گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
آج سے سو سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہر طرف پرندوں کی ڈاریں اڑتی نظر آتی تھیں اور اندھیری رات میں ھزاروں جگنو ایک سماں پیدا کر دیتے۔ یہ ہماری ثقافت کا حصہ تھے اور ماحول کو صاف رکھتے۔تلیر ہماری زندگی کے لیے اس لیے ضروری ہیں کہ یہ نقصان دہ کیڑے مکوڑوں اور سنڈیوں کو کھا جاتے ہیں جو فصلوں کے لیے تباہ کن ہیں۔آجکل تلیر جو ایک مہمان پرندہ ہے اس کے آنے کا موسم ہے مگر ان پرندوں کو مارنے کے لیے ہر درخت کے نیچے ایک شکاری بندوق لوڈ کر کے بیٹھا ہے۔اللہ کے بندو یہ ہمارے دوست پرندے ہیں اپنے پیٹ کو ان کا قبرستان نہ بناو۔ پارٹیشن سے پہلے یہاں کے ہندو شکاریوں سے یہ پرندے خرید کر آذاد چھوڑ دیتے تھے۔ بہت عرصہ ہوا ہریل طوطا نہیں دیکھا جس پر گانا سنتے تھے۔۔
باغاں دے وچ ہریل طوطا پھردا ڈالی ڈالی۔۔
اسی طرح درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہلیں مجھے ہانٹ کرتی ہیں۔
؎
کل شاخ تے بیٹھے دو پکھواں بھلے ویلے یاد ڈیوا چھوڑے ۔۔کدی اتلی ٹہنی کدی تلویں ٹہنی اناں کی کی روپ وٹا چھوڑے ۔اناں چونج دے نال چونج لا کے ساڈے دل دے زخم ڈکھا چھوڑے۔ ساتوں شاکر نہ برداشت ہویا اساں تاڑی مار اڈا چھوڑے۔
میں اپنے بچپن میں جگنو کی جھار کا مظاہرہ اپنے صحن میں دیکھتا جیسے آسمان کے تارے چمکتے ہیں۔ مگر اب تو ایک جگنو نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر ؎
بہت کوشش میں کرتا ہوں،
اندھیرے ختم ہوں لیکن۔۔!
کہیں جگنو نہیں ملتا،
کہیں پر چاند آدھا ہے۔۔!!!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر