حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحوم مولانا گلزار احمد مظاہری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ (ڈاکٹر صاحب، جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ کے بھائی ہیں) نے آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی ’’کارکردگی‘‘ کے حوالے سے ’’جماعت اسلامی کا یکطرفہ فیصلہ‘‘ کے عنوان سے بڑا جذباتی کالم لکھا۔
کالم کیا ہے ’’مرثیہ‘‘ ہے۔ سطر سطر دکھ و رنج سے عبارت ہے۔ ان کے بقول جماعت اسلامی کو ووٹ نہ دینے والے بھی اس کی امانت، دیانت، شرافت اور اخلاص کے معترف ہیں۔
ایسے لوگوں کا وہ کم از کم ایڈریس ہی لکھ دیتے تاکہ ’’زیارت‘‘ کی جاسکتی۔
ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے دوسرے جماعتی دانشور یہ بھول جاتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے پاس ساڑھے تین نشستیں تھیں۔ نصف نشست وہ جس پر آزاد امیدوار سردار شیرباز مزاری منتخب ہوئے تھے جماعت اسلامی کا دعویٰ تھا کہ سردار صاحب چونکہ ان کی مدد سے جیتے ہیں اس لئے یہ نشست بھی ان کی ہی ہے۔
1970ء کے بعد جماعت اسلامی ایک بار اسلامک فرنٹ کے نام سے تنہا میدان میں اتری تھی۔ قاضی حسین احمد کی قیادت میں نتیجہ کیا نکلا؟ اتحادی سیاست ہی ہمیشہ جماعت کو راس آئی۔
جنرل ضیاء الحق والے غیرجماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے غالباً 9 افراد قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ کیسے پہنچے یہ الگ داستان ہے۔ جماعت کے نزدیک یہ مقبولیت کی معراج تھی۔ خیر یہ الگ قصہ ہے۔
ہم آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابی نتائج اور جماعت اسلامی کی کارکردگی پر بات کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین پراچہ سمیت دوسرے قابل احترام جماعتی دوست بڑے دکھی ہیں اس دکھ کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی خود کو جہاد کشمیر کا بانی مبانی سمجھتی ہے۔
پراچہ صاحب نے بھی اپنے کالم میں یہی تاثر دیا ہے۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست میں کبھی بھی اہم فریق شمار نہیں ہوئی۔ ماضی میں ریاستی اسمبلی میں ان کی جو ایک آدھ نشست ہوئی بھی یہ دوسروں کی مرہون منت تھیں نہ کہ جماعت کے عالمگیر انقلاب اسلامی سے متاثرہ رائے دہندگان کے جوش و خروش کا نتیجہ۔
ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے کل 32 امیدوار کھڑے کئے تھے۔ فقیر راحموں 32کے اس عدد پر ’’انتخابی حق مہر ‘‘کی پھبتی کستے رہے
وہ تو شکر ہے کہ سابق امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی تحریک انصاف کے امیدوار تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہوگئے۔
جناب ترابی اور ان کے ہمدرد اس دستبرداری کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا نام دیتے ہیں۔ یہ اصطلاح معروف معنوں میں تو یہ ہے کہ آپ ایک سیٹ سے دستبردار ہوئے بدلے میں دوسری جماعت نے کسی اور حلقے سے اپنا امیدوار دستبردار کروالیا۔ لیکن یہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ وہ وعدہ ہے جو تنویر الیاس نے مخصوص ٹیکنوکریٹ نشست کے حوالے سے کیا۔
عبدالرشید ترابی اس ذریعے سے قبل ازیں بھی رکن اسمبلی بن چکے ہیں۔ ترابی صاحب کی دستبردای پر ریاستی جماعت نے ان کی رکنیت معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
خیر یہ جماعت اسلامی کا اندرونی ملاکھڑا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جناب ترابی کی دستبرداری ’’کمپنی بہادر‘‘ کی خواہش پر تھی اور 2مخصوص نشستوں (ایک علماء مشائخ اور ایک خاتون) کی یقین دہانی بھی کمپنی بہادر کی طرف سے کروائی گئی۔
خیر ترابی صاحب کی دستبرداری کے بعد جماعت اسلامی کے 31 امیدوار میدان میں رہ گئے۔ کشمیری تحریک مزاحمت کے باوا آدم کے طور پر خود کو پیش کرنے والی جماعت اسلامی
(پھریہ دعویٰ بھی درست نہیں کیونکہ جب مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد 1983ء میں تحریک مزاحمت کا حالیہ دور شروع ہوا تھا تو اس وقت سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن تھے)
کے 31امیدواروں نے کل ملاکر کتنے ووٹ حاصل کئے اس حوالے سے ہمارے ایک عزیز سید انصر عباس بخاری نے اطلاع دی کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں جماعت اسلامی نے مجموعی طور پر 28979 ووٹ حاصل کئے۔ کہا جارہا ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ اسے چکار کے حلقہ سے 2341ملے۔ اب یوں سمجھیں کہ 31امیدواروں کو 29ہزار ووٹ ملے تھے یہ تو فی کس ایک ہزار سے بھی کم ہیں۔
عالمگیر انقلاب اسلامی اور جہاد کشمیر کی ’’بانی‘‘ جماعت کے ساتھ کشمیری رائے دہندگان کا یہ سلوک بتاتا ہے کہ خود کشمیری بھی آزادی نہیں چاہتے ورنہ وہ حریت پسندوں کی جماعت، جماعت اسلامی کے دوچار بندے اسمبلی میں بھجوادیتے۔
جماعت اسلامی کی انتخابی اٹھان ہمیشہ اتحادی سیاست کے طفیل ہوئی یا فوجی آمر کی سرپرستی کی وجہ سے ورنہ تو اسلامک فرنٹ ہی لے ڈوبا تھا جماعت اسلامی کو حالانکہ ان انتخابات میں لگتا یہ تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی جیت جائے گی۔
پاکستانی سیاست میں جماعت ایک عرصہ تک (ن) لیگ کی اتحادی رہی پھر اس تعلق میں دراڑ پڑگئی۔ میاں نوازشریف نے قاضی حسین احمد پر جہاد کشمیر کے لئے خود سے اربوں روپے لینے کا الزام لگایا جواباً قاضی صاحب نے عدالت میں دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔
لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ ذہنی طور پر (ن) لیگ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔
اطلاع یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی پاکستانی اور کشمیری قیادت سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے رابطہ کیا تھا۔ راجہ فاروق حیدر (آزاد کشمیر کے وزیراعظم) انتخابی تعاون کے لئے آمادہ تھے انہوں نے مرکزی (یعنی پاکستانی ) قیادت کو پیغام بھجوایا کہ جماعت اسلامی کو مہاجرین کی 3 اور آزاد کشمیر سے ایک نشست انتخابی تعاون پر دی جاسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی مہاجرین کی 5 اور آزاد کشمیر سے 3نشستیں مانگ رہی تھی اس لئے بات بن نہ پائی۔
جماعت کے ذرائع کہتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی البتہ انتخابی تعاون کے لئے ابتدائی مذاکرات ضرور ہوئے تھے۔
(ن) لیگ کی ذمہ دار شخصیت سے اس تحریر نویس کو تصدیق کی کہ جماعت نے آزاد کشمیر سے 3نشستیں اور مہاجرین کی 5نشستیں مانگی تھیں مگر جواب میں جو کہا گیا وہ بالائی سطور میں عرض کرچکا۔
کشمیری تحریک مزاحمت کے باوا آدم کے طور پر خود کو پیش کرنے والی جماعت اسلامی کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں جو ہوا جماعت کے بڑوں کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے لیکن ضروری ہے کہ وہ عالمگیر انقلاب اور جہاد کی بلند چوٹیوں سے نیچے اتر کر غوروفکر کریں۔
حرف آخر یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو کلی طور پر مسترد کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ رائے دہندگان مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اقلیت اب بھی مذہبی بنیادوں پر ووٹ دیتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر