گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب بندہ دسویں کلاس میں لاہور کے مسلم لیگ ہائی سکول پڑھتا تھا ۔لاہور کے لوگ کھلے ڈلے ہیں سڑیل مزاجی تو ساتھ سے نہیں گزری اس لیے ہمارے کلاس فیلو ہر ہفتے چھٹی والے دن پکنک یا فلم دیکھنے کا پروگرام بناتے اور میں اس میں شامل رہتا۔ ویسے تو لاہور میں بے شمار سیر گاہیں ہیں مگرلاہور کا شاہی قلعہ ۔ شالیمار باغ ۔ جم خانہ کے ساتھ باغ جناح اور لکشمی چوک میرے سنگتیوں کے پسندیدہ علاقے تھے جہاں ہم بار بار جاتے تھے۔ شاھی قلعہ کے اندر دو سرنگوں کےویران سے دروازے تھے جن کے متعلق مشھور تھا کہ ایک سرنگ مقبرہ جہانگیر پر نکلتی ہے اور دوسری سرنگ لال قلعہ دہلی پہنچتی ہے۔ میرے تین دوستوں کو لال قلعہ دیکھنے کا بہت چِھتہ(باولا) شوق تھا اور مجھے بھی غیرت ویرت دلا کر ساتھ شامل کر لیا .مجھے اس وقت سرائیکی گیت ۔۔۔ڈِھاڑے ڈو ہنی جوانی بھیڑی.مطلب جوانی تو صرف دو دن کی ہے ۔۔۔تو نہیں آتا تھا مگر کیفیت بالکل ایسی تھی۔ چنانچہ ہم نے چھٹی والے دن اس سرنگ میں لال قلعہ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ پکنک میں ہمارے ساتھ ایک مٹی کے تیل کاچھوٹا سا چولھا ہوتا تھا جس سے کچھ کھانا گرم کرلیتے یا چاے پکا لیتے۔ ہم چار لڑکے قلعہ کی سیکورٹی والوں سے آنکھ بچا کر اس سرنگ میں گھس گیے۔سب سے آگے میرے ہاتھ میں چولہہ تھا جس کا شعلہ جلا کے روشنی کی ہوئ تھی کیونکہ سرنگ میں اندھیرا تھا۔ سرنگ میں سیڑھی کی طرح سٹیپ بنے تھے اور وہ گھومتی ہوئ نیچے جا رہی تھی۔ جب میں گھومتا تو پچھلے دوستوں کو روشنی ختم ہو جاتی اور اندھیرے میں وہ چیخنے لگتے پھر میں رک کر ان کی طرف روشنی کرتا۔ اس طرح ہم کافی دیر چلتے رہے اور ہانپنے لگے۔مگر خوش قسمتی سے سرنگ کے دوسری طرف روشنی ہونے لگی۔ دوست کہنے لگے لال قلعہ آگیا اور واقعی ایک باتھ روم جتنا کھلا دروازہ آگیا۔وہاں سے چار فٹ نیچے جمپ لگایا اور سامنے ایک کھلی سڑک نظر آئ ۔سب دوستوں نے دل دلی کا شور مچا دیا کہ سامنے اومنی بس لاہور آ گزری ۔پتہ یہ چلا کہ ہم شاھی قلعہ لاہورکی بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں ۔یہ در اصل بادشاہوں کے چور راستے ہیں کہ دشمن اگر قلعے کے اندر داخل ہو تو بادشاہ بمع فیملی جان بچا کے نکل جاے۔
اکثر مندروں کے نیچے بیسمنٹ بناے جاتے ہیں جن میں مندر کی آمدنی اور سونا چاندی جمع کیا جاتا ہے کچھ مندروں میں داسیاں بھی رہتی تھیں۔
جہاں تک سرنگوں کی بات ہے یہ تصور تو برصغیر میں انگریز لے آے جب انہوں نے ریلوے سروس شروع کی۔انگریزوں نے حیرت انگیز طور پر جدید مشینری کے نہ ہونے کے کےباوجود ایسی سرنگیں بنائیں جو اعلی تعمیرات کا نمونہ ہیں اور اب تک استعمال ہو رہی ہیں۔
تو ڈیرہ کے خالصہ سکول میں سرنگ کا تصور ایک myth یعنی فرضی تصور ہے۔ سعد عبداللہ Saad Abdullah صاحب کی پوسٹ میں
امان علی زئ صاحب @Aman کے کمنٹس سب سے زیادہ مصدق ہیں کیونکہ امان صاحب پارٹیشن کے بعد سکول کے کھلنے والی پہلی کلاس کے سٹوڈنٹ ہیں۔ خالصہ سکول 1947 سی 1955 تک سیکورٹی کی وجہ سے سےبند رہا۔ پھر شبیر شاہ صاحب جو اس سکول کے ٹیچر اور اورسٹوڈنٹ رہے نے حقیقت بیان کر دی ۔
میری یہ پوسٹ سعد عبداللہ صاحب کی اس پوسٹ کے جواب میں لکھی گئ جس میں انہوں نے پوچھا تھا ۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر زمین سرنگوں کا سنتے آئے ہیں کہ قلعہ سے لے کر خالصہ گردوارہ یعنی نمبر تین سکول تک موجود تھیں, احباب اس بارے کیا جانتے ہیں؟ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس پر پوسٹ کرونگا۔
میری ایک پرانی خالصہ سکول پر ڈاکومنٹری ساتھ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر