اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی||ظہور دھریجہ

منشیات کے سارے تانے بانے ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک سے ملتے ہیں۔ منشیات کے کاروبار میں وہ لوگ بھی ملوث ہیں جو مذہب کے نام لیوا ہیں ۔ قوم فکری، روحانی اور جسمانی اعتبار سے مفلس ہوتی جا رہی ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں لاہور جانا ہوا تو ملک کے معروف دانشور و صحافی جناب ارشاد احمد عارف سے ملاقات ہوئی،مجھے خوشی ہے کہ ایک لحاظ سے اُن کا تعلق خانپور سے بھی ہے کہ آپ وہاں پڑھتے رہے ہیں ۔اس موقع پر اُن کے اُستاد محترم حضرت سراج اہلسنت کا تذکرہ ہوا ۔قبلہ حافظ سراج احمد ؒ کی پیدائش 1331ھ بمطابق 1911ء خانپور میں ہوئی ۔
ابتدائی تعلیم قبلہ حافظ نظام دین سے حاصل کی ‘ اسلامی کتابیں معروف عالم دین مولانا محمد موسیٰ سے پڑھیں۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم سراج الفقہ حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی سے مکھن بیلا میں جا کر حاصل کی ۔
 ازاں بعد بھرچونڈی شریف میں مولانا عبدالکریم ہزاروی سے کچھ کتابیں پڑھیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں قبلہ حافظ صاحب ہندوستان بھی گئے اور دارالعلوم سہارن پور میں بھی پڑھتے رہے۔ دارالعلوم دیو بند میں حدیث کی کتابیں پڑھیں ۔ 1929ء میں جلسہ دستار فضلیت منعقد ہوا اور آپ کو بہترین طالب علم کی پگ باندھی گئی ۔ دربار جیٹھہ بھٹہ کے سجادہ نشین میاں امام بخش کی درخواست پر جیٹھہ بھٹہ کے مدرسے میں پڑھاتے رہ گئے ۔ 1957ء میں انہوں نے خانپور میں مدرسہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی۔ جشن عید میلاد النبیؐ کا جلسہ پہلے سے کر رہے تھے اور خانپور میں مدرسہ قائم کرنے کے بعد بھی اس روایت کو مزید آگے بڑھایا ۔
 آپ کی بیعت خواجہ دُر محمد کوریجہ سے تھی ، اس نسبت سے آپ درانی کہلواتے ۔ کجھ لوگ سمجھتے کہ درانی آپ کی ذات ہے ، در اصل درانی آپ کی ذات یا قومیت نہیں نسبت ہے ۔ قبلہ حافظ سراج احمد در اصل شارح دیوان فرید تھے ، آپ قرآن مجید کے حافظ تو تھے پر سارا دیوان بھی ان کو یاد تھا۔ جب تقریر کرتے تو قرآن مجید کی آیت کا حوالہ ، حدیث شریف اور خواجہ فریدؒ کے اشعار آپ کی تقریر کا خاصہ تھے۔ جمعہ کے دن مسجد کمال دین میں جمعہ پڑھاتے‘ مقامی تھوڑے اور مہاجر بھائی بہت زیادہ ہوتے تھے مگر حافظ صاحب نے کبھی اردو میں تقریر نہ کی ، وہ ہمیشہ سرائیکی میں تقریر کرتے ، البتہ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے اردو شعر ضرور شامل کرتے، یہ شعر میں نے اکثر ان سے سنا ’’ آنکھ والا جو بن کا تماشہ دیکھے، دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے ‘‘ ۔
اسی طرح خواجہ فرید کے شعروں کے ساتھ ساتھ مولانا محمد یار فریدی ؒ کے اشعار بھی بڑی محبت کے ساتھ اپنی تقریر میں شامل کرتے ’’ قاصد مٹھا مصریاں ڈٖیساں ، پُنل منا ایویں ونجٖ تے آ۔ دُھرک پئے رُٹھی سرکار کوں ، راہوں ولا ایویں ونجٖ تے آ ‘‘ ۔ اس کافی کے ساتھ ساتھ ہم نے اکثر محمد یار فریدیؒ کے یہ شعر بھی ان کی تقریر میں سنتے حافظ صاحب کی آخری تقریر کی بات کروں گا ، نہ مجھے ان کی شکل بھولتی ہے اور نہ ان کی آخری تقریر ۔ آخری تقریر میں انہوں نے خود بتایا تھا کہ ’’ اب ہمارے آخری دن ہیں ‘‘ ۔
 قبلہ حافظ صاحب کی ہر تقریر میں سوز و گداز بہت ہوتا ۔ جس وقت تقریر شروع کرتے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو جاتی۔ سرور کائنات ؐ کی ذات سے بہت محبت کرتے تھے ۔ سچے عاشق رسول تھے ۔ جو بات میں یہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آخری تقریر کے وقت آپ بھی بہت روئے ، جماعت کو بھی رُلایا ۔ ان کی تقریر موت کے بارے میں تھی ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حافظ صاحب کے مدرسہ سراج العلوم میں ایک پرانا ویران کنواں تھا ۔ ایک طالب علم کی ٹوپی اس میں گر گئی، وہ بچہ ٹوپی لینے گیا تو نہ آیا۔ کنویں میں گیس بھری تھی ‘ دوسرا بچہ بشیرا حمد اس کو نکالنے گیا تو وہ بھی نہ آیا ‘ تیسرا بچہ حافظ خورشید احمد سے نہ رہا گیا۔
 وہ بھی ان کے پیچھے گیا تو وہ بھی موت کے اندھے کنویں کی نذر ہوگیا۔ دوسرے دن جمعہ تھا ۔ قبلہ حافظ صاحب کے دل پر اس صدمے کا گہرا اثر تھا ۔پہلے قبلہ حافظ صاحب تقریر شروع کرتے تو وہ گریہ کرتے، اس بار تقریر سے پہلے ہی آنسوؤں کی برسات جاری تھی ۔مصیبت کی اس گھڑی میں حافظ صاحب کی زبان پر خواجہ صاحب کی کافی کے یہ بول تھے : پریں احٖ نہ گٖیوسے کل ہی سہی ایہو وطن بیگانہ کوڑا کوڑ ٹنکانہ رنگ گل پھل ڈٖیکھ کے نہ بہیں سدھے راہواں سالک رُل نہ بہیں ہیں جگٖ دی جگٖ مگٖ سمجھ بہانہ قبلہ حافظ صاحب اپنی تقریر میں موت حیات کا فلسفہ بھی بیان کر رہے تھے ، دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ تصوف کی معرفت کے موتی بھی بانٹ رہے تھے ۔
حافظ صاحب اپنی تقریر میں یہ بھی بتا رہے تھے کہ وحدت الوجود کا فلسفہ جس طرح خواجہ فرید ؒ نے بیان کیا کوئی ماں کا لعل نہیں کر سکا۔ وحد الوجود کی بات میرے مرشد لجپال خواجہ فریدؒ کے بعد بس ہے ۔ پھر خافظ خواجہ کے یہ شعر پڑھتے : جگٖ وہم خیال تے خواب اے سب صورت نقش بر آبے قبلہ حافظ سراج احمدؒ ، ایسے مشاہیر کی خدمات اور شخصیت پر تحقیق ہونی چاہئے اور دینی مدارس کو تاریخ کے موضوع پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری آنیوالی نسلوں کو ہمارے مشاہیر کی خدمات اور کارناموں کا علم ہو سکے۔
مجھے خوشی ہے کہ مدرسہ سراج العلوم خانپور اس طرف متوجہ ہوا ہے۔ آخر میں عرض کروں گا کہ حضرت سراج کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ، جنہوں نے علم کی شمع کو ہر طرف روشن کیا اور ہر طرف علم کی سخاوت عام کی۔ حضرت مولانا مفتی محمد مختار احمد درانی مہتمم مدرسہ سراج العلوم آپ کے بڑے فرزند ہیں ، چھوٹے صاحبزادے حافظ خورشید احمد درانی بانی جامعہ سراج الاسلام خانپور اللہ کو پیارے ہو گئے ، قبلہ مفتی مختار احمد صاحب کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا احسن مختار درانی وفات پا گئے ۔
 جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادگان مدرسہ سراج العلوم کی چھاؤں میں دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ قبلہ حافظ سراج احمد درانی المعروف سراج اہلنست کا آخری جمعہ کا خطاب تاریخی بھی تھا اور یادگار بھی ، اس خطاب میں انہو ںنے اپنی موت کے بارے میں بتا دیا تھا ۔ گویا 12 جون 1976ء صبح آپ کا وصال ہو۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: