دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی قوم پرست سیاست اور آصف خان||حیدر جاوید سید

غم روزگار انہیں دیار غیر لے گیا۔ برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں۔ دوسرے زمین زادوں کی طرح ان کا دل بھی وسیب میں ہی اٹکا ہوا ہے۔ ا

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارادہ یہی تھا کہ ’’افغان منظرنامے‘‘ کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں سرحد کے دونوں اور کے ذمہ داران کی سوچوں، قلابازیوں، جنگجوئوں کی میڈیائی فتوحات کے اچانک تھم جانے اور امریکی طیاروں کی جنگجووں کے ٹھکانوں پر بمباری کے علاوہ عید کے دن نماز عید کے دوران داعش کی طرف سے کابل کے صدارتی محل پر داغے گئے دو راکٹوں کے حوالوں سے کچھ مزید عرض کروں۔ ارادہ ملتوی اس لئے کرنا پڑا کہ ہمارے دوست اور بیرون ملک مقیم سرائیکی قوم پرست رہنما آصف خان نے ٹیلیفون پر یاد کیا۔
طویل عرصہ بعد تفصیل کے ساتھ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال، پاکستانی سیاست اور بالخصوص سرائیکی وسیب میں نیشنل ازم کی اب تک کی جدوجہد پر ان کی آرا سے آگاہی ہوئی۔ آصف خان پرانے سیاسی کارکن ہیں، عملی سیاست کے مختلف مرحلے انہوں نے 1970ء کی دہائی میں طے کئے۔
غم روزگار انہیں دیار غیر لے گیا۔ برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں۔ دوسرے زمین زادوں کی طرح ان کا دل بھی وسیب میں ہی اٹکا ہوا ہے۔ اپنی بساط کے مطابق وسیب کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے آواز بلند کرتے اور حصہ ڈالتے رہتے ہیں ان دنوں وہ اپنی سیاسی جماعت’’وسیب نیشنل پارٹی‘‘ کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہیں۔
وسیب کے سیاسی منظرنامے اور مخصوص فہم کی سیاسی روایات میں ان کی جماعت کتنی جگہ بناپاتی ہے اس کا فی الوقت تعین ممکن نہیں۔ وجہ یہی ہے کہ سیاسی عمل آگے بڑھنے کی پرعزم جدوجہد سے عبارت ہے۔
سرائیکی وسیب میں پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں اور ان کے پرجوش حامیوں کی بنائی فضا میں ایک نئی قوم پرست پارٹی بنانا اور اس کے لئے سازگار حالات پیدا کرنے کے لئے بہرطور جدوجہد کے ساتھ یکسوئی، تدبر اور حوصلہ بھی درکار ہے۔
آصف خان سمجھتے ہیں کہ (ن) لیگ پنجاب، پیپلزپارٹی سندھ، اے این پی خیبر پختونخوا اور بی این پی و بی اے پی بلوچستان کی جماعتیں ہیں۔ تحریک انصاف مالکان کی جماعت ہے اس میں وہ سارے طبقات شامل ہیں جو مالکوں کے اشارے پر سیاست اور ہجرتیں کرتے ہیں۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ سرائیکی وسیب کی اپنی سیاسی جماعت ہو۔ وہ اپنی جماعت کا مستقبل روشن دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وسیبی سیاست میں قوم پرست کی بجائے نیشنلسٹ کی اصطلاح زیادہ بہتر ہے۔ یہی واحد صورت ہے جس کی بدولت وسیب میں مقیم آبادی کی دوسری اکائیوں کے درمیان اعتماد سازی پیدا کرکے انہیں ساتھ لے کر چلا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وسیب کی تحریک طبقاتی نہیں قومی تحریک ہے اور قومی تحریک میں تمام طبقوں کی شمولیت کی گنجائش ہوتی ہے۔
ان کے خیال میں غیرمقامی جماعتوں، پی پی پی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی وغیرہ کو چیلنج کرکے ہی ایک مقامی سیاسی جماعت وسیب کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے اس حوالے سے وہ مجھ طالب علم کے تجزیہ سے متفق نہیں تھے یقیناً یہ ان کا حق ہے۔
میری رائے یہ تھی کہ سرائیکی جماعتوں یا کسی ایک جماعت کو وسیب میں عوامی پذیرائی کے اس مقام پر بہرطور ہونا چاہیے کہ وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں انتخابی سیاست میں ان سے اتحاد کریں اس وقت سرائیکی وسیب کی سیاسی طاقت اپنی فطری حلیف جماعت کے ساتھ اتحاد کرے۔
فیڈریشن میں سیاست کے مروجہ طریقے اپنانے ہوں گے۔
جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے آپ گھماپھراکر وسیب کو پیپلزپارٹی کے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری رائے میں وسیب کی اپنی جماعت فیڈریشن کے اداروں میں وسیب سے نمائندگی حاصل کرکے ہی حقیقی کردار ادا کرسکتی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے کہ مالیات اور دوسرے وسائل میں سے وسیب کا حصہ حاصل کیا جائے۔
آصف خان یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو نئے ساتھیوں کے تعاون سے منظم کررہے ہیں۔ برسوں یا عشروں سے قوم پرست سیاست میں سرگرعمل دوستوں سے انہیں شکایات بھی ہیں اور تحفظات بھی۔ عین ممکن ہے یہ شکایات و تحفظات بجا ہوں بہرطور اس حوالے سے انک ی رائے ذاتی تجربوں کی بنیاد پر ہی ہوگی۔
مجھ طالب علم کے خیال میں قوم پرست سیاست قومی شعورسے عبارت ہوتی ہے اور یہ بائیں بازو سے قربت رکھتی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ بائیاں بازو طبقاتی جدوجہد کرتا ہے ہم وسیب کی قومی شناخت پر سیاسی جماعت منظم کررہے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ نئے خون کو آگے لایا جائے جو وسیب میں مقیم دوسری نسلی اکائیوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے۔
آصف خان پرانے ترقی پسند سیاسی کارکن ہیں بدلتے ہوئے حالات اور سیایس عمل میں وہ اپنی فکر کو لئے جماعت سازی کے عمل میں مصروف ہیں۔ فیس بک لائیو کے ذریعے وہ طویل عرصہ سے اپنے ہم خیالوں سے محو گفتگو رہتے ہیں۔
ان کی سیاسی اٹھان اور مستقبل بارے فی الوقت پیشنگوئی ممکن نہیں البتہ میری رائے یہی ہے کہ سرائیکی قومی سیاست میں سرگرم جماعتوں اور شخصیات کو یہ امر بہرطور مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ فیڈریشن ہے کنفیڈریشن نہیں۔
اپنے عصری شعور اور قومی ضرورتوں کے پیش نظر سیاسی جماعت یا جماعتوں کی موجودگی غیرضروری نہیں دوسری اقوام میں بھی قوم پرستوں کے ساتھ وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں موجود ہیں اور وہ انتخابی عمل میں اپنا اپنا حصہ حاصل بھی کرتی ہیں۔
حصہ کے کم یا زیادہ ہونے میں مالکان کی ڈنڈی بازی اپنی جگہ لیکن وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی اہمیت بہرحال ہے۔
آصف خان اپنی جماعت ’’وسیب نیشنل پارٹی‘‘ کو وسیب میں یونین کونسل کی سطح تک منظم اور تنظیم سازی کے حوالے سے پرامید ہیں۔ دیگر قوم پرست جماعتوں اور دوستوں کی طرح ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنا موقف، اغراٗض و مقاصد وسیب کے سامنے رکھیں۔ حتمی فیصلہ تو بہرطور وسیب کے رائے دہندگان کو ہی کرنا ہے
البتہ یہ ضرور ہے کہ انہیں اس بات کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے کہ قوم پرستی کی سیاست کے پچھلے چار عشروں میں قوم پرست جماعتیں وسیب میں سیاسی قوت کیوں نہیں حاصل کرپائیں۔ عوام اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان موجود فاصلے کیسے کم ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author