مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حفیظ گیلانی اور ثوبت ۔۔۔||گلزار احمد

میں اپنے تمام دوستوں کا بہت ممنون ہوں کہ ان کی شفقت کی وجہ سے ڈیرہ کی تاریخ اور کلچر کے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں۔ جن کو ریکارڈ پر لایا جاے گا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Searching the roots.
کل ڈیرہ میں موسم خوشگوار تھا ۔ اس لیے میں صبح سویرے یونائٹڈ بک سنٹر دوستوں کو ملنے چلا گیا۔ لطیف صاحب سے گفتگو جاری تھی کہ ملک کی ممتاز شاعرہ اور کالم نگار رخسانہ سمن صاحبہ تشریف لائیں ۔وہ محترم ریاض انجم صاحب کی نئ کتاب ۔زندہ رود کے ساحلوں پر۔۔وصول کرنے آئ تھی جو انجم صاحب ان کےلیے یہاں چھوڑ کر
گیے تھے۔انہوں اپنی ادبی سرگرمیوں
سے متعلق تفصیل سے بتایا ۔ وہ اگلے ہفتے لیہ میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے بھی جا رہی ہیں۔ اس دوران میری اور سمن صاحبہ کی بھکر ریاض انجم سے فون پر گفتگو بھی ہوئ۔ان کے جانے کے بعد حمزہ حسن شیخ آ گیے اور کافی دیر ادب کے فروغ پر گفتگو ہوتی رہی ۔ میں گھر پہنچا تو تین بجےملک کے ممتاز معالج ڈاکٹر شاھد مسعود خٹک صاحب کا فون آیا کہ وہ غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں اور سرائیکی کلچر کے مختلف پہلوٶں پر وہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں اس پر ڈسکشن ہو گی ۔ ڈاکٹر صاحب تین بجے تک کلینک میں سخت مصروف ہوتے ہیں پھر بھی علمی سرگرمیوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔وہ پہلے دو کتابیں۔۔۔پاکستانی معاشرہ اور جہان حیرت شائع کر چکے ہیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ میں نے فورا” مرشد حفیظ گیلانی صاحب کو درخواست کی کہ وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور اس موضوع پر گائڈ کریں۔ وہ شدید مصروفیت کے باوجود پہنچ گیے ۔اس مقصد کے لیے مجھے سید ارشاد شاہ صاحب اور علی مروت سے بھی اجازت لینی پڑی کیونکہ اس وقت یہ دو لوگ مرشد کے پاس بیٹھے تھے۔ حفیظ گیلانی صاحب پانچ بہت اہم کتابوں کے مصنف ہیں جن کے کئ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ کتابیں یہ ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان تاریخ کے آ ئینے میں …
بلوچ قوم کا تاریخی پس منظر ….
نت کرلاوے کونج….
ان رادھ …
سجھ دا سیک….
پھول خوش بو چاندنی ۔۔۔
بہر حال چھ بجے ڈاکٹر صاحب اور گیلانی صاحب میرے گھر پہنچ گیے اور میں انہیں اپنے بیسمنٹ لے گیا جہاں لوڈ شیڈنگ اور گرمی کی وجہ سے نظر بند رہتا ہوں۔ دونوں حضرات نےڈیرہ کی تاریخ۔کلچر۔زبان۔سولایزیشن اور رسم رواج پر ڈھائ گھنٹے بہت علمی گفتگو کی اور میں ہمہ تن گوش سنتا رہا اور نوٹ کرتا رہا ۔ اسی اثنا ڈاکٹر سعد عبداللہ صاحب کا میسیج آیا کہ وہ خالصہ سکول کے اندر تاریخی سُرنگ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے متمنی تھے۔میں نے ان سے اس مصروفیت کی وجہ سے معذرت کی اور وعدہ کیا اس پر جلد ایک پوسٹ کر دونگا۔
میں اپنے تمام دوستوں کا بہت ممنون ہوں کہ ان کی شفقت کی وجہ سے ڈیرہ کی تاریخ اور کلچر کے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں۔ جن کو ریکارڈ پر لایا جاے گا۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے مورخ ۔ادیب شاعر۔افسانہ نگار کئی کتابوں کے مصنف مرشد حفیظ گیلانی عجب جانانہ طبیعت کے مالک ہیں۔ میں ہفتے میں ایک دفعہ ضرور ان کے دربار پر حاضری دیتا ہوں۔ پچھلے دنوں ڈیرہ میں شدید گرمی پڑی تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا ۔ ان کا فون آیا اور کافی دیر خفگی کا اظہار کرتے رہے ۔ مگر مجھے پتہ ہوتا ہے یہ خفگی کے آخر میں کیا کہیں گے اور وہی ہوا انہوں نے کہا ۔۔ثوبت مجھ پر ہوگئی۔۔ وہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر خود پر جرمانہ لگاتے ہیں اور میں دوستوں سمیت مزے سے ان کے گھر ثوبت انجاے کرتا رہتا ہوں۔ اب میں بارش کی انتظار میں ہوں جونہی ذرہ ساون نے کنڑ منڑ لائ ہمارے مزے شروع۔۔بس دل کرتا ہے مرشد حفیظ گیلانی کو ہر ہفتے ناراض کرتے رہا کریں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جتنی زیادہ ثوبت کی ڈش استعمال کی جاتی ہے شاید ہی کوئی اور ڈش استعمال ہوتی ہو۔یہ ہماری سیکڑوں سال پرانی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ کچھ علاقوں میں اسے پینڈا کہتے ہیں۔عربی میں ثرید کے نام سے یاد کی جاتی۔ثوبت پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور جس ہاتھ سے پکائی جاتی ہے اس کا علیحدہ ذائقہ ہوتا ہے۔ ثوبت پکانے کی Recipe ریسیپی میں بھی تھوڑا فرق ہے۔البتہ اس کے لیے جو روٹی استعمال ہوتی ہے وہ کاغذ کی طرح پتلی ہوتی ہے جسے یہاں مانے کہتے ہیں۔ کلاچی کی ثوبت ۔دامان کی ثوبت ۔شھر کی پکی ثوبت اپنا اپنا علیحدہ منفرد ذائقہ اور خوشبو رکھتی ہے۔ ثوبت بنانا ایک ہنر skill ہے
May be an image of food and indoor

%d bloggers like this: