گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ قومیں شاعروں کے دل میں پیدا ہوتی ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں پنپتی اور موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ ان کا اصل کوٹ انگریزی میں یوں ہے۔۔۔
Nations are born in the hearts of poets,they prosper and die in the hands of
politicians.
منگل کی شام ڈیرہ کے ممتاز ماہر نفسیات ۔دانشور اور مصنف ڈاکٹر شاھد مسعود خٹک نے ڈیرہ کے کچھ ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کو جمع کیا اور ایک میز پر بٹھا دیا ۔ ان میں ایڈیشنل کمشنر ایف بی آر اور کئی کتابوں کے مصنف جناب سلطان ناصر ۔اعتدال کے چیف ایڈیٹر جناب عرفان مغل ۔ اممتاز ادیب ۔محقق ۔کالم نگار جناب وجاہت علی عمرانی ۔احقر گلزار احمد اور نوجوان تخلیق کاروں میں رمیز حبیب۔علی میمن اور عبید کھوکھر شامل تھے۔
بات ڈیرہ کے ادب و ثقافت کے فروغ سے ہوتی ہوئی شھر کی تعمیر ترقی پر چلی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ماضی میں ایک شھر جو ادب و ثقافت ۔تعلیم و ترقی و تجارت کا مرکز تھا کیسے پیچھے چلا گیا ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ یہ بات سن کر حیران ہونگے کہ آج سے سو سال پہلے پاوندہ سراے جو پاوندہ گیٹ کے اندر قائم ہے اس کو انگریز کِنگ منڈی کہتے تھے کہ یہ برصغیر کی ایک اہم منڈی تھی جہاں کروڑوں روپےکا کاروبار ہوتا تھا۔اور اس کو منڈیوں کے بادشاہ کا درجہ دیا گیا۔ ایک طرف تو صوبہ سرحد میں۔۔ درہ گومل۔۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کا واحد مرکزی تجارتی گیٹ وے تھا ۔دوسری طرف ڈیرہ کی اس منڈی میں جن غیر ممالک سے سامان آتا اور فروخت ہوتا تھا ۔ان میں۔امریکہ۔برطانیہ۔ سنگاپور۔افغانستان اور برما شامل تھے۔جن بڑے شھروں سے سامان تجارت آتا تھا ان میں کلکتہ۔بمبئی۔دہلی ۔کانپور۔ شاہ پور۔جے پور۔امرتسر ۔مدراس۔کرناٹک ۔کراچی شامل ہیں۔جب کوچی پاوندے افغانستان سے تجارتی سامان لے کر اس منڈی پہنچتے تو ہندو ان کو ۔۔تمھارا ایمان سلامت رہے ۔۔۔کہ کر استقبال کرتے۔۔اور پاوندے انکو کہتے۔۔تمھیں بخت لگے۔۔۔پاوندہ سراے میں بڑی تعداد میں کوٹھے اور رہایشی ماڑیاں بنائی گی تھیں جس کے اندر سامان رکھا جاتا اور رہایش بھی تھی۔اس کے علاوہ رش کے دنوں میں خیمے بھی لگتے۔جو سامان پیک ہوتا اسے باہر رکھ دیتے باقی سامان اندر کمروں میں رکھ دیا جاتا۔ ڈیرہ وال ان ماڑیوں اور کمروں کے کرایۓ سے بہت پیسہ کماتے تھے۔کابل۔خراسان۔قندھار سے جو سامان آتا اس میں قالین۔کمبل۔پٹو۔پوستین۔ چلغوزے۔بادام۔پستہ۔کابلی اور قندھاری انار۔خراسانی گھی۔ملٹھی اور ہینگ ہوتی تھی۔ یہ سارا سامان ٹیکس فری تھا اور تاجروں کی تحویل میں ان کی کوٹھیوں میں رکھا جاتا۔ اسی جگہ پر کروڑوں روپے کے کپڑے۔گڑ۔چینی بھی رکھی ہوتی تھی۔ اس منڈی سے صرف شھر لے جانے والے سامان پر محصول چونگی لاگو تھا جس سے کمیٹی کو لاکھوں کی آمدنی ہوتی۔ 1928ء میں بنگال میں ایسا کال پڑا کہ وہ پاوندوں کا لاکھوں کا قرضہ نہ دے سکے۔ اس کے نتیجے میں پاوندوں نے ڈیرہ کے سیٹھوں کا ساٹھ لاکھ روپیہ ادا نہ کیا اور افغانستان چلے گیے اس طرح ڈیرہ وال سیٹھوں کو کافی نقصان ہوا۔ یاد رہے یہ 25روپے فی سونے کے تولہ ملنے کا زمانہ تھا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں ڈیرہ کے تاجروں کے پاس کتنی دولت تھی ۔ اس زمانے میں تجارت سے ڈیرہ میں دولت کی اس قدر ریل پیل تھی کہ شھر میں پانچ بنک کام کر رہے تھے۔ سٹی پولیس سٹیشن کے پاس پنجاب نیشنل بنک لمیٹڈ تھا۔گوسیاں والا محلہ میں چوہدری میلائی رام بھاٹیہ کے گھر کی پہلی منزل پر بھرت بنک لمیٹڈ قایم تھا۔تیسرا چاولہ بنک ڈاکٹر بہاری لال سوٹا کی دکان کے ساتھ تھا۔توپانوالا بازار میں فرنٹیر بنک اور مسلم بازار میں کواپریٹیو بنک موجود تھے ۔ منڈیوں کی دلالی کا کام بھی ڈیرہ کے سیٹھ کر رہے تھے۔جب اتنی خوشحالی تھی تو شھر میں بہت سے سکول۔ہسپتال۔سڑکیں۔لائیبریریاں اور باغات بھی بناے گیے جس سے ہر کس و ناکس فاعدہ اٹھاتے رہے۔ علم ودانش اور تعلیم کی وجہ سے ڈیرہ کو اس وقت کے صوبہ سرحد کے انٹیلیکچولز کا بھی مرکز مانا جاتا تھا۔
منگل کی شام اس غیر رسمی بات چیت میں شامل سب دوستوں کا اتفاق تھا کہ کسی ملک اور شھر کی ترقی میں امن اور اتحاد بنیادی فیکٹرز ہیں جس سے ادب و ثقافت اور تعلیم و تجارت کا فروغ ہوتا ہے۔لڑائی جھگڑے۔فرقہ واریت ۔دھشت گردی ۔نا انصافی منزل کھوٹا کر دیتی ہے اور قوم و ملک پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم امن اتحاد کے فروغ کے لیے کام کریں تاکہ پورا ملک اور ڈیرہ پھلاں دا سہرا ۔۔۔پھلتا پھولتا رہے۔اس سلسلے میں یہاں کے دانشوروں کو اکٹھا کیا جاے گا تاکہ وہ قوم و ملک کے۔
Shaping the future
میں مدد دیے سکیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر