زاہد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج28-جولائی ہے اور 44-سال پہلے آج ہی کے دن شہید چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے مری میں قید سے آزاد کیا تھا۔5-جولائی 1977 کو جنرل ضیاء اور اس کے فوجی ٹولے نے ایک آئینی اور جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک منتخب وزیرِاعظم کو مری میں قید کر دیا تھا اور اقتدار کے بھوکے جنرل نے خود اقتدار پہ قبضہ کر لیا تھا۔ چیئرمین بھٹو رہائی کے بعد اسلام آباد سے سکھر ایئر پورٹ پہنچے اور وہاں سے سڑک کے راستے لاڑکانہ میں اپنے گھر المرتضیٰ ہاؤس پہنچے۔
اُن کی آمد کی اطلاع پر مقامی کارکنوں اور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد ان سے ملنے آنا شروع ہو گئی۔ چیئرمین بھٹو 31-جولائی تک لاڑکانہ میں رہے اور یکم اگست کو لاڑکانہ سے روہڑی پہنچے اور ٹرین سے کراچی تک کا سفر کیا۔ ان کے ٹرین سے سفر کا پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا مگر مساوات اخبار میں ایک روز پہلے ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی کہ وہ ٹرین سے کراچی جائیں گے تو روہڑی ریلوے اسٹیشن پر عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں دیکھنے کیلیے موجود تھی جنہوں نے والہانہ انداز میں اپنے لیڈر کا استقبال کیا۔
روہڑی سے کراچی تک ہر ریلوے اسٹیشن پر عوام کے بڑے بڑے اجتماع جئے بھٹو کے نعروں سے انہیں خوش آمدید کہتے رہے اور مارشل لاء کی لگائی ہوئی پابندیاں پامال کرتے رہے ۔چیئرمین بھٹو کے اس غیر اعلانیہ ٹرین مارچ نے فوجی ٹولے کو 5-جولائی کو تختہ الٹنے کا جواب دے دیا۔ اس دن راولپنڈی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے جنرل ضیاء اور اسکے حواریوں کی نیندیں ضرور اُڑی ہوں گی۔ٹرین جب کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں موجود کارکنوں نے جئے بھٹو کےفلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ ہجوم کی بہت زیادہ تعداد کے باعث چیئرمین بھٹو کینٹ اسٹیشن پر نہ اتر سکے کیونکہ پلیٹ فارم پر تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور ٹرین کی چھت بھی کارکنوں سے بھری ہوئی تھی اور دوسری طرف بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے لہٰذہ چیئرمین بھٹو اگلے اسٹیشن یعنی سٹی اسٹیشن پر اترے۔
کراچی کینٹ اسٹیشن پر موجود کارکنان کو جب معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب سٹی پر اتریں گے تو انہوں نے کینٹ اسٹیشن سے نکل کر پیدل ہی 70-کلفٹن کا رخ کر لیا ان میں ایک بڑی تعداد تقریباَ دوڑتے ہوئے کلفٹن روڈ سے گذر رہی تھی اور یہ ایک بڑا دلچسپ منظر تھا۔ کارکنوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ چیئرمین کے 70-کلفٹن پہنچنے سے پہلے ہی ان کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ چیئرمین بھٹو کے 70-کلفٹن پہنچنے پر حالت یہ تھی کہ بنگلے کے چاروں طرف کی سڑکیں کارکنوں اور عوام سے بھر چکی تھیں اور ان کیلئے اپنے گھر میں داخل ہونا مشکل ہو گیا تھا۔ بنگلے کے اندر بھی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد داخل ہوچکی تھی اور بنگلے کے اندر لان کے ساتھ بنی دیوار بھی گر چکی تھی۔
جب چیئرمین کے لیے گھر میں داخل ہونے کی ہر کوشش ناکام ہوتی رہی تو کارکنوں نے چیئرمیں بھٹو کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر اپنے آگے والے کارکنوں کے کندھوں پر منتقل کرنا شروع کر دیا اور اس طرح چیئرمین بھٹو اپنے گھر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بعد ازاں کچھ دیر بعد انہوں نے دروازے میں کھڑے ہو کر کارکنوں سے مختصر خطاب کیا ۔ میں اپنے ایک ساتھی فوٹوگرافر کے ساتھ اسکی بائیک پر دوڑتے کارکنوں کے درمیان سے گذر کر 70-کلفٹن پہنچا تھا اور کارکنوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھ کر کسی اونچی جگہ کی تلاش میں تھا ۔بنگلے کے اندر مین بلڈنگ کے دروازے کے پاس اونچی جگہ صرف انیکسی تھی جہاں مرتضیٰ اور شاھنواز کے کمرے تھے اور اس کے آگے ایک بالکونی تھی، میں نے یہ جگہ دیکھ رکھی تھی اور اتنے بڑے ہجوم میں پھنسے بغیر تصویریں بنانے کیلئے یہ بہترین جگہ تھی۔
میں اس کی سیڑھیوں کی طرف گیا تو وہاں نوکر بشیر ایک اور نوکر شفیع کے ساتھ کھڑا تھا اور اس طرف آنیوالے کارکنوں کو روک رہے تھے کہ یہاں بھٹو صاحب کی فیملی ہے یہاں سے ہٹ جائیں لیکن انہوں نے مجھے نہیں روکا اور میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر بالکونی میں پہنچا تو وہاں چاروں بھائی بہن (بینطیر، مرتضیٰ، صنم اور شاھنواز) کھڑے تھے اور کارکنوں کے بنگلے کے اندر داخل ہونے کا منظر دیکھ رہے تھے۔
میرے پہنچتے ہی سب نے پلٹ کر مجھے دیکھا ۔ بینظیر کی آواز آئی ” پاپا کا ٹرین کا سفر کیسا رہا” میں نے فوراَ جواب دیا "بے مثال” (یہ تمام گفتگو انگریزی میں ہوئی) میں نے مختصراَ ان کو عوام کی طرف سے چیئرمین بھٹو کے والہانہ استقبال کے بارے میں بتایا اور جب میں نے ان کو یہ بتایا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن پر اتنی بڑی تعداد میں لوگ تھے کہ بھٹو صاحب ٹرین سے اتر نہ پائے اور اگلے اسٹیشن پر جا کر اترے ہیں اور کینٹ اسٹیشن سے یہ ہجوم بھاگتا ہوا یہاں پہنچ رہا ہے تو چاروں نے حیرت کا اظہار کیا اور پھر وہ آپس میں اس پر ڈسکشن کرنے لگے اور میں بنگلے میں داخل ہونے والے ہجوم کی تصاویر بنانے میں مصروف ہو گیا۔یہ بنگلے کے اندر والی اور بھٹو صاحب کی کندھوں پر دروازے میں داخل ہونے والی تصاویر میں نے اسی بالکونی سے بنائی تھیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر