شمائلہ حسین
مس شائستہ جمال کے کہنے پر تو میں آگ میں بھی کود جاتی ۔۔۔
(ملیے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے ۔۔قسط 3)
مس شائستہ جمال کو آپ دراصل وہ استاد کہہ سکتے ہیں جو پتھر کو تراشنے کا ہنر جانتی تھیں ۔ ایسا نہیں کہ میں کوئی خاص سٹوڈنٹ تھی، ان کی نظر کرم جس پر پڑ جاتی وہ اسے اس قابل ضرور کر دیتیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کوبہتر طور پر استعمال کر نے کا فن جان لیتا۔
رہی بات میری تو قدرت مجھ پر مہربان تھی اس لیے ان کی توجہ حاصل کر پائی ۔
میری زندگی کی وہ پہلی استاد تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی اکیلے رہتے ہوئے بھی ممکن کی جا سکتی ہے ۔
انہیں سرخ رنگ پسند تھا ،لپ اسٹک بھی شوخ رنگ کی لگاتیں ۔ چھوٹے سے نازک سراپے کے ساتھ جب وہ کسی تقریب پر بڑے بڑے جھمکے کانوں میں پہنتیں تو پوری تقریب ان کے دم قدم سے سج جاتی ۔
میرے جیسے پس منظر سے آئی سٹوڈنٹ کے لیے کسی عورت کا جوان ہونا اور پھر بھی غیر شادی شدہ ہونا بہت عجیب معاملہ تھا۔ انہوں نے بھی شادی نہیں کی تھی یہاں میاں چنوں کالج میں وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں جسے سٹاف ہاسٹل کہا جاتا تھا ،رہائش پذیر تھیں ۔ اپنے سارے کام خود کیا کرتی تھیں۔
وہ چنگ چی رکشے پر بیٹھتیں اور ہمارے پس ماندہ ذہنیت کے علاقے میں بڑے اعتماد کے ساتھ گراسری ، سٹیشنری اور ضرورت کی تمام چیزوں کا خود انتظام کرتیں ۔
مزاج کی بہت غصیلی تھیں جو بات انہیں غلط لگتی وہ اس کے خلاف ڈٹ جاتیں ۔ میں نے کالج کے ملازمین ، کالج سٹاف اور سٹوڈنٹس کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کی درگت بناتے ہوئے انہیں دیکھا ۔
سب ان سے دبتے تھے بہت کم کسی کو جرات ہوتی تھی کہ ان کے سامنے ایک سے دوسری بات کر جائے ۔
لیکن جب میں ان سے قریب ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ کسی چھوٹے بچے جیسی معصوم اور رحم دل تھیں ۔ کتنی ہی سٹوڈنٹس کی مالی اور اخلاقی مدد کرتے کرتے وہ اکثر اپنی تنخواہ ختم کر بیٹھتیں ۔
انہیں اپنے بہن بھائیوں کے بچوں سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی کوئی فرمائش کبھی نہ ٹالتیں ۔ یہاں تک کہ انہیں اگر قرض بھی اٹھانا پڑتا تو اٹھا لیتیں ۔
ان کو بچپن میں کسی بیماری کے سبب ٹانگوں میں کوئی مسئلہ ہوا جس کے باعث انہیں چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا لیکن یہاں بھی انہوں نے مجھے حیران کیا کسی قسم کا کوئی سہارا وہ نہ لیتیں اور کبھی اس وجہ سے وہ اپنے افعال میں سست روی کا شکار بھی نہیں ہوئیں ۔
صفائی پسند تھیں اپنا کمرہ ، کپڑے اور برتن اپنے ہاتھوں دھلے ہوتے تو ہی انہیں صاف ہونے کے معیار پر اعتبار قائم ہوتا۔
ادب کا اچھا ذوق رکھتی تھیں چونکہ اہل زبان تھیں تو ان کا لہجہ اور تلفظ بھی اپنے آپ میں الگ شان رکھتا تھا۔
کالج کی سالانہ تقریبات کے سلسلے میں میلاد کے دوران نعتوں ، کلام اقبال ترنم کے ساتھ پڑھنے اور گانوں کے مقابلے کی تیاری کرواتے وقت اکثر ان کو گاتے سنا کرتے تھے تو رشک آتا تھااور یقین نہیں آتا تھا کسی استاد کو گانا بھی گانا آتا ہوگا صرف اتنا ہی نہیں آواز بھی اس قدر اچھی ہوتی ہے کیا کسی استاد کی ۔
ہمارا دماغ ضرورت سے زیادہ سرکاری سکولوں کے ماحول کا عادی تھا ۔ ہم نے تو شدید سنجیدہ چہروں والے اساتذہ دیکھ رکھے تھے جن کے چہرے پر ہنسی سال میں ایک بار نظر آ ہی جاتی تو اگلے لمحے ہمیں کسی بات پر تھپڑ بھی کھانا پڑتا ۔
مس شائستہ تو کچھ الگ ہی دنیا کی باسی محسوس ہوئیں جو ہمارے ساتھ قہقہے لگاتی ہیں ، باتیں کرتی ہیں ، خوش ہوتی ہیں تو دونوں ہاتھ بھنگڑے کے انداز میں اٹھا کر ہاتھوں کی ہلکی سی حرکت کے ساتھ معصوم سی کھلکھلاہٹ کے ساتھ اس کا اظہار کرتی ہیں ، ہم حیرت اور خوشی سے بس پاگل نہیں ہوتے تھے باقی بچتا کچھ نہیں تھا ۔
انہوں نے مجھ پر پہلا احسان تو یہ کیاکہ میری تمام بولنے، لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتوں کو خوب نکھارا ۔ مجھے ہر تقریب میں حصہ لینے کا حکم ہوتا تھااور
شمولیت کرنے والی طالبات کو ہفتوں تیاری کروائی جاتی ۔ مس شائستہ اس قدر لگن سے کام کرتیں اور پر جوش ہوتیں کہ ہمارا بھی شوق بڑھ جاتا ۔
وہ ایک ایک لفظ درست کرواتیں ، تقاریر خود لکھ کر دیتیں ، ان کے پاس نعتوں اور موسیقی کا کمال انتخاب ہر وقت موجود ہوتا ۔ ایک ٹیپ ریکارڈر ان کے پاس ہمہ وقت ہوتا جس میں کیسٹیں لگا لگا کر وہ ایک ایک لفظ کی درست ادائیگی اور سر تال کو یقینی بناتیں ۔ میں ان سے اس قدر متاثر تھی کہ وہ مجھے آگ میں کودنے کا کہتیں تو میں کود جاتی ۔
ہوتے ہوتے ان سے تعلق اتنا اچھا ہوا کہ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگیں اور یہاں سے انہیں میرے معاشی حالات کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔
یوں بھی میں نے کالج میں خیراتی یونیفارم اور فیس معافی کے لیے درخواست جمع کروائی تو انہیں تب بھی معاملات کی سمجھ آئی اور جب انہیں معلوم ہوا کہ سردی گرمی ، دھوپ بارش میں ہم سہیلیاں پچاس منٹ کا پیدل راستہ طے کر کے آتی ہیں تو پہلی بار انہوں نے مجھ سے اپنی زندگی کی مشکلات کا ذکر کیا، یہاں سے مجھے مزید حوصلہ ہوا۔
مس شائستہ میرے نانا ابو اور والد صاحب کے بعد تیسری شخصیت تھیں جنہوں نے مجھے نصابی کتب سے ہٹ کر کتابوں کے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ نانا ابو کے پاس پنجابی منظوم داستانیں ہوا کرتی تھیں جنہیں پڑھنے کے شوق میں میں نے ان سے پنجابی پڑھنا سیکھا ، ابو جی کو مذہبی کتابوں کاشوق تھا تو میٹرک تک ان کی تمام کتابیں سمجھ میں آتیں یا نہ میں پڑھ ضرور لیتی ۔
پھر ہمارے بچپن میں تعلیم و تربیت ، پھول اور نو نہال کے نام سے بچوں کے رسائل آیا کرتے تھے ابو جی نے وہ بھی لگوا رکھے تھے ۔ بھائی کو عمران سیریز، سب رنگ اور جاسوسی ڈائجسٹ کی چاٹ تھی تو وہ بھی جب ہاتھ لگتے پڑھ لیتی اس عادت نے مجھے مس شائستہ کی پرسنل کلیکشن اور کالج کی لائبریری تک رسائی دی ۔
پہلی بار اردو ادب کے بڑے اہم ناول ہاتھ لگے ، ایک نئی دنیا سے تعارف ہوا اور میں نے تہیہ کر لیا کہ اب کچھ بھی ہو اردو ادب کو بطور مضمون پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔
فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کا وقت گزر گیا ۔ امتحان ہوئے اور حیرت انگیز طور پر میں اب کی بار بھی ہائی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ۔
لیکن ایک بار پھر تھرڈ ائیر میں ایڈمیشن کا وقت آیا تو تب تک حالات مزید خراب ہوچکے تھے ۔ کمانے والے صرف ابو تھے ۔
ابوجی ریڈیو ، ٹی وی ، ٹیپ اور وی سی آر وغیرہ کے مکینک تھے ان کی مرمت کا کام کرتے تھے ۔ زمانہ بدل رہا تھا ، ایل سی ڈی ، کمپیوٹر اور سی ڈی پلئیرز نے پرانے برقی آلات کی جگہ لینا شروع کردی تھی ۔ ابو جی خود کو اپڈیٹ نہیں کرپا رہے تھے اور کاروبار مزید برے حالات کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔
گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑا رہنے لگا ، مشترکہ خاندانی نظام میں آکے رہنے سے اندازہ ہوا کہ دور کے ڈھول سہانے کیوں ہوتے ہیں ۔ ہمارا کھانا پینا بھی چچا کے سر پڑ گیا تو رہی سہی عزت نفس بھی ہوا ہو گئی ۔ ابو جی شریف النفس آدمی تھے کئی بار میں نے انہیں سجدوں میں بے بس ہو کر روتے دیکھا ۔
امی کو دیکھتی تو وہ الگ ہر وقت کڑھتی رہتیں ۔ ہم بہن بھائیوں کو لگنے لگا کہ ہمار اکوئی والی وارث ہی نہیں ہے ۔ گھر کا ماحول ایسے ہوگیا جیسے جہنم ۔۔۔
ہم لوئر مڈل کلاس لوگوں کا ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ ہم اخلاقی قدروں، سماجی روایات اور مذہبی معاملات کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ ادھر بھی یہ ہی ہوا امی ابو کی عزت نفس انہیں ان کے معیار سے نیچے جاکر کسی قسم کی مزدوری کی اجازت نہ دیتی ۔
بھائی بھی ان ہی کا بیٹا تھا پھر بچپن اتنا خوشحال گزرا ہو تو ایسے حالات کے ساتھ سمجھوتہ زیادہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا ہے ، لہذا پانچ بہنوں کا ایک بھائی اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پارہا تھا۔
اب ان حالات میں تھرڈ ائیر میں داخلے کی خواہش میں نے ترک دی اور کسی سے کچھ کہے سنے بغیر گھر بیٹھ کر پڑھنے کا فیصلہ لے لیا۔
کالج میں داخلے جاری تھے میری سہیلیاں ایڈمیشن لے چکی تھیں ۔مجھے ان کی طرف سے پیغام وصول ہوئے ایک آدھ بار وہ ملنے آئیں لیکن میں نے داخلے سے منع کردیا اور قناعت کر گئی ۔
مس شائستہ جمال کو جب معلوم ہوا کہ میں داخلہ نہیں لے رہی تو۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر