شمائلہ حسین
قصہ تو یہ گھر کی سطح سے شروع ہوتا ہے مثلاً اپنے ابا جی کو ہی دیکھ لیں۔ ادھر اماں جی نے کسی بات پر احساس دلایا کہ فلاں فیصلہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں، اُدھر ابا کی غیرت جوش میں آئے گی اور جھڑک کر کہیں گے، ”تمہیں زیادہ پتہ ہے کیا؟ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔‘‘ اس زعم میں اکثر وبیشتر ہمارے بزرگ ایسے ایسے غلط فیصلے کر جاتے ہیں کہ پھر ساری عمر پچھتاتے ہیں لیکن مانتے پھر نہیں۔
بہو آئے گی چاہے کتنے ہی اچھے مزاج اور خاندان سے ہو لیکن اس کی ہر شے، ہر رشتے اور ہر ادا کو جیسے تیسے کم تر بتایا جائے گا اور احساس دلائیں گے کہ اس کی صورت، نسب اور ڈگریاں تو صرف چولہے میں جھونکنے کے قابل تھیں، یہ تو ہم ہیں، جنہوں نے ماتھے کا جھومر بنا لیا۔
محلے میں نکلیں تو کسی کو کسی کی شکل پر ٹھٹھہ سوجھتا ہے تو کسی کو دوسروں کے کپڑوں پر۔ کوئی باڈی شیمنگ سے ایک سینٹی میٹر ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا تو کسی کی سواری کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے، بھلے خود کے پاس قبل از مسیح کی ایف ایکس ہو، دوسرے کی ہنڈا اکارڈ بھی ہیچ بتائیں گے۔
آفس میں باس ہمیشہ درست ہو گا تو یونیورسٹی سکول کالج کے طلبہ کے گروپ میں مرد طلبہ اپنی زیادہ سمجھ بوجھ کا رعب ڈالتے دکھائی دیں گے۔ کولیگز ہوں گے تو اٹھتے بیٹھتے ایک دوجے کو تو مذاق کا نشانہ بنائیں گے ہی لیکن خواتین کو ذرا سی غلطی پر بھی کم تری کا احساس دلا دلا کر یہ جتائیں گے کہ انہوں نے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی غلطی کیوں کر ڈالی؟
شاعر ادیب ہیں تو نئے آنے والوں کو قبول نہیں کریں گے۔ اور تو اور اپنے ہم عصروں کو بھی قبول کرنے میں ایسے متعامل رہیں گے کہ جب تک کوئی معصوم بوڑھا ترین ہو کر قبر میں اتر نہیں جاتا، اس کے مقام و مرتبے پر مجال ہے، جو کبھی متفق ہو جائیں۔
یعنی کسی کی عظمت کے اعتراف کے لیے بھی اس کا مرنا شرط ٹھہرایا جاتا ہے۔ یوں بھی مرنے والے کی برائی کرنا تو ہمارے کلچر میں بہت نیچ حرکت خیال کی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا ٹرولنگ نے پوری کر دی۔
کوئی شاعر ہے، لکھاری ہے، اداکار یا گلوکار، مخصوص سوچ کے حامل گروپ ایسی ایسی میمز اور مزاحیہ باتیں ان سے جوڑ کر اڑا دیتے ہیں کہ دنوں میں کسی بھی اچھی خاصی شخصیت کو روپوش ہو جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر رہ نہیں سکتے تو ان کے کلچر کی خود ساختہ برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں اور اپنی نادیدہ اخلاقی قدروں کا ایسا پرچار کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ اچھا اور نیک شاید کی دنیا کی قوموں میں پایا جاتا ہو۔
جبکہ مسئلہ وہی ہے کہ!
کوئی ہم سے زیادہ خوبصورت کیوں ہے، کوئی ہم سے زیادہ باصلاحیت کیوں ہے، کسی کے پاس ہم سے زیادہ دولت اور مقام و مرتبہ کس لیے ہے؟ بحیثیت قوم ہم اپنے احساس کم تری کو احساس برتری میں بدل کر اپنے لیے اس نشے کا انتظام کرنے میں دل وجان سے مصروف ہیں، جسے کرنے کے بعد ہم سب کو لگتا ہے کہ ”میں سب کچھ سب سے زیادہ جانتا ہوں۔‘‘
سوچیے ذرا کسی کا کسی معاملے میں افضل ہونا قبول کر لیں گے تو کیا قیامت آ جائے گی۔ اگر کوئی کسی بات میں ہم سے آگے ہے تو ہم بھی کسی نا کسی صلاحیت، رتبے یا مقام میں کسی سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوبیوں کا اعتراف کر لینے میں کچھ نہیں جاتا۔ بلکہ ایک اچھا مثبت انداز فکر کا معاشرہ تشکیل پائے گا جس میں حسد اور مقابلے کا عنصر کم سے کم ہو گا۔ اپنی کمیوں کوتاہیوں کا احساس ہو گا تو ان پر محنت کر کے انہیں بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
جب فرد کی سطح پر مثبت تبدیلی کا آغاز ہو گا تو لا محالہ یہ مجموعی تبدیلی کا شاخسانہ ثابت ہو گا۔ مان لیجیے کہ آپ سب کچھ نہیں جانتے اور اس نہ جاننے میں کوئی سبکی بھی نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر