سامراجی سیاست میں موت یا ذلت بھری غلامی کمزور کا مقدر ہے۔موت کی دہشت سے کمزور کو دبانا آزمودہ سامراجی حربہ ہے ۔ 2015 میں ہم نے پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے 133 کلومیٹرز دور ایورا نام کے شہر میں ایک مندر دیکھا تھا جو انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بنا ہے۔ دنیا میں انسانی ہڈیوں سے بنی آٹھ عبادت گاہیں مغرب میں ہیں۔ مندر کے دروازے پر لکھا ہے:
” We bones are here waiting for you.”
موت کی دہشت قائم کرکے خوف کی فضا قائم کرنا سامراجی ہتھیار ہے ۔اسی سوچ کے بل پر کمزوروں کو مارنے کی استعماری حکمتِ عملی تشکیل پاتی ہے۔ ایورا کے مندر کے سامنے کھڑے مسافر کو گورنر جنرل بینٹنگ کا قول یاد آیا تھا کہ "ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی سر زمین سفید ہو گئی ہے۔”
سامراج جانتا ہے کہ انسانی وجود سے تصویر_ کائنات میں رنگ ہیں۔ بھجن اور بھوجن کی دنیا جسم سے آباد ہے۔لحنِ دائو دی سے آواز کی اقلیم ابد تک آباد ہے کہ آواز لافانی ہے۔ پاپوش اور پوشاک کے قرینے جسم سے ہیں۔سرخی کا بینر ہونٹوں کی سرحد پہ لہراتا ہے۔ سولہ سنگھار سے جسم سنورتا ہے ۔رقص، کا نغمہ ہے۔جوش ملیح آبادی ، کہتے ہیں:
کس درجہ فسوں کار وہ اللہ غنی ہے
کیا موجہ تابندگی و سیم تنی ہے
جسم ، ایک پراسرار کائنات کا وہ دوار ہے جو دنیا کی طرف کھلتا ہے۔ سامراج اس دروازے کو توڑتا ہے۔قتلِ عام کرتا ہے۔ آزاد آدمی کا آزار دوہرا ہے۔ پہلا یہ کہ جسم کو موت ہے اور زندگی خوف کے حصار میں ہے۔ اس لئے دل درد سے بھرا رہتا ہے۔دوسرا، غلام جسموں میں قید آزاد روحیں، مساوات، آزادی اور انصاف کے خواب نہ دیکھیں تو دم گھٹتا ہے،دیکھیں تو دیوتا، بادشاہ اور جری مرد مارنے کو دوڑتے ہے!
جسموں کی تجارت سامراجی دھندا ہے۔ جسموں کی تجارت کے دوام کے لئے "تمھارا جسم ، ہماری مرضی”،استعمار کا منشور ہے۔جسم پر قبضہ زمین یا ملک پر قبضے کی طرح ہے۔جسم ، جاگیر ہے اور "میرا جسم ، میری مرضی "، استعماری قبضہ چھڑانے کا چارٹر ہے۔ ناصحو، پند گرو، یہ مطالبہ استعمار کو ناگوار ہے، آپ کیوں استعمار کا ہتھیار بنتے ہیں۔جسم کی آزادی ایک خواب ہے کہ کمزوروں کے جسم جانوروں کی طرح بکتے ہیں۔ بھیڑوں بکریوں اور گندم چاول کی طرح منڈی کا مال ہیں۔ افریقی غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں اور جس جگہ یہ کاروبار ہوتا تھا اس جگہ کو "فیکٹری” کہتے تھے۔پندرھویں صدی سے انیسویں صدی عیسوی تک Atlantic Slave Trade عام تھا.ایک کروڑ بیس لاکھ مجبور افریقی غلاموں کی محنت سے یورپ اور امریکہ کا چہرہ سرخ و سفید ہے! داسیاں، غلام اور کنیزیں عام ہیں ۔سامراجی سوچ میں عورت ماں نہیں، ایک کم عقل اور بے وفا داشتہ ہے جو مرد کی ملکیت سے انکار کرکے بے وفائی کرے تو گولی کھاتی ہے اور وفا کرے تو ساری عمر گالی کھاتی ہے!
اسلام نے بندہ و آقا ، کالے اور گورے کی تمیز ختم کی تھی مگر عرب تاجر صدیوں تک غلاموں کی تجارت کرتے تھے ۔ عرب سوداگر فقہ کے عالم نہ تھے، سوداگر تھے۔ غلاموں کی تجارت کرتے تھے۔وہ ترک غلاموں کو "مملوک” اور کالے غلاموں کو "عبد” کہتے تھے۔لفظ مملوک،ملکیت سے ہے۔”عبد” کا مطلب "غلام” ہے اور غلام سے غلمان ہے ۔ ایبک، التتمش اور بلبن غلام تھے !مصر پر 1250 سے 1517 تک ترک مملوک حکمران رہے۔1260 میں عین الجلوت کے میدان میںمنگولوں کو شکست دینے والا سپہ سالار، رکن الدین بیبرس غلام تھا ۔ہندوستان میں بھی خاندانِ غلامہ کی سلطنت تھی۔ کہ غلاموں میں بھی گورے استعماریوں اور عربی وعجمی یا مغل بادشاہوں سی دانش ہوتی ہے۔ ہندوستان میں غلامی ذات پات کے نظام کا حصہ تھی۔ مہاویر، گوتم، کبیر، صوفیوں اور بھگتوں نے انسان کی برابری کے تصور کو عام کیا، مغرب میں انقلاب فرانس آیا مگر دنیا میں غلامی مختلف شکلوں میں برقرار ہے اور اس کی بدترین شکل عورت کی غلامی ہے !
افغانستان کے پہاڑوں ، عراق کے صحراؤں اور ویت نام کے جنگلوں سے جارج فلائیڈ، نور مقدم کے قتل اور بھگوان کی بہن کو گالی تک طاقت کی منطق کارفرما ہے۔کمزور قتل ہوتے ہیں یا ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔عورتیں اور اقلیتیں، تشدد کا شکار ہیں! مگر آج کی دنیا میں تین عوامل انسانیت کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔پہلا یہ کہ Black Lives Matter کی تحریک دنیا کے تمام مظلوموں اور کمزوروں کی آواز بن گئی ہے۔دنیا کے سارے مظلوم "کالی” زندگیوں کے دفاع کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ دوسرا،کیمرے کی لکھی تاریخ سے جھوٹ اور تعصب بتدریج خارج ہو رہا ہے۔تیسرا، ٹیکنالوجی اور میڈیا نے دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے۔ کمزور لوگ غصے میں ہیں اور ہم تاریخی طور پر غصے کے عہد میں زندہ ہیں اور دکھی ہیں۔ شاعر نصیر احمد ناصرکہتے ہیں کہ ہمارا دکھ گوتم سے بڑا ہے کہ ہم نے ایلان کردی کی لاش دیکھی ہے۔اور اس کے بعد ہم نے جارج فلائیڈ کا قتل دیکھا ہے۔نور مقدم کا کٹا ہوا سر دیکھا ہے۔مکیش بھیل کو اپنے بھگوان کی بہن کو گالی دیتے سنا ہے۔پدرسری سماج اور نوآبادیاتی سوچ میں عورت ، تمھارا جسم، ہماری مرضی کے پیراڈائم کی قیدی ہے ۔ یہ وہ منطق ہے جس کے تحت "میرا جسم ، میری مرضی” کا نعرہ فحاشی ہے کہ عورت کی آزادی، سامراج کی موت ہے !

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

رانا محبوب اختر کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author