عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مڈل کلاسیوں کے اپنے بڑے رولے رپے ہیں جیسے کہ پیسہ جوڑنا، ناک اونچی رکھنا، کمیٹیاں ڈالنا، اچھے سکولوں کی فیس بھر بھر کہ ادھ موئے ہوجانا یا پھر شادی کی تقریبات کی خاطر آپے سے باہر ہو جانا۔
ساری زندگی تگ و دو میں گزارنے والے یہ حوصلہ کہاں لا پاتے ہیں کہ وہ ایلیٹ کلاس میں گھسنے کا یارا کریں اور ان سے برابری کی معمولی سی بھی کوشش کریں۔
سو قصہ مختصر کہ ماشااللہ سے میں نے اپنا پورا سوشل سرکل کھنگال لیا، رشتے داروں سے لے کر دوستوں اور پرفیشنل ساتھیوں تک، حد نگاہ تک نہ کوئی ایلیٹ کلاس سے ہے نہ ہی کسی کا کوئی قریبی دوست یار اشرافیہ کا ہے۔ سب کے سب کم بخت فقرے ہی نکلے۔
اس لیے پاکستانی اشرافیہ کے بچوں تک براہ راست رسائی نہ ملنے اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں گزرتی زندگی کا مشاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے میں تبصرہ یا تجزیہ جھاڑنے کے قابل نہیں، ہاں سوال ہی سوال ہیں۔
نور مقدم بیچاری بڑی سفاکیت سے جان سے گئی، وہ سفیر کی بیٹی تو اس کا مبینہ قاتل ایک جدی پشتی کاروباری رئیس کا بیٹا ظاہر جعفر، مقام قتل پاکستانی اشرافیہ کے شہر اسلام آباد کا مہنگا ترین علاقہ۔ یہ کیس اپنی نوعیت کی وجہ سے ہم عام پاکستانیوں کے لیے عجیب ہے اور کچھ کچھ ہماری سمجھ سے اوپر کی بات ہے۔
غربت تو ہر جرم کی ماں سمجھی جاتی ہے۔ عام توجیح یہی ہے کہ بندہ غریب ہو تو جاہل رہ جاتا ہے، اخلاقیات سیکھنے کا وقت نہیں ملتا، قانون کا خوف نہیں ہوتا، وسائل تک پہنچ نہیں ہوتی، عورت ہی کیا انسان کی عزت نہیں ہوتی۔ بندہ غریب ہو تو چھینا جھپٹی، مارا ماری، ظلم زیادتی، وحشت بربریت سبھی الزام لگتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔
نور مقدم کیس ایلیٹ کلاس، ایلیٹ کلچر، ایلیٹ بچے بچیوں کے کئی تہوں میں چھپے گڑ بڑ معاملات سطح پہ لایا ہے۔ ’رچ کڈز آف پاکستان‘ کے ذاتی، نجی، گھریلو، سماجی، نفسیاتی اور جنسی مسائل کیا ہیں یہ کبھی زیر بحث آئے نہ آج سے پہلے کسی کو اتنی فرصت تھی۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبریں، کچھ ایلیٹ کلاس کے نوجوانوں کی پوسٹس، ٹوئٹس، سکرین شاٹس، ان کے تبصرے، ہیش ٹیگ کے ساتھ مبہم سی آپ بیتیاں اچانک منظر عام پہ ہیں۔ اور ہم عام سے گھروں کے عام سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال ہی سوال ہیں۔
کیا کراچی، لاہور، اسلام آباد کے انتہائی مہنگے ترین علاقوں میں بنی یہ بڑی بڑی کوٹھیاں ایسی ہی بلند چیخوں، دبی ہوئی سسکیوں، مدد کے لیے التجاوں اور ظالم کے قہقہوں سے گونجتی ہیں؟
کیا ہر طرح کی اعلیٰ تعلیم، انتخاب کی آزادی، معاشی خوشحالی، ساری دنیا کا سفر، بےحساب وسائل کے باوجود ایلیٹ کلاس کی لڑکیاں اپنے سماجی دائروں میں مجبور، مقید، غیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں؟
دولت کی غیرمعمولی ریل پیل کے ہوتے ہوئے بھی کیا اس کلاس کی عورت معاشی طور پر غیرمستحکم ہوسکتی ہے؟ کیا انہیں بھی گھریلو تشدد، کردار پہ غلط الزامات، سسرال کا دباو، شوہر کا ظلم وغیرہ جیسے ’سو مڈل کلاس‘ مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو پھر بولتی کیوں نہیں؟
کیا اونچی اونچی فصلیوں کے پیچھے، کئی سو گز پھیلے ہرے سبزے کے بیچ میں کھڑے بنگلے دراصل گھر نہیں عشرت کدے ہوتے ہیں؟
کیا اشرافیہ کے سب ہی مرد، عورتیں، نوجوان لڑکے لڑکیاں ساری رات پارٹی ہی کرتے رہتے ہیں جہاں جام، آزادی اور منشیات کھلے عام ہوتی ہے؟ طاقت کا نشہ تو ہر وقت سر پہ چڑھا ہوتا ہے پھر یہ ہوش میں کب آتے ہیں؟
کیا رئیس کی اولاد ہونے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ والدین نہیں آیا پالتی ہے، کھانا ماں کے ہاتھ کا نہیں باورچی سے ملتا ہے، ساتھ باپ کا نہیں ڈرائیور کا ہوتا ہے، اعتماد خود پہ نہیں تنخواہ دار مسلح گارڈ پہ ہوتا ہے؟
کیا امیر زادوں اور نواب زادیوں کو خواہش پوری کرنے کے لیے دوسری بار مانگنا نہیں پڑتا، مالی نقصان کا خوف نہیں ہوتا، کچھ غلط ہو جائے تو انجام سے ڈر نہیں لگتا، لوگ کیا سوچیں گے اس کی پرواہ نہیں ہوتی؟
کیا اس کلاس کے کم عمر لڑکے لڑکیوں کو جنسی رویوں میں کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں ہوتا؟ کیا انہیں جنسی تسکین کے لیے قانون، شریعت، عمر، اجازت یا معاشرتی قدروں میں سے کسی بھی رکاوٹ کا پاس نہیں ہوتا؟
کیا بعض امیروں کے بچے اپنے سکول کالجزمیں ہی منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں؟ کیا ان کے تعلیمی ادارے بھی ان کے والدین کے پیسے اور اثر ورسوخ کے دباو تلے خاموش رہتے ہیں؟ کیا ان امیر بچوں کے نشے کی لت کو والدین نوجوانی کا مسئلہ کہہ کر دبا دیتے ہیں؟
اور آخری سوال۔ کیا ایلیٹ کلاس کے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں نفسیاتی مسائل معاشرے کی دوسری کلاس سے زیادہ ہیں؟ کس قسم کے ذہنی صحت کے چیلنج انہیں درپیش ہیں؟ اور کیا ان کی شخصیت کے جھول میں کہیں نا کہیں ایلیٹ ازم کا ہاتھ ہے؟
اشرافیہ کے نوجوان یقیناً سب کے سب برے نہیں ہوتے، نہ ہی ہر عالیشان کوٹھی اخلاقی طور پہ بدحال ہے۔ ’رچ کڈز‘ میں بہت سے ہیں جنہیں جانوروں سے پیار ہے، سادے کپڑے پہنتے ہیں، غریبوں کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں، پڑھتے لکھتے ہیں، فنون لطیفہ میں دلچسپی ہوتی ہے، یہ آرٹسٹ بننا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی ذاتی زندگی کس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ ان کے والدین بھی شاید نہیں۔
یہ رچ کڈز جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں وہ چمچہ کب رگ جاں کاٹ دینے والی چھری بن جاتا ہے اس کا علم، اس مسئلے کا ادراک اور اس کا علاج ہم عام عامی لوگ نہیں دے سکتے۔ یہ جس زہر کے کاٹے ہیں تریاق بھی وہیں سے ڈھونڈنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر